• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عظمیٰ ابو نثر

آج اُس کی ساحر آنکھوں سے اُداسی چھلکی پڑرہی تھی۔ سامنے کھڑا چنار کا تن آور درخت، دُور برفیلی چوٹی تک پھیلا پہاڑ اور اُس کے پیچھے چُھپنے کا منتظر سورج۔ یوں محسوس ہورہا تھا، گویا سب ہی اُس کی اداسی میں شریک ہیں۔ جب وہ اپنی آنسو بَھری آنکھوں سے نیلے آسمان کی جانب دیکھتی، تو آسمان اپنی گہرائیوں سمیت اس کی آنکھوں میں اتر آتااور جب وہ تاحدِ نگاہ پھیلی درختوں اور ہری گھاس سے ڈھکی وادی کی جانب دیکھتی، تو ہلکی سبز آنکھیں مزید ہری ہو جاتیں۔’’حوری او حوری…!!‘‘ ماں کی آواز اُسے دوبارہ اُسی دنیا میں کھینچ لائی، جہاں سے وہ فرار چاہتی تھی۔ ’’جی، جی ماں… ابھی آئی۔‘‘ وہ تیزی سے زینے کی جانب بڑھی، جہاں سے ماں آوازیں دے رہی تھیں۔ ’’ارے، اب نیچےآبھی جاؤ! عصر کا وقت ہورہا ہے۔‘‘ 

ماں نے ایک بار پھر آواز لگائی، مگر جب تک وہ زینے کی آخری سیڑھی تک پہنچ چُکی تھی۔ ’’کب تک بے حال رہو گی، غم مناتی رہو گی؟جان لو کہ تم ایک کشمیری ہو، ہماری رگوں میں بہادری خون بن کر دَوڑتی ہے اور ویسے بھی یہ کوئی آج کی کہانی تھوڑی ہے، میرا بچپن، جوانی یہی سب دیکھتے دیکھتے گزر گئی۔ نہ جانے ہمارے نصیب میں آزادی ہے بھی یا نہیں…‘‘ ماں کی بات سُن کر حورعین اپنی ماں کے گلے لگ کر سِسک پڑی ’’ماں!بھائی کی بہت یاد آتی ہے، بہت زیادہ۔‘‘ ’’اچھا اب جاؤ، عصر کی نماز پڑھو۔ سورج مغرب کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔‘‘ وہ حورعین سے آنسو چُھپا کر دل میں اتارتی اُس کے سامنے سے ہٹ گئیں کہ مبادا حوری کی آنکھیں کہیں پھر نہ برس پڑیں۔

یہ سخت ترین لاک ڈاؤن کا دوسرا مہینہ تھا۔ اسکول، کالج، دکانیں، بازار غرض سب کچھ بند پڑا تھا۔ حورعین نے آٹھویں جماعت کا امتحان دیا تھا اور اس کے بعد سے وہ گھر میں اپنے والدین اور دو بھائیوں کے ساتھ مقید تھی۔ بھارتی پولیس گردی نے تمام حدیں پار کر لی تھیں۔ گھر سے کسی ضرورت کے تحت نکلنا بھی محال تھا۔ ان ظالموں نے تمام دنیا سے اُن کا رشتہ منقطع کر دیا تھا۔تو ان مصیبت کے دِنوں میں حوری کا واحد مشغلہ اپنے پیارے وطن، پاکستان کا نقشہ بنانا تھا۔ 

ایسا نقشہ جس میں اس کی سرزمین، مقبوضہ وادی پاکستان کا حصّہ تھی، وہ گھنٹوں اس نقشے کو تکتی رہتی اور خُوب دُعائیں مانگتی کہ جلد مقبوضہ کشمیر، پاکستان کا حصّہ بن جائے اور معصوم کشمیریوں کو بھارت کے جنگی جنون سے نجات ملے۔ وہ جب محبّت سے اس نقشے میں سبز رنگ بھرتی تو ہلالی پرچم کا وہ رنگ اس کی آنکھوں میں بھی اُتر آتا۔ حورعین کا بڑا بھائی، جو میڈیکل کا طالبِ علم تھا، اپنے والد کے ساتھ دن میں کئی مرتبہ ’’کشمیر کیسے اور کب پاکستان کا حصّہ بنے گا؟‘‘ کے موضوع پر گھنٹوں تبادلہ ٔ خیال کرتا۔ پاکستان سے والہانہ عقیدت و عشق حورعین اور اس کے بھائیوں کو جیسے وَرثے میں ملا تھا۔ ان کے دادا اور چچاؤں نے اس پاک سرزمین کے لیے جانیں قربان کی تھیں۔

اندھیرا چہار سُو پھیل چُکا تھا۔ ظالموں نے بجلی تک بند کر دی تھی۔ جینے کی راہیں مسدود کر کے باہر بھیڑیے دندناتے پھر رہے تھے۔ فضا میں ہر تھوڑی دیر بعد فائرنگ کی آواز گونجتی اور سنّاٹے کو چیرتی ہوئی مزید خوف وہراس پھیلا دیتی۔سیاہ اندھیرا اور فضا میں پھیلی خنکی، اَن ہونی کا سا احساس پیدا کر ہی تھی۔ وہ اپنی ماں سے چِپکی ان کے بستر میں لیٹی تھی۔ دوسری طرف اس کا چھوٹا بھائی آنکھیں موندے نہ جانے کیا خواب دیکھ رہا تھا۔ ابّو کو کھانسی کاشدید دَورہ پڑ چُکا تھا۔ کچھ دیر ان کی آواز گھر کے سناٹے میں گونجتی رہی،اور پھر اُن کی طبیعت بگڑنے لگی ۔ 

