• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ نے کبھی ایسا شخص دیکھاہے، جسے خدا نے ایک خوبصورت اورفرماں بردا ربیوی عطا کی ہو مگر وہ اس سے جھگڑتا رہتا ہو۔ پھر وہ ایک کمترشکل کی عورت سے شادی کر لے۔ یہ معمولی شکل و صورت والی عورت اس پہ حکومت کرنے لگے۔ ایک نظر نہ آنے والی رسی اس نے اپنے شوہر کے گلے میں باندھ رکھی ہو۔ پھربھی وہ خوش رہتا ہو۔ لوگ حیرت زدہ ہوں کہ اس کی پہلی بیوی تو اچھی خاصی خوبصورت اورتابع فرماں تھی۔ پھر اس نے یہ کیا حماقت کی۔

درحقیقت یہ حماقت نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو چیز انسان کے سامنے سربسجود ہو جائے، جس میں تیزی، اکڑ، اتار چڑھائو، اسٹائل، سسپنس، سوچ اور ناز و ادا نہ ہو تو وہ چیز انسان کے لیے پر کشش نہیں رہتی۔ جب ایک شخص آپ کے سامنے مکمل طور پر جھک جائے، جب اس کی تمام تر ذہنی اپروچ آپ کو مکمل طور پر معلوم ہو ؛حتیٰ کہ اس کے منہ کھولنے سے پہلے ہی آپ کو معلوم ہو کہ اب اس نے کیا کہنا ہے تو وہ آپ کے لیے پرکشش نہیں رہتا۔ اسٹائل اور ادا میں بے انتہا خوبصورتی ہوتی ہے۔ کیا یہ بے وجہ ہے کہ ایک بے انتہائی امیر شخص 40ہزار روپے خرچ کر کے جینز کی ایک ایسی پتلون خرید رہا ہے جو تین جگہ سے پھٹی ہوئی ہے۔ مریم نواز صاحبہ کو حریف طنزاً ’’نانی ‘‘ کہتے ہیں۔ آپ ان کی بیس سال پرانی تصاویر کا موجودہ تصاویر سے موازنہ کر لیں۔ سارا فرق اسٹائل کا ہے۔ سیاست میں آنے سے پہلے انہوں نے اسٹائل اپنایا ہے۔ لکھنے میں بھی اسٹائل ہی بے انتہا کاٹ پیدا کرتا ہے۔ ’’ایک قتل جو نہ ہو سکا ‘‘ اور ’’ ایک قتل جو ہو نہ سکا ‘‘ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بہت سے ایسے لکھنے والے ہیں، جن کی معلومات اور تجزیہ انتہائی شاندار ہوتا ہے لیکن کاٹ نام کو نہیں۔

جس طرح انسان کی ایک ظاہری شکل و صورت ہوتی ہے، اسی طرح اس کی ایک عقلی یا دماغی شکل و صورت ہوتی ہے۔ لاشعوری طور پر انسان ہر شخص کی عقلی اور علمی شکل و صورت کا اندازہ لگاتا ہے۔ جب انسان کی عقل ایک مرتبہ ایک شخص کی علمی و عقلی شکل سے مرعوب ہو جائے تو وہ اس کی بے عقلی والی بات پر بھی چوں نہیں کرتا۔ اسی طرح جب ایک انسان یہ اندازہ لگا لے کہ مخاطب میں عقل کی کمی پائی جاتی ہے تو پھر وہ علم و حکمت والی بات سرزد ہوجانے پر بھی چھتر لے کر اس کے پیچھے دوڑے گا۔ بے عقلی کی بات پہ انسان کو فوراً غصہ آتا ہے۔ اسی طرح بڑے تناظر میں کی گئی بات پر انسان ششدررہ جاتا ہے۔ میرے استاد پروفیسر احمد رفیق اختر نے یہ کہا کہ آخر میں دو انسان باقی بچے تھے۔ ایک ہمارا جد امجد اور ایک ہم سے بڑے دماغ والا ( نی اینڈرتھل مین)۔ ہم منتخب ہوئے اور ہم پہ شریعت نازل ہوئی۔ وہ مسترد کر کے فنا کر دیا گیا تو میرے لیے یہ ایک بہت بڑا شاک تھا۔ یہ بات سائنسی طور پر مکمل ثبوتوں کے ساتھ کسی شک و شبے سے بالاتر ہے کہ دو ٹانگوں والی دو درجن مخلوقات ہم سے پہلے فاسلز کے ریکارڈ پر ہیں۔ اب جو شخص ساڑھے چھ کروڑ سال پرانے ڈائنو سار پر تو یقین رکھتا ہو لیکن تیس ہزار سال پرانے نی اینڈرتھل کو نہ مانتا ہو، جس کا ڈی این اے چھپ چکا تو میں اس کے ساتھ ہمدردی ہی کر سکتا ہوں۔

