• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر روبی عدنان

عالمی ادارۂ صحت، انٹرنیشنل سوسائٹی آف نیفرولوجی اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف کڈنی فاؤنڈیشن کے باہمی اشتراک سے دنیا بَھر میں ہرسال مارچ کی دوسری جمعرات کو’’ گُردوں کا عالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے،جس کا مقصد گُردوں سے متعلق معلومات اور احتیاطی تدابیر عام کرنا ہے، تاکہ بروقت تشخیص اور علاج ممکن ہوسکے۔ امسال یہ دِن10مارچ کومنتخب کردہ تھیم "Kidney Health for All. Bridge The Knowledge Gap To Better Kidney Care" کے ساتھ منایا جائے گا۔

گُردے، جسم کے اہم اعضاء ہیں، جو ریڑھ کی ہڈی کے دائیں،بائیں جانب پسلیوں سے نیچے موجود ہوتے ہیں ۔ یہ لوبیے کے بیج کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا حجم تقریباً بند مُٹھی کے برابر ہوتا ہے،جب کہ وزن کے اعتبار سے ایک بالغ فرد کا گردہ تقریبا ً پانچ اونس یعنی 142گرام تک ہوتا ہے۔ گُردے روزانہ تقریباً2 سو لیٹر خون صاف کرکے فاسد مادّے پیشاب کے ذریعے خارج کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ گُردوں کے کئی اور بھی افعال ہیں۔ جیسا کہ خون میں موجود سوڈیم، پوٹاشیم سمیت کئی معدنیات کی مقدار کنٹرو ل کرنا، خون کے سُرخ خلیات بنانے کے عمل میں مدد فراہم کرنا اور وٹامن ڈی کی فعالیت، جس سے ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں۔ 

گُردوں میں کئی ملین چھوٹے چھوٹے فلٹرز ہوتے ہیں، جو ان کی بنیادی اکائی کہلاتے ہیں۔ اگر ان فلٹرز میں کوئی خرابی واقع ہوجائے، تو گُردوں کا کوئی مرض لاحق ہوجاتا ہے یا پھر یہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ دُنیا بَھر میں سالانہ تقریباً 30سے70لاکھ افراد گُردے ناکارہ ہوجانے کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ گُردوں کے عوارض کو دوبنیادی گروپس میں منقسم کیا جاتا ہے۔ ایک گروپ کوایکیوٹ کڈنی ڈیزیزز (اے کے ڈی) کا نام دیا گیا ہے، جس سے مُراد ہے، حادثاتی یا جلد شدّت اختیار کرنے والی بیماریاں،جن کے لاحق ہونے کے نتیجے میں گُردے اچانک ہی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

دوسرے گروپ کو کرونک کڈنی ڈیزیزز (سی کے ڈی) سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یعنی ایسی دائمی بیماریاں،جن کی وجہ سے گُردوں کے افعال میں بتدریج کمی واقع ہو۔ پہلی صُورت میں اگر بروقت اور صحیح علاج ہوجائے، تو گُردے درست طریقے سے اپنے افعال انجام دے سکتے ہیں، لیکن علاج میں کوتاہی ان کے مستقل طور پر خراب ہونے کا باعث بن جاتی ہے۔ جب کہ کرونک ڈیزیزز میں گُردے وقت کے ساتھ رفتہ رفتہ مہینوں، برسوں کے حساب سے خراب ہو تے چلے جاتے ہیں۔ اس صُورت میں ان کے افعال مکمل طور پردرست نہیں ہوسکتے، لیکن بروقت علاج کی بدولت بیماری بڑھنے کی رفتار کم کی جاسکتی ہے۔