ماں ان کی کمر سہلاتیں تو بھائی ہاتھ، مگر طبیعت کسی طرح سنبھلنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔ اچانک بھائی نے مرکزی دروازے کی جانب قدم بڑھائے۔ ’’مَیں بس ابھی دوا لے کر آتا ہوں۔‘‘ ’’نہیں، نہیں! عُمیر باہر پولیس کھڑی ہے۔‘‘ ماں نے بھائی کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’ماں! ابّو کی طبیعت دیکھیں، انہیں ایسے تو نہیں چھوڑ سکتے ناں، آپ فکر نہ کریں، مَیں چُھپ چُھپا کر نکل جاؤں گا اور جلدی سے دوا لے کر آجاؤں گا۔“ یہ کہہ کر وہ باہر جانے کے لیے آگے بڑھا، تو حورعین کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ وہ بھاگ کر بھائی کے پَیروں سے لپٹ گئی۔

’’بھائی،بھائی! پلیز مت جائیں۔‘‘ عمیر نے اسے کھینچ کر پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا ’’کیا بے وقوفی ہے حور؟ ابّو کی طبیعت دیکھ رہی ہو؟ میرے ہوتے ہوئے انہیں کچھ ہو گیا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گا۔ ویسے بھی مَیں پچھلے دروازے سے جاؤں گا۔ میرے دوست نے گھر ہی میں میڈیکل اسٹور کھولا ہوا ہے۔ مَیں کسی بھی طرح اِنہیلر لے آؤں گا۔ تم بس دعا کرو کہ کوئی مسئلہ نہ ہو۔‘‘ وہ پیچھے ہٹ کر یک دَم ابّو کی جانب بڑھی، جو اب نیم بے ہوش تھے۔ ایک ایک لمحہ حوری اور اس کی ماں کے لیےصدی بنتا جا رہا تھا۔ ذرا سی آہٹ انہیں ڈرا دیتی۔ وہ اُس جنّت نظیر وادی میں تھیں، جو اب آگ کا الاؤ بن چُکی تھی۔ کبھی بھی، کسی بھی لمحے کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ عمیر اب دیوار کُود کر اندر آچکا تھا۔ ’’امّی! مَیں دوا لے آیا ہوں۔‘‘ عمیر کی آواز سُن کر اُن کی جان میں جان آئی۔ 

’’الحمدُللہ!!‘‘ کپکپاتے ہاتھوں سے ابو کو دوا دیتے ہوئے وہ کئی بار بہن کی جانب دیکھ چُکا تھا۔ آخر اس سے رہا نہ گیا۔ ’’ماں!! آپ حوری کو…‘‘ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا ’’دھڑ دھڑ دھڑ…‘‘ کسی نے زور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کردیا۔ ’’عمیر…‘‘ ماں نے زیرِ لب عمیر کا نام لیا اور بجلی کی سی تیزی سے حور کا ہاتھ پکڑ کر اسے پلنگ کے نیچے رکھے صندوق کے پیچھے چُھپا دیا۔ ان کے ہاتھ لرز رہے تھے اور دل کی دھڑکن کی آواز کانوں تک سنائی دے رہی تھی۔ دروازہ مسلسل بج رہا تھا۔ آخر کارکنڈی توڑ کر وہ بھیڑیے گھر میں داخل ہو ہی گئے۔ ’’کہاں ہے وہ آتنگ وادی…؟‘‘

بھارتی فوجی ایک ایک چہرے پر ٹارچ سے روشنی ڈال کرچیک کر رہا تھا۔’ ’کک… کون؟ یہاں تو بس ہم گھر والے اور میرے بیمار شوہر ہیں۔ اور کوئی نہیں ہے۔‘‘ ماں نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔ بھارتی فوجیوں کی آواز سُن کر بستر کے نیچے چُھپی حور کپکپانے لگی۔ ’’تم، تم کھڑے ہوجاؤ!!‘‘ خبیث چہرے والے بھارتی افسر نے عمیر کے چہرے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا۔ عمیر کو پہچانتے ہی افسر نے فوجیوں کی جانب اشارہ کیا، جو اب اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے جا رہے تھے۔ ماںکی چیخ و پکارکی آواز آسمان دہلا رہی تھی۔ چھوٹا بھائی کونے میں دبکا رورہا تھا اور حورعین کو لگ رہا تھا کہ جیسے آسمان اس کے سر پر آن گر اہو۔ کچھ ہی دیر بعد باہر فائرنگ کی آواز گونجی اور پھر خاموشی چھا گئی۔

معمول کے مطابق ایک اور نوجوان کو’’ دہشت گرد ‘‘کا نام دے کر راستے سے ہٹا دیا گیاتھااور گھر کے عین سامنے پڑا عمیر کا لاشہ انسانیت سے شکوہ کُناں تھا کہ آخر کب تک ہمارا حق سلب کیا جاتا رہے گا، کب تک معصوم کشمیریوں کا خونِ ناحق بہایا جاتا رہے گا اور آخر کب تک حورعین جیسی بہنیں بھائیوں کے سائے سے محروم ہوتی رہیں گی؟

سنڈے میگزین سے مزید