• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتساب عدالت لاہور کی طرف سے جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی پرائیویٹ پراپرٹی کیس میں باعزت بریت سے حق و انصاف کا بول بالا ہوا، ماضی میں بھی جنگ گروپ کو اس کی آزاد صحافتی پالیسیوں کی وجہ سے کئی بار نشانہ بنایا گیا مگر ہر بار حکمران طبقہ کو شرمندگی اٹھانا پڑی۔ اب حکمران صحافتی اداروں سے متعلق درست پالیسی اپنائیں اور سب اچھا کی رپورٹس دینے والے خوش آمدی ٹولے کو اقتدار سے دور رکھیں، ورنہ وہ اپنا انصاف کا منشور ڈیلیور کرنے میں ناکام رہیں گے۔

عدالتی فیصلے نے میر شکیل الرحمٰن کی بےگناہی پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے اور سچ کی فتح ہوئی ہے، اب بلا مبالغہ یہ کہنا درست ہے کہ میر شکیل الرحمٰن کے خلاف یہ کیس دراصل میر صاحب اور جنگ و جیو گروپ کو اظہارِ رائے کی آزادی سے روکنے کیلئے گھڑا گیا تھا لیکن جنگ و جیو گروپ آزادیٔ صحافت کا پرچم بلند رکھنے کے عزم سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ جنگ اور جیو واحد گروپ ہے جس نے صحافت کے میدان میں نئی جہتیں متعارف کروائی ہیں اور جدید صحافت میں کالم نگاری، فیچر نگاری اور میگزین جرنلزم میں جدت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جیو نیوز کو سب سے پہلے متعارف کروا کر الیکٹرونک میڈیا کے علاوہ اطلاعات کی بہم رسانی، میر شکیل الرحمٰن کا اہم کارنامہ ہے۔ پاکستان کے سیاسی، ادبی، سماجی، صحافتی اور بین الاقوامی ادارے میر شکیل الرحمٰن کی رہائی کا مسلسل مطالبہ کرتے رہے لیکن حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔

صحافت کے روشن ستارے میر خلیل الرحمٰن نے جنگ گروپ کے نام سے صحافت کی جو عظیم الشان مثال قائم کی تھی، وہ اعلیٰ صحافتی اصولوں پر مبنی ہے۔ میر شکیل الرحمٰن نے ان اصولوں پر کاربند رہنے کا عزم کر رکھا ہے جو ان کے میڈیا ہاوس کی غیر جانبدارانہ رپورٹنگ سے واضح ہے مگر پاکستان کے سابقہ حکمرانوں سے لے کر موجودہ حکومت تک کوئی بھی میڈیا کی غیرجانبدار تنقید کو برداشت نہیں کرتا اور سب کا نشانہ سب سے زیادہ جنگ گروپ بنتا رہا ہے۔ میر شکیل الرحمٰن کو ایک ناکردہ گناہ کی پاداش میں 8ماہ تک پسِ دیوارِ زنداں رکھا گیا جو جمہوریت اور صحافتی اصولوں کے منافی تھا پھر عدالتی عمل کے بعد اُنہیں سپریم کورٹ نے ریلیف دیا جس سے یہ ثابت ہوچکاہے کہ وہ بےگناہ تھے۔

میر شکیل الرحمٰن نے 1986میں لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں 54کنال پرائیویٹ پراپرٹی خریدی تھی، اس خریداری کو جواز بنا کر نیب نے انہیں 5مارچ 2020کو طلب کیا تھا۔ میر شکیل الرحمٰن نے اراضی کی تمام دستاویزات پیش کی تھیں اور اپنا بیان بھی ریکارڈ کرایا۔ 12مارچ کو نیب نے انہیں دوبارہ بلایا اور وہ انکوائری کے لیے پیش بھی ہوئے تھے تبھی انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق اراضی کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کے دوران اُن کی گرفتاری بلا جواز تھی کیونکہ نیب کا قانون کسی بزنس مین کی دورانِ انکوائری گرفتاری کی اجازت نہیں دیتا۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں نومبر 2020میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ایڈیٹر انچیف جنگ جیو میر شکیل الرحمٰن کی 34سال پرانے نجی پراپرٹی کیس میں ضمانت منظور کی تھی۔ درخواست ضمانت کیس کے دوران جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا تھا کہ یہاں لاء افسروں کو بھی اضافی زمین اسی قیمت پر ملی، ان کے خلاف نیب کا مقدمہ بنا؟

پاکستان میں آمریت کے دور میں سچ کی آواز کو دبانے کے لیے ایسے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ موجودہ حکومت کو صحافت کی آزادی کے لیے جھوٹے مقدمات بنانے کی بجائے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے رائے عامہ ان کے حق میں بہتر ہو۔ اس کیس سے حکومت کی صرف بدنامی ہوئی ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت کو سوچ سمجھ کر اس فیصلہ کے خلاف اپیل کرنی چاہیے کیونکہ میر شکیل الرحمٰن نے ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا ہے اور جنگ اور جیو کی یہ پالیسی ہے کہ وہ خبر کو مخالف کا موقف لیے بغیر شائع نہیں کرتا۔

موجودہ صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاستی اور آئینی ادارے درست طریقے سے کام نہیں کر رہے جس سے عدل کی فراہمی میں عام شہری کے لیے حالات مشکل تر ہو چکے ہیں۔ بہت سے کیسوں میں کسی شخص کو 17سال اور کسی کو 10سال کے بعد باعزت بری کیا گیا جس سے پاکستان کے نظامِ انصاف کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بریت کے بعد جیل میں کاٹے ہوئے ایام کا سوال اب میر شکیل الرحمٰن کس سے کریں۔ بریت کے بعد یہ بھی واضح ہو گیا کہ ضمیر کا قیدی بےقصور نکلا!

تازہ ترین