چار فروری کو سری لنکا کے شہری74واں یومِ آزادی مناتے ہیں، ہر سال یہ قومی دن سری لنکا میں برطانوی سامراج کے چار سو سالہ دور کے خاتمے کے بعد آزادی اور خودمختاری کے حصول کی یاد دلاتا ہے، انگریز دور میں سری لنکاکوبرٹش سیلون کے نام سے پکارا جاتا تھا، چار فروری 1948ء کو سری لنکن عوام کی جدوجہد رنگ لے آئی اور دنیا کے نقشے میں ڈومینیئن آف سیلون کے نام سے ایک آزاد اور خودمختار ملک کا اضافہ ہوا، تاہم چوبیس برس بعد اس خوبصورت جزیرے کا نام تبدیل ہوکر ری پبلک آف سری لنکا ہوگیا۔پانچ ہزار سال قدیمی جزیرے کی سمندری سرحدیں بھارت اور مالدیپ سے ملتی ہیں،ہندو دھرم کی مذہبی کتاب رامائن میں اس جزیرے کو لنکا کہا گیا ہے ،شری رام نے ظالم بادشاہ راون کے قبضے سے اپنی پتنی سیتا کو آزادی دلانے کیلئے یہاں حملہ کیا تھا، برصغیر کی مقامی زبانوں میں گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے ایک مشہور ضرب المثل ہے۔ تاریخ دانوں کے مطابق اس خوبصورت جزیرے پر کم از کم تین ہزار سال سے انسانی آبادی موجود ہے جو بدھ مت ،ہندو دھرم اور اسلام کے ماننے والوں پر مشتمل ہے، پاکستان کے صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے سندھیوں کی نمایاں تعداد بھی یہاں بستی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان اوربدھ اکثریتی سری لنکا کے مابین دوطرفہ تعلقات مشترکہ ثقافتی بندھن ، عسکری اور سفارتی تعاون سے منسلک ہیں، سفارتی میدان میں دونوں ممالک بہت قریب سمجھے جاتے ہیں اور بہت سے عالمی ایشوز پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں، ایک طویل عرصے تک سری لنکا کو غیرملکی ایماء پر تامل ٹائیگرز کی صورت میں شورش کا سامنا رہا ، سری لنکا کی قیادت مشکل کی گھڑی میں اندرونی امن و استحکام کو یقینی بنانے کیلئے پاکستان کے تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ پاکستان اور سری لنکا میں قربت کی ایک بڑی وجہ مذہبی سیاحت ہے، پاکستان کا علاقہ زمانہ قدیم میں بدھ مت کی گندھارا تہذیب کا اہم مرکز رہا ہے جس کی جڑیں پہلی صدیسے ساتویں صدی تک جاملتی ہیں، تاریخی شہر ٹیکسلا سے سوات تک جابجا بدھ مت کی عظیم یادگاریں اور مذہبی مقامات موجود ہیں۔ سری لنکا ٹیکسلا میں موجود تاریخی نوادرات اور مورتیوں کو مستعار لے کر ’’گندھارا آرٹ آف پاکستان‘‘ کے نام سے باقاعدگی سے نمائش کا انعقاد کرتا ہے ، نومبر میں سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں پرائم منسٹر مہیندا راجا پاکسا آفس نے ’’گندھارا‘‘کے عنوان سے ایک ویڈیو ڈاکومنٹری بھی لانچ کی گئی ہے جس میں پاکستانی علاقے میں موجود تاریخی بدھسٹ مقامات کی خوبصورت عکاسی کی گئی ہے، مذکورہ ڈاکومنٹری سری لنکا میں پاکستانی ہائی کمیشن نے سری لنکا کی منسٹری آف بدھا ساسانہ کے اشتراک سے بنائی ہے، تقریب رونمائی کے موقع پر اسپیکر سری لنکن پارلیمنٹ، کابینہ اور پارلیمانی ممبران ، وزراسمیت دیگر بدھسٹ اکثریتی ممالک کے سفراء کرام بھی موجود تھے۔تاریخ کی سب سے قدیم یونیورسٹی ٹیکسلا میں قائم کی گئی تھی جہاں عظیم فلسفی اور استاد کوٹلیہ چانکیہ علم و حکمت کے موتی اپنے شاگردوں میں بکھیرا کرتا تھا، چانکیہ کی تحریرکردہ ارتھ شاستر اور چانکیہ نیتی جیسی کتابیں آج کے دور میں بھی اپنی مقبولیت میں نمبر ون ہیں۔سری لنکا کے علاوہ ایشیاکے بیشتر ممالک میں بھی بدھ مت کے ماننے والوں کی کثیر تعداد بستی ہے، چین کی آبادی کا اٹھارہ فیصد (244ملین افراد)بدھ مت کے پیروکار وں پر مشتمل ہے، اسی طرح روس، امریکہ اور مغربی ممالک میں بھی بدھ مت کے ماننے والے موجود ہیں۔اس امر پر تمام تاریخ دانوں کا اتفاق ہے کہ عظیم گوتم بدھا کا پہلا مجسمہ ٹیکسلا میں تیار کیا گیاتھااور آج بھی دنیا بھر میں پاکستان میں تیارکردہ بدھاکے مجسموں کی بہت زیادہ مانگ ہے، ٹیکسلا میں ایسے بے شمار عظیم مجسمہ سازبستے ہیں جنہوں نے اپنے باپ دادا سے ہندوشاہی، یونانی اور ایرانی نقوش والے بدھا کے مجسمے بنانے کا ہنر سیکھا، وہ اپنی ذات میں ایک انسٹیٹیوٹ کا درجہ رکھتے ہیں، تاہم عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ان کی محنت کا معاوضہ دو ہزار روپے ادا کیا جاتا ہے جبکہ بین الاقوامی بلیک مارکیٹ میں ان کی تیارکردہ مورتیوں کو دس ہزار ڈالر میں فروخت کیا جارہا ہے۔میرے خیال میں ملکی معیشت کے استحکام کیلئے مذہبی سیاحت کا فروغ ناگزیر ہے،میری خواہش ہے کہ بہت جلد بدھا کے پیروکاروں کےلئے پاکستان میں واقع گندھارا تہذیب سے تعلق رکھنے والے مقدس مقامات کی یاتراکرانے کیلئے فضائی سفر کا آغاز کیا جائے جس کی شروعات دوست ملک سری لنکا سے کی جاسکتی ہے ،اسی طرح پاکستانی شہریوں کیلئے سری لنکا میں واقع کوہِ آدم کی زیارت باعث ِ دلچسپی ہے جہاں ہندوسراندیپ کے نام سے مشہور پہاڑ کی بلندوبالا چوٹی کو شِوا جی کے پاؤں کا نشان سمجھتے ہیں جبکہ مسلمان اور کرسچین روایات کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام نے جنت سے نکلنے کے بعد سب سے پہلے زمین پر یہاں پاؤں رکھا تھا۔ آج میں سری لنکا کے یوم آزادی پر سری لنکن عوام کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے اربابِ اختیار سے کہنا چاہوں گا کہ ہمیں پاکستان کاامن پسندانہ مثبت امیج عالمی سطح پر اجاگر کرنے کیلئے سری لنکا اور دیگربدھ اکثریتی دوست ممالک کے ساتھ کلچرل ڈپلومیسی کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)