بعض اوقات دورانِ زچگی کسی پیچیدگی مثلاً خون کے زائد اخراج،ہائی بلڈ پریشر اور جسم میں زہر پھیل جانےکے باعث بھی گُردے ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق دُنیا بَھر میں ہر 10میں سےایک بالغ فرد گُردے کی دائمی بیماری کا شکار ہے اور اگر اب بھی بروقت تشخیص، درست علاج اور احتیاطی تدابیر سے متعلق شعور اُجاگر نہیں کیا گیا تو خدشہ ہے کہ 2040ء تک اموات کی پانچویں بڑی وجہ گُردوں کی دائمی بیماری بن جائے گی۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ جہاں سماجی، اقتصادی اور ثقافتی عوامل گُردوں کے امراض کے غیر مساوی بوجھ کا سبب گردانے جاتے ہیں، وہیں ناخواندگی، بنیادی سہولتوں کافقدان، منہگائی، بے روزگاری اور علاج معالجے کی محدود سہولتیں بھی شرحِ امراض میں اضافے کا باعث ہیں۔

گُردوں کے افعال خراب ہونے کی صُورت میں عمومی طور پر جو علامات ظاہر ہوتی ہیں، اُن میں پیشاب کے اخراج میں کمی، بھوک نہ لگنا، متلی، قے، تھکاوٹ، چہرے کی رنگت پیلی پڑجانا، جِلدی خارش، بُلند فشارِ خون،سینے میں تکلیف یا دبائو محسوس ہونا، سانس پُھولنا، ٹانگوں، پیروں یا آنکھ کے پپوٹوں پر سُوجن، زیادہ نیند آنا،جھٹکے لگنا اور بے ہوشی یا غشی طاری ہوناوغیرہ شامل ہیں۔جب کہ انفیکشنز اور گُردوں کے دائمی امراض کی وجوہ میں ذیابطیس، بُلند فشارِخون اور پتھری کا مرض سرِ فہرست ہیں۔

نیز، گُردوں اور مثانے کی دیگر بیماریاں بھی ان کی خرابی کا باعث بن سکتی ہیں۔ مثلاً گُردے کے حجم میں اضافہ یا سسٹس بننا(Adult Polycystic Kidney Disease)، گُردے کی ساخت میں تبدیلی، پیشاب کی نالی کا عارضہ، گُردے میں زہریلے مادّوں کے اثرات یا ایک گُردہ (جو پیدایشی طور پر بھی ہوسکتا ہے اور بعض کیسز میں گُردے کے سرطان، درد کُشا ادویہ کے زائد استعمال، بھاری دھاتوں کے مضر اثرات اور زائد پروٹین والی اشیاء کے استعمال کے نتیجے میں سرجری کے ذریعے بھی نکال دیا جاتا ہے)۔ 

چوں کہ دائمی عوارض میں گُردے رفتہ رفتہ ناکارہ ہورہے ہوتے ہیں، تو زیادہ تر کیسز میں ابتدائی مرحلے میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ تاہم، عمومی طور پر جو علامات ظاہر ہوتی ہیں، اُن میں زیادہ تر پیشاب کے مسائل شامل ہیں۔ مثلاً پیشاب کی گہری رنگت، جھاگ بننا، پیشاب کی نالی میں ورم، اخراج میں درد یا دقت، پیشاب میں ریت یا پتھری کا اخراج، پیشاب کا زائد یا کم مقدار میں خارج ہونا، رات کو بار بارحاجت۔ 

اس کے علاوہ کمر یا پیٹ درد، ٹخنوں یا آنکھوں کے پپوٹوں پر سُوجن، چہرہ پُھول جانا اور ہائی بلڈ پریشر وغیرہ بھی گُردےناکارہ ہونے کی علامات ہوسکتی ہیں۔ گُردوں کےدائمی امراض میں علامات تاخیر سے ظاہر ہوتی ہیں ، اس لیےبروقت علاج ممکن نہیں ہوپاتا۔ تاہم، جس مرحلے پر بھی تشخیص ہو، نیفرولوجسٹ کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ پیچیدگیوں کے علاج کے ساتھ دیگر علامات پر بھی قابو پالیا جائے۔