یہ عقلی خوبصورتی ہی ہے کہ آئن اسٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ کے سامنے تو لوگ مودب رہتے ہوں لیکن ہمارا لال ٹوپی والا سعودی عرب سے کوڑے کھا کر واپس آئے۔

انسان جن چیزوں کو نہیں دیکھ سکتا‘ ان کی بھی ایک تصوراتی شکل بنا سکتاہے۔ مریخ والوں کی عجیب و غریب تصوراتی شکلوں ہی کو دیکھ لیجیے، جن پہ کئی فلمیں بن چکیں۔ جذبات اور عقل کی شکل اگر بنانا ہو تو وہ کیسی ہوگی؟ جذبات کیسے ہوں گے؟ چیختے ہوئے‘ ہاتھوں میں نیزے اٹھائے‘دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجاتے ہوئے اور لہو میں لتھڑے ہوئے۔ اور عقل؟ شاید سفید اور نیلے رنگ کی‘ پری صورت‘اس کی ہر انگلی ایک چابی جیسی ہوگی۔ بارش کا پانی اکھٹا کرتی ہوئی‘ آتش دان میں آگ جلا کر گھر گرم کرتی ہوئی۔ مسائل حل کرتی، Initiativeلیتی ہوئی۔

عقل ہی مسائل حل کرتی ہے۔ عقل کی انتہا تھی کہ مسلمان کس حال میں مکہ سےگئے اور پھر کیسے جنگ کے بغیر واپس آئے۔ اگریہ کہا جائے کہ تخلیقات میں سے عقل خوبصورت ترین ہے‘تو یہ غلط نہ ہوگا ورنہ آئن اسٹائن اور نیوٹن جیسی شکلوں والے کتنے ہی لوگ گمنامی کی موت مرتے رہے۔ خوبصورتی کی اپنی اہمیت ہے‘ لیکن کچھ خوبصورت لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انسان جن کے خاموش رہنے کی دعا کرتا رہتاہے۔ ادھر انہوں نے بات شروع کی‘ ادھر ان کی خوبصورتی ختم۔

عقل ہی نے وزن کو انسانی کمر سے پہیے اور انجن پہ منتقل کیا۔ گھوڑوں سے گاڑیوں اور جہاز کاسفر طے کروانے والی۔ پنکھے کی ہوا‘ فون سے آواز دوردراز تک منتقل کرنے والی۔ شروع شروع کے دنوں میں جانورو ںپر کاٹھی ڈالنے والوں کے لیے عقل‘ طاقت اور دلیری تینوں درکار تھیں۔ایک لمحے کے لیے انسان سوچتا ہے کہ پہلے پہل جس انسان نے آگ استعمال کرنا سیکھا ہوگا‘ وہ تو اپنے قبیلے کی آنکھوں کا تارا ہو گا۔

مسلمانوں سے علم اور عقل چھن گئے۔ اسی لیے تو ہمارا یہ حال ہوا ہے۔ کسی باقاعدہ استاد سے تعلیم حاصل نہ کرنے اور لکھنا پڑھنا نہ جاننے والے ہمارے پیغمبرؐ نے تو صرف 23سال میں دنیا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل ڈالا تھا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین