• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں تحریکِ عدم اعتماد کی حالیہ لہر کے نتائج کیا ہوں گے؟ اگلے دو چار دن میں یہ قلعی کھل جائے گی تاہم آج سے شروع ہونے والے مارچ کے سلسلے نے بہرحال حکومت کو رابطہ مہم پر مجبور کردیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی یا نون لیگ اپنے اپنے فروری، مارچ اور اپریلوں کو کس طرح عوامی آگاہی مہم بناتے ہیں؟ تحریکِ عدم اعتماد اور مارچ مشن کے صریر خامہ سے قبل ایک نظر عدم اعتماد کی عالمی تاریخ پر، پھر پڑوس میں اس تحریک کے تناظر میں کیا کچھ رواج رہا اور ہم نے آج تک اس ضمن میں کیا کھویا اور کیا پایا؟ دنیا کی پہلی تحریکِ عدم اعتماد 1742میں لائی گئی جب سر رابرٹ وال پول سے اقتدار سرکا اور دوسری 1782میں برطانوی وزیراعظم لارڈ نارتھ کے خلاف کامیاب ہوئی، اور یہ یارک ٹاون میں 1781میں دشمن فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی پاداش میں اظہارِ نفرت تھا۔

بھارت میں دو درجن سے زیادہ دفعہ کم و بیش 27دفعہ تحریکِ عدم اعتماد ہوئیں جن میں کامیابی نے صرف تین دفعہ قدم چومے اور وزرائے اعظم وشواناتھ پرتاپ سنگھ، ایچ ڈی گوڈا اور اٹل بہاری واجپائی کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اندرا گاندھی کے خلاف عدم اعتماد کی 15ناکام تحریکیں پیش ہوئیں، لال بہادر شاستری اور نرسیما راؤ کے خلاف 3، 3بار، مرار جی ڈیسائی کے خلاف 2بار، جواہر لال نہرو اور راجیو گاندھی کے خلاف ایک ایک بار ناکام تحریکِ عدم اعتماد پیش ہوئی۔ دنیا میں کم و بیش ایک سو وزرائے اعظم اور صدور کو یہ تحریک کھا چکی ہے۔ پاکستان میں، یکم نومبر 1989میں بےنظیر بھٹو، غلام مصطفیٰ جتوئی اور وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف سے 12ووٹوں سے تحریک عدم اعتماد سے بچیں۔

اگست 2006میں وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف 136ووٹ تحریکِ عدم اعتماد کو مل سکے مگر کامیابی کیلئے 171درکار تھے۔ اسی دورِ حکومت میں اسپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین کے خلاف دو دفعہ تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہوئی تاہم ایک تحریکِ عدم اعتماد اسپیکر فخر امام کے خلاف کامیاب ہونے کا بھی ریکارڈ ہے۔ یہ تحریکِ عدم اعتماد 26مئی 1986کو رانا نذیر احمد خان آف کامونکی (گوجرانوالہ) نے پیش کی، 152ووٹوں سے یہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور مخالفت میں 72ووٹ تھے، یوں سید فخر امام فارغ ہو گئے۔ فخر امام کا قصور یہ تھا کہ وہ ایک تاریخی اپ سیٹ سے اس وقت کے آمر کے من پسند امیدوار خواجہ صفدر (والد محترم خواجہ آصف) جو ان کی مجلس شوریٰ کا رُکن بھی تھا، کو شکست سے دو چار کرکے اسپیکر بن گئے تھے۔ بعد ازاں جب 29مئی 1986کو اسپیکر کا پھر انتخاب ہوا تو حکومتی امیدوار حامد ناصر چٹھہ 176ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ حامد ناصر چٹھہ نے 1985میں قومی اسمبلی کی نشست پر ملک بھر میں اپنے حلقہ میں سب سے زیادہ ووٹ لینے کا ریکارڈ بھی بنایا تھا۔

جو تازہ لہر چلی ہے کہ عدم اعتماد کو رواج بخشا جائے، پہلے پیپلز پارٹی کہتی تھی کہ آغاز پنجاب کے وزیراعلیٰ سے کیا جائے ۔ سو مقابلے کیلئے حکومت بھی خم ٹھونک کر میدان میں آگئی اور عوامی رابطہ مہم کا آغاز منڈی بہاؤالدین کے جلسہ کی دھواں دھار اوپننگ سے کیا گیا۔ بہرحال پیپلزپارٹی آج سے لانگ مارچ کی شروعات کرنے جا رہی ہے ( پی ڈی ایم کا مارچ میں ’’مارچ‘‘ کا ارادہ ہے) مگر لانگ مارچ سے قبل آصف علی زرداری کی منصورہ یاترا بتاتی ہے کہ بات تو کے پی تک جانے والی ہے، فرض کریں وزیراعظم روٹھوں کو منا نہیں پاتے تو اسمبلیاں توڑ دیں گے، اور اسمبلی صرف مرکزی توڑ سکتے ہیں صوبائی نہیں، گورنر راج کسی صوبے میں لگا نہیں پائیں گے۔ ہوگا کیا؟ پہلی بات تو یہ کہ آصف زرداری چاہیں گے یہ اسمبلیاں توڑی جائیں، دوسری بات یہ کہ سندھ یا کسی حد تک بلوچستان کے علاوہ کے پی اور پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو، آزاد جموں و کشمیر کی پی ٹی آئی حکومت بھی چلتی بنے۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ اس پر سیاسی پنڈت کنڈلیاں نکالنے و ملانے اور زائچے بنانے میں سرگرداں ہیں، الیکٹ ایبل اور سیلیکٹ ایبل نئی چھتری کی اڑان بھرنے یا نہ بھرنے کی سرچ اور ریسرچ میں مگن ہیں۔

ہیوی ویٹ اپوزیشن لیڈر شپ کے پروفائل دیکھیں تو تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے کے آثار نظر آتے ہیں لیکن سب انحصار سپر ہیوی ویٹ کے موڈ اور موسم پر ہے۔ سیاسی حوالوں اور کارکردگی کی بنا پر بظاہر حکومت ہوا کے دوش پر رکھے ہوئے چراغ کی مانند ہے لیکن موسمی ریموٹ بہرحال اپوزیشن کے ہاتھ میں نہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ باقی ماندہ بچے وقت یعنی ان نازک دنوں میں حکومت کرنا کہاں کی دانشمندی ہوگی؟ رہی بات مڈٹرم الیکشن کی تو عمران خان کی یہ ضد کون مانے گا؟ اس سے خان کو ’’سیاسی شہادت‘‘ کا درجہ مل جائے گا۔ ایسے میں فارمولا یہی ہے کہ سبھی مارچوں اور دفاع مارچ کے نام پر اگلے الیکشن کی کمپین کو غنیمت جانیں۔ تحریک انصاف کا بھی کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو چکا اور اپوزیشن کو کیا چاہیے؟

عین اس وقت جب عدم اعتماد کی تحریک کا شور و غل ہے، سوئس اکاونٹس کی بازگشت نے اچانک شور کی آلودگی کو ہوا دے دی، اس غل غپاڑہ میں انتہائی حملہ ممکن ہے اور مصلحتاً پسپائی بھی مگر کوئی رحمت کا فرشتہ پیپلز پارٹی کی دہلیز آ چومے یہ ہوا تو حیرت ناک ہوگا۔ جہاں تک جناب شہباز کی شرافت بھری سیاست کا تعلق ہے، اس کیلئے نو من تیل کی دستیابی اور رادھا کا ناچ سیاسی عجوبہ کم اور زرداری صاحب کا فارمولا زیادہ لگتا ہے۔ ان سب باتوں، ارادوں اور خدشوں کے باوجود کم از کم اب تو بلاول بھٹو کا ملک گیر مہنگائی مخالف، بلا ضرورت آرڈی نینسوں اور 18ویں ترمیم کے دفاع میں کریز سے باہر نکل کر فرنٹ فٹ پر کھیلنا بنتا تھا جس کا اچھا آغاز ہو چکا، خطروں کا کھلاڑی ہی ہیرو ہوتا اور کامیاب بھی! نون لیگ پنجاب کی کامیاب ترین اور سب سے بڑی سیاسی قوت ہے مگر شہباز شریف رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کے بغیر کسی نوید اور عید کا سوچیں، یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، باوجود اس کے کہ عددی اکثریت تو اپوزیشن کے پاس ہے کیا ’این او سی‘ بھی؟ مہم کو دوام بخشنا اپوزیشن پر بالعموم اور بلاول بھٹو پر بالخصوص فرض ہو چکا، اور عوام کیلئے بھی۔ المختصر، عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی جتنی بھی ’’ہنوز دلی دور است‘‘ والی ہو مگر موقع ہے قریب تر!

تازہ ترین