• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مصری بحران اور مشرق وسطیٰ میں وسیع شورش نے امریکہ اور دنیا بھر میں یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ خطے کے پُرآشوب واقعات پر واشنگٹن کا ردِعمل کیسا ہونا چاہئے۔کئی ایک دلیل پیش کرتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ مشرق وسطیٰ میں پھیلے ہوئے تشدد کی محض تماشائی ہے۔ اس کی ایک مثال واشنگٹن کی جانب سے صدر مرسی کے اقتدار سے علیحدہ کئے جانے کے بعد ہونے والے خونریز کریک ڈاوٴن پر محض زبانی جمع خرچ کیا جانا ہے۔ نکتہ چینی کرنے والوں نے صدر اوباما پر فیصلے نہ کرنے کا الزام لگایا ہے اور ساتھ ہی عرب ممالک میں انقلابی صورتحال کے حوالے سے واضح لائحہ عمل مرتب نہ کر پانے کا بھی الزام لگایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہے کہ آیا جمہوریت کی حمایت کی جائے یا پھر جو کچھ استحکام کے نام پر ہورہا ہے، اس کی حمایت کی جائے۔مشرق وسطیٰ کی ایسی مشکل صورتحال کے وقت پالیسی کا غیر واضح ہونا خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ ایک دائیں بازو کے بدگو نے اوباما انتظامیہ کی جانب سے کارروائی نہ کئے جانے کو امریکہ کو بے وقعت بنائے جانے کا الزام لگا دیا۔
دوسرے لوگ اوباما کے اس طرز عمل کو ’بیک سیٹ‘ طرزفکر کا نام دے رہے گہیں، بظاہر اسے عوام کی تائید حاصل ہے جو کہ بیرونی جنگی محاذوں سے بیزار ہیں۔ یہ طرز فکر نئی قدامت پسندی کے تصور کا ردعمل ہے جس کے تحت مداخلت سے اجتناب کیا جارہا ہے۔ مذکورہ تصور کو اپناتے ہوئے اوباما کے پیشرو صدر بش نے عظیم تر مشرق وسطیٰ کے حصول کیلئے عراق اور افغانستان پر جنگ مسلط کی۔
اس نقطہ نظر کے تحت اوباما کا طرزعمل پیچیدہ صورتحال میں تحمل کا مظاہرہ کرنا اور کارروائی سے اجتناب کرنا ہے۔ جیسا کہ کسی تجزیہ کار نے کہا ہے کہ محض ایک ارب ڈالر سالانہ کیلئے مصر امریکی دھن پر بمشکل ہی رقص کرے اور شاید ہی اپنی سیاست کو اس کی خواہشات کے مطابق ڈھالے۔ امریکہ کے پاس ایسا کرنے کی قوت موجود نہیں ہے۔ امریکی طاقت کی حدود کا تعین امریکی وزیر دفاع کے ان لفظوں سے آشکار ہے جنہوں نے حال ہی میں کہا تھا کہ مصری صورتحال پر اثر انداز ہونے کی امریکی اہلیت محدود ہے۔ اسی پس منظر میں امریکی مصنف( جوکہ خارجہ پالیسی کے ماہر بھی ہیں) کی ایک نئی کتاب ہے اس بحث کو نئی جہت سے ہمکنار کرتی ہے، مذکورہ کتاب پر مصر میں ہونے والی حالیہ پیشرفت سے قبل خامہ فرسائی کی گئی جو کہ امریکہ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کا محض ایک مطالعہ نہیں ہے لیکن اس کے کلیدی پیغام کی براہ راست مطابقت حالیہ بحث سے ہے۔ حاس کا شمار ان مصنفین میں ہوتا ہے جو کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے ایک محدود کردار کے حامی ہیں (حالانکہ حال ہی میں انہوں نے شام کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزام کے حوالے سے امریکہ سے ٹھوس ردعمل کی استدعا کی تھی)۔
حاس نے واضح کیا ہے کہ ان معاشروں کی ازسرنو تشکیل کیلئے عظیم تر مشرق وسطیٰ کے مرکز نگاہ کی حامل خارجہ پالیسی سے اجتناب کیا جائے اور اس خطے کو اس کے حال پر چھوڑ دینا بھی کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ انہوں نے اس خطے سے مکمل طور پر لاتعلقی اور اس میں پوری طرح مشغول ہونے کی پالیسی انتہاوٴں میں سے درمیان کا راستہ اختیار کرنے پر زور دیا، جس کے مطابق براہ راست عسکری طور پر ملوث ہونے سے بچا جائے اور سفارتی و معاشی آلہٴ کار کو امریکی مفادات کے حصول کیلئے استعمال کیا جائے۔ انہوں نے اس خطے میں امریکہ کو معاشروں کی ازسرنوتشکیل کی کوششوں کے حوالے سے سختی سے انتباہ کیا کیونکہ ایسی کاوشوں کی منزل ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ اس کتاب کا تصور خاصا وسیع ہے، جس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ امریکہ کی سلامتی کو لاحق خطرہ خارجی نہیں بلکہ داخلی ہے۔ حاس لکھتے ہیں کہ امریکہ اپنے داخلی معاملات درست کئے بغیر عالمی سطح پر کوئی موثر کردار ادا نہیں کرسکتا۔ اسے اپنی بیرونی مہمات کو محدود رکھنا چاہئے اور اسے اس بابت تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور ملک کو درپیش اقتصادی اور قرضے کے چیلنجز سے نبردآزمائی کیلئے مزید نظم اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے ملک کا معاشی مستقبل اور اس کی عالمی حیثیت کو نقصان پہنچا۔ ان کا بنیادی خدشہ امریکہ کی وہ غلطیاں ہیں جن کی بنا پر اس کے بیرونی دنیا پر براہ راست اثر انداز ہونے کی اہلیت اور عالمی مارکیٹوں میں مسابقت کو خطرہ لاحق ہے، اس کے علاوہ دنیا بھر میں اس کے مفادات فروغ دینے کیلئے وسائل کی پیداوار اور سب سے بڑھ کر دوسروں کیلئے ایک مثال بننے کا مقصد خطرات سے دوچار ہے۔ تھامس فرائیڈ مین کے ایک فقرے کو صدر اوباما نے اپنی2011ء کی پالیسی تقریر میں بھی استعمال کیا تھا، حاس لکھتے ہیں کہ قومی تعمیر کی زیادہ اہمیت گھر کے اندر ہے نہ کہ کہیں اور۔ امریکہ کو خود اپنی ازسرنوتشکیل کرنی چاہئے نہ کہ دنیا بھر کی۔
تاہم وہ واضح طور پر خود کو اس مکتبہ فکر سے علیحدہ کرتے ہیں جوکہتا ہے کہ امریکہ روبہ زوال ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ امریکہ زوال پذیر نہیں ہورہا ہے بلکہ ایک ایسے وقت میں اس کی کارکردگی خراب ہے جبکہ دوسرے ملکوں کی کارکردگی ان کے ماضی کے مقابلے میں اور فی الوقت امریکہ سے بہتر ہے۔ جس سے امریکہ کی دنیا کو تبدیل کرنے کی اہلیت اور معاشی مقابلے کی استعداد کمزور ہورہی ہے۔ حاس کہتے ہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں میں امریکہ کا ردِعمل ضرورت سے زیادہ تھا، ایک دہائی کی جنگ نے امریکہ کی عالمی حیثیت اور قابلیت کی ساکھ دونوں کو نقصان پہنچایا۔ درحقیقت امریکہ کی بالادستی کو خارجی جنگوں نے اتنا ہی تہہ و بالا کیا جتنا کے داخلی کمزوریوں نے اس میں اپنا حصہ ڈالا لہٰذا انہوں نے امریکی طاقت کی طبعی ، سماجی و معاشی اساس کی بحالی پر زور دیا۔ اس میں صدر اوباما کی 2010ء کی قومی سلامتی کی تذویر کے تصور کی بازگشت نظر آتی ہے، اس تذویر کا آغاز اس نکتے سے ہوتا ہے کہ امریکی اثرورسوخ کی شروعات اس کے داخلی اقدامات سے ہوتی ہے۔ اس تذویر کے مطابق معاشی اساس کو امریکی طاقت کے زمرے میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ حاس صدر اوباما کے امریکی خارجہ پالیسی کے توازن کو مشرق وسطیٰ سے ایشیاء کی جانب کرنے کے مقصد کے حامی ہیں( ایشیائی خطے میں دنیا کی سب سے بڑی اور متحرک معیشتیں موجود ہیں جن میں دنیا کی بڑی طاقتوں کا اجماع بھی شامل ہے اور جہاں سے امریکہ کے وسیع تر مفادات اور عہدوپیماں وابستہ ہیں)۔ری پبلیکن انتظامیہ میں زیادہ وقت صرف کرنے والے حاس کو کتاب نے حقیقت پسند مکتبہ فکر سے وابستہ بتایا ہے، یہ مکتبہ فکر دنیا کا اسی طرح جائزہ لیتا ہے جیسے کہ وہ حقیقتاً ہے نہ کہ دوسرے مکتبہ ہائے فکر کی طرح جو کہ دنیا میں تبدیلی کیلئے اکثر طاقت کے استعمال کا مطالبہ کرتے ہیں۔