چوں کہ ذیابطیس اور بُلند فشارِ خون، گُردوں کے دائمی امراض کی وجوہ میں سرِ فہرست ہیں، تو ان میں مبتلا مریضوں کو کم از کم سال میں ایک بار گُردوں کا معائنہ لازمی کروانا چاہیے، تاکہ ابتدائی مرحلے ہی میں تشخیص ہوجائے۔ نیز، اگر مریض کو ذیا بطیس کے ساتھ ہائی بلڈ پریشر اور گُردے کی سوزش کی بھی تکلیف ہو، تو اُسے مرض کنٹرول کرنے کے ساتھ غذا، ورزش اور ادویہ کے حوالے سے معالج کی ہدایات پر سختی سے عمل بھی کرنا چاہیے۔ یاد رکھیے، صحت مندانہ طرزِ زندگی کے لیے متوازن غذا، صاف پانی، باقاعدہ ورزش، تمباکو نوشی سے اجتناب اور موسمی تبدیلیوں سے بچائو لازمی امور ہیں۔ 

عموماً گُردوں کے دائمی مرض میں مبتلا مریض پہلے اور دوسرے مرحلے میں ابتدائی نوعیت کی بیماری کا شکار ہوتے ہیں، جب کہ تیسرے مرحلے کے مریضوں کے لیےنیفرولوجسٹس کی پہلی ترجیح مرض کی رفتار میں کمی لانا ٹھہرتی ہے۔یاد رکھیے، اگربلڈ پریشر قابو میں نہ ہو،تو گُردوں کے دائمی امراض لاحق ہونے کےامکانات بھی تیزی سے بڑھتے ہیں، لہٰذا اس صُورت میں کم پروٹین والی غذاؤں کا استعمال مددگار ثابت ہوتا ہے۔ بُلند فشارِ خون کے وہ مریض، جو درمیانی یا زائد عُمر کے ہوں اور اُن کا مرض کنٹرول میں نہ ہو، تو اُن میں بھی گُردےمتاثر ہونےکے قوی امکانات پائے جاتے ہیں اور یہ خطرہ خاص طور پراُس وقت مزیدبڑھ جاتا ہے،جب ذیابطیس، ہائی کولیسٹرول یا پھر دِل کا عارضہ لاحق ہو۔ تاہم، بلڈ پریشرکنٹرول میں رکھ کر متعلقہ خطرات کم کیے جا سکتے ہیں۔

گُردوں کے امراض میں مبتلا کرنے والے دیگر عوامل میں عوارضِ قلب، موٹاپا، ہیپاٹائٹس، ٹی بی، ملیریا، ایچ آئی وی اور انفیکشن وغیرہ شامل ہیں۔ اگرچہ گُردے ناکارہ ہونے کا عمل مرحلہ وار شروع ہوتا ہے،لیکن ابتدائی مرحلے میں علامات ظاہر نہ ہونے کی صُورت میں گُردے کئی طرح کی خرابیوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔ بعض اوقات ان کی ساخت میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے، جو علاج کے ذریعے بھی ٹھیک نہیں ہوتی، جب کہ گُردے فیل ہونے کی صُورت میں دیگر جسمانی اعضاء بھی روزمرّہ افعال بخوبی انجام نہیں دے پاتے۔اگر کم مقدار میں پیشاب خارج ہو، ٹانگوں اور بازئوں پر سُوجن اور سانس پُھولنے جیسی علامات ظاہر ہوں، تو بہتر یہی ہے کہ مستند اور ماہر معالج سے فوری رابطہ کرلیا جائے، کیوں کہ بروقت تشخیص کئی پیچیدگیوں سے محفوظ رکھتی ہے،لیکن اگر علامات نظر انداز کردی جائیں، تو مرض اتاخیر سے تشخیص ہوتا ہے اور تب تک پیچیدگیاں بہت بڑھ جاتی ہیں۔

