مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر
تقسیمِ ہند کے بعد جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا، تو ایک بہت بڑا مسئلہ ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمان مہاجرین کا تھا۔ فسادات کی وجہ سے برِصغیر کے دونوں حصّوں سے ہجرت جاری تھی۔ ہجرت کے بعد پاکستان میں آنے والوں کے لیے رہائشی سہولتیں حاصل کرنا جان جوکھم کا کام تھا۔ جسے جہاں کوئی خالی جگہ مل جاتی، وہاں بسیرا کرلیتا۔
مہاجرین اپنا سب کچھ لُٹا کر پاکستان پہنچے تھے، انہیں پاکستان میں جہاں کچھ آسودگی یا آسرا دکھائی دیتا، وہیں یہ پڑائو ڈال لیتے۔ کچھ لوگ پنجاب میں آباد ہوگئے، کچھ کراچی چلے گئے اور کچھ اندرون سندھ جا پہنچے۔ انہی مہاجرین میں سےبہت سے لوگ وادئ مہران کے مختلف گائوں، دیہات اور شہروں میں بھی پہنچے۔ اُن دنوں ہمارا خاندان اوباڑو میں مقیم تھا، وہاں ہمارے ایک عزیز محمد ابراہیم نے یہ واقعہ سنایا، جو اُن ہی کی زبانی پیشِ خدمت ہے۔
’’قیامِ پاکستان کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے اوباڑو پہنچنے والے مہاجرین میں ایک خاندان شیر دین کا بھی تھا ،جو اپنا سب کچھ قربان کر کے پاکستان آیا تھا۔یہاںآنےکے بعد اس نےنئے سرے سے اپنی زندگی گزارنے کے لیےمحنت مزدوری شروع کر دی۔شیر دین کو جو گھر ملا تھا، وہ کسی ہندو بنیے کا تھا۔تین چار کمروں پر مشتمل اس بڑے سے گھر کے کشادہ آنگن میں ایک بوسیدہ سیڑھی، کمروں کے چھتوں تک جاتی تھی۔
شیر دین کافی دنوں سے اس سیڑھی کی مرمت کا سوچ رہا تھا، آخر ایک روز اس نے اس کی مرمت کا ارادہ کیا اور سیڑھی کے پاس کی زمین کی کھدائی شروع کردی۔ ابھی اس نے تھوڑی ہی کھدائی کی تھی کہ اسے احساس ہوا کہ نیچے کچھ دبا ہوا ہے، اس نے مزید تیزی سے کھدائی شروع کی تو تھوڑی ہی دیر میں پیتل کی ایک بہت پرانی بڑی ہانڈی برآمد ہوگئی، جو سونے چاندی کے زیورات سے بھری ہوئی تھی۔ شیر دین نے اسے بہت احتیاط سے نکالا اور خاموشی سے اپنے گھر میں چھپا دیا، کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہونے دی۔
غالباً یہ وہ زرو جواہر تھے، جو ہندو عموماً مندر میں چڑھاوے کے لیے نذر کرتے تھے اور شاید پاکستان سے جاتے ہوئے یہاں دباگئے تھے، واللہ عالم بالصواب۔ بہرحال،شیردین، چند روز بعدتمام زیورات اچھی طرح صاف کرکےچمکانے کے بعد یکے بعد دیگرے شہر کے مختلف صرافہ بازاروں میں فروخت کرتا چلا گیا۔ حالات پرامن تھے، لوگ سادہ لوح تھے، زیادہ سن گن نہیں لیتے تھے، ایک دوسرے کے ساتھ تعلق نبھانا جانتے تھے، اس لیے کسی کو اس پر شبہ تک نہیں ہوا اور یوں شیر دین دیکھتے ہی دیکھتے امیر کبیر ہوگیا۔
اس کے پاس یوں اچانک اتنی دولت آنے کے راز سے کوئی بھی واقف نہ تھا، حتیٰ کہ اس کے بیوی بچّے تک اس بات سے لاعلم تھے۔ میرے اس سے بہت اچھے مراسم تھے،وہ اپنے ہر دُکھ درد کا اظہار مجھ سے کیا کرتا تھا، لیکن اس نے اس راز میں مجھے بھی شریک نہیں کیا، تو میں نے بھی کریدنا مناسب نہیں سمجھا۔ خیر، ساری عُمر اس نے کسی کو بھی یہ خبر نہ ہونے دی۔
کافی عرصے بعد وہ بیمار پڑا، تو مَیں اس کی عیادت کی غرض سے گیا۔ باتوں کے دوران اس نے میرے پوچھے بِنا خود ہی اس راز سے پردہ اٹھادیا کہ کس طرح زمین کھودتے ہوئے وہ خزانہ اس کے ہاتھ لگا۔ مَیں چوں کہ پہلی بار اُس کے گھر گیا تھا، تو اُس نے مجھے اپنے پکّے مکان کا ایک ایک گوشہ دکھایا،خاص طور پر بیڈ روم، جو کافی کشادہ تھا۔ ایک غربت زدہ شہر میں اُس کے ٹھاٹھ باٹ دیکھ کر میں حیران رہ گیا تھا۔
بہرحال، اُس کے کچھ ہی عرصے بعد جب اُس کا انتقال ہوا اور اُسے قبر میں اتارا جانے لگا، تو اُس کی قدرے تنگ قبر دیکھ کرمیری آنکھوں کے سامنے اُس کا کشادہ بیڈ روم آگیا۔ اوباڑو شہر اُس دور میں انتہائی پس ماندہ تھا، زیادہ تر لوگوں کے مکانات کچّے تھے، مگر شیر دین کے پختہ مکان میں ہر طرح کی آسائش اور سہولت موجود تھی۔ اُس کے تین بیٹے تھے، جو گھر میں دولت کی ریل پیل کی وجہ سے تعلیم و تربیت تو حاصل نہ کرپائے، البتہ نشے، جوئے اور دیگر بُرے دھندوں میں ضرور پڑگئے۔
باپ کا چھوڑا ہوا مال بھی چوں کہ حرام ہی کا تھا، لہٰذا تینوں بیٹوں نے مالِ مفت، دلِ بے رحم کے مصداق، اپنی عیاشیوں اور جوئے میں لٹانا شروع کردیا۔ دوسری طرف اُن کے عزیز رشتے داروں میں، جس کو بھی موقع ملا، اُن کی زمینوں اور جائدادوں پر قابض ہوتا چلا گیا،حتیٰ کہ ایک دن وہ آیا کہ شیر دین کے بیٹوں کے پاس بھی کچھ نہ رہا۔
تینوں قلّاش ہوکر دربدر کی ٹھوکریں کھانے لگے۔ افسوس ناک اور درد ناک صورتِ حال اُس وقت پیدا ہوئی، جب اُن کی ماں کا انتقال ہوا، تو اُن کے کفن دفن تک کے لیے رقم نہ ہونے کی وجہ سے چندہ اکٹھے کرکے تکفین و تدفین کی گئی۔ سچ ہے، محنت و مشقّت کے بغیر حاصل ہونے والا مال ہر کسی کو راس نہیں آتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سب کو رزقِ حلال کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ (ملک محمد اسحاق راہی، صادق آباد)