مضامین کی طرز پر مرتب کردہ کتاب کے ابواب میں انہوں نے خارجہ پالیسی کے کئی نظریات کا جائزہ لیا ہے، آیا کونسا نظریہ بہتر ہے جس کو اپناکر امریکہ دنیا میں دوبارہ نیا کردار اور اثرورسوخ حاصل کرسکتا ہے۔ انہوں نے جمہوریت کے فروغ، انسان دوستی اور دہشت گردی کے خلاف کام کرنے کا جائزہ لیا لیکن سب کو ترک کردیا۔ بعدازاں انہوں نے کہاکہ دہشت گردی ہی وہ ایک چیلنج نہیں ہے جو کہ امریکی خارجہ پالیسی کو وضع کرے یا اس کے تمام پہلووٴں کا احاطہ کرے۔انہوں نے چوتھے پہلو مربوطی کا بھی جائزہ لیا، جسے انہوں نے حدود میں رکھنے کی پالیسی سے مختلف گردانہ ہے جو کہ مخصوص ممالک کیلئے حدود متعین کرنے کے حوالے سے ہوتی ہے۔ دوسری جانب مربوطی کا مطلب ان ممالک کو قریب لانا اور انہیں خطے اور عالمی ڈھانچے کا حصہ بنانا ہے۔ مربوطی مستقبل کیلئے اہم ہے کیونکہ یہ عالمی طرزحکمرانی کیلئے ضابطے اور ادارے تشکیل دیتی ہے اور مشترکہ مفادات کے حصول کیلئے یہ اقوام عالم کو اس میں شامل ہونے کی جانب راغب کرتی ہے۔حاس کی نظر میں خارجہ پالیسی کے اس آلہٴ کار کی آنے والے وقتوں میں بہت ضرورت ہے جبکہ حالیہ طور یہ محض رہنمائی کیلئے ہے۔ اس نظریئے کو اپنانے کے بجائے انہوں نے بحالی کے نظریئے کا انتخاب کیا۔ اس نظریئے کا مرکزی نکتہ اس جائزے کے مطابق ہے کہ آج دنیا امریکہ کیلئے پہلے کی بنسبت کم خطرناک ہے۔ یہ نظریہ امریکہ کو عارضی توقف کی پیشکش کرتا ہے تاکہ وہ اپنی توجہ اور اثاثوں کی ترجیحات کو دوبارہ متعین کرلے لہٰذا حاس خارجی کے بجائے داخلی چیلنجز پر زیادہ توجہ دینے اور ان پر وسائل صرف کرنے کی حمایت کرتا ہے، جس سے امریکہ کی قوت بحال ہوگی اور اسے اپنے ممکنہ تذویری رقیبوں سے نبردآزما ہونے کے قابل بنائیں گے۔وہ کہتے ہیں کہ بحالی کا نظریہ بھی مشرق وسطیٰ کے خطے پر ضرورت سے زیادہ توجہ دینے اور وہاں معاشروں کی دوبارہ تشکیل کیلئے طاقت کے استعمال سے اجتناب کرنا ہے۔ یہ نظریہ امریکہ کی زیادہ تر توجہ ایشیاء پیسیفک خطے کی طرف مبذول کرے گا جو کہ اس ملک کے تمام تر معاملات طے کرے گا۔ ان کی دلیل ہے کہ اس طرح خارجہ پالیسی میں بھی توازن پیدا ہوگا اور وہ عسکری محاذ سے ہٹ کر سفارتی اور معاشی محاذ کے استعمال کی جانب گامزن ہوجائے گی۔ مختصراً، خارجہ پالیسی کے زمرے میں بحالی کا نظریہ امریکی طاقت کیلئے داخلی وسائل کی بحالی کے بارے میں ہے اور اس توازن کا بحال ہونا کہ امریکہ دنیا میں کیاکرنا چاہتا ہے اور یہ کیسے ہوگا۔ حاس بس یہی چاہتے ہیں کہ امریکہ کی داخلی اور بیرونی دنیا میں کارکردگی یکسر تبدیل ہوجائے لیکن اوباما انتظامیہ ہمیشہ ہی اس سب کے حصول کی متلاشی نہیں رہی، حالانکہ اس ضمن میں اس سے غلطیاں بھی ہوئیں اور جہاں داخلی و خارجی مقاصد کے حصول کی راہ میں قیادت اور مقصدیت کی کمی کی وجہ سے اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑا؟ کیا اس نظرئیے نے اب تک نتائج مرتب نہیں کئے یا داخلی طور پر اس کے ملے جلے نتائج رہے۔ جانبدار سیاست کی وجہ سے اس کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے اور ایسی بیرونی دنیا جو کہ کسی کے قابو میں نہیں اس میں اس کے غیر یقینی نتائج مرتب ہوئے؟ فرہنگِ حاس کے مطابق اس بے قطبہ ماحول میں یہ فرضیت کہ امریکہ اپنا غلبہ بحال کرسکتا ہے تو ہمیں دنیا کی حقیقت کی جانب نگاہ دوڑانی ہوگی جس میں کڑی ساختیاتی تبدیلیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں اور جس کی طاقت مغرب سے مشرق کی جانب منتقل ہورہی ہے اور جس کا فیصلہ کن مستقبل لامرکزیت ہے۔
تازہ ترین