امراضِ گُردہ کی تشخیص کے لیےعام طور پر پیشاب یا خون کے ٹیسٹس تجویز کیے جاتے ہیں، جب کہ گُردے کا حجم اور ساخت جانچنے کے لیے اسکیننگ ٹیسٹس کیے جاتے ہیں، جن میں ایکس رے اور الٹراساؤنڈ شامل ہیں۔ البتہ گُردے کی سوزش کی جانچ بائیو آپسی ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اگر گُردے مکمل طور پر ناکارہ ہوجائیں، تو پھر ڈائی لیسسز یا ٹرانس پلانٹ ہی واحد علاج رہ جاتا ہے۔ ڈائی لیسسز کی دو اقسام ہیں۔ ایک قسم کو طبّی اصطلاح میںHemo Dialysis کہلاتی ہے، جب کہ دوسری قسم Peritoneal Dialysis ہے۔ گُردے ناکارہ ہونے کی صُورت میں جسم سے زہریلے مادّے اور اضافی پانی خارج نہیں ہوپاتا اور طبّی اعتبار سے جب گُردے15فی صد سے کم کام کررہے ہوں، تو ان کے افعال معمول پر لانے کے لیے ڈائی لیسسز ناگزیر ہوجاتا ہے۔ڈائی لیسسز کی اقسام اور ٹرانس پلانٹ کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

٭ہیموڈائی لیسسز:گُردے ناکارہ ہونے کی صُورت میں فوری ڈائی لیسسز سیشن تجویز کیا جاتا ہے، جس میں مریض کو تین سے چار گھنٹے مشین سے منسلک رکھ کر خون کی صفائی کی جاتی ہے۔ اس طریقۂ کار میں مریض کے جسم سے خون مشین میں جاتا ہے اور پھر وہاں سے فاسد اور اضافی مادّوں کے اخراج کے بعد واپس جسم میں داخل ہوجاتا ہے۔ عام طور پر ڈائی لیسسز کا عمل مریض کی ضرورت کے مطابق ہفتے میں ایک سےتین یا پھر اس سے زائد بار کیا جاتا ہے۔ان مریضوں کی صحت برقرار رکھنے کے لیے عموماً معالج بعض غذاؤں سے پرہیز اور پینے کے لیے پانی کی قلیل مقدار تجویز کرتے ہیں اور ہدایات پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں مریض کو ایمرجینسی کی حالت میں اسپتال لے جانا پڑ سکتا ہے۔

٭پیری ٹونئیل ڈائی لیسسز:اس طریقۂ کار میں بذریعہ پیٹ ڈائی لیسسز کیا جاتا ہے۔ یعنی پیٹ کی پرت کوخون کی صفائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس عمل میں ایک خاص محلول پیٹ کے اندر ایک نالی کے ذریعےداخل کیا جاتا ہے اور یہ عمل دِن بَھرمیں تقریباً چار بار کیا جاتا ہے۔

ڈائی لیسسز کی خواہ جو بھی قسم ہو،مگر وہ مستقل علاج نہیں، اس کی نسبت ٹرانس پلانٹ مؤثر ترین علاج ہے۔

٭ٹرانس پلانٹ/ پیوندکاری :ایک مریض کے ناکارہ اعضاء کی جگہ کسی تن درست فرد کے عطیہ کردہ اعضاء لگانا پیوند کاری کہلاتا ہے۔ عام طور پر اعضاء کی پیوند کاری تب کی جاتی ہے،جب انسانی زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہو۔ گُردوں کی پیوند کاری کے دو طریقے مستعمل ہیں۔ اوّل مریض کے ایسے رشتے دار سے گُردہ لیا جائے، جو طبّی اعتبار سے صحت مند ہو۔ دوم، کسی فرد کے مَرنے کے بعد اس کا گُردہ مل جائے، جو ’’بعد از مرگ عطیہ‘‘ کہلاتا ہے۔ مذہبی، اخلاقی اور سماجی طور پریہ انتہائی سخاوت اور نیکی کا کام سمجھا جاتا ہے۔ تقریباً تمام ہی مسلم مُمالک میں اعضاء کی پیوندکاری کامربوط نظام قائم ہے۔کئی برسوں سےسعودی عرب، ایران، ترکی، کویت، لبنان، ملائیشیا، مصر اور بنگلادیش میں بعد از مرگ اعضاء کی پیوندکاری کام یابی سے جاری ہے۔

اسلامک فقہ اکیڈمی، مسلم ورلڈ لیگ، مکّہ 1985ءاور آٹھویں ورکنگ سیشن حکومت نے اس سلسلے میں جامع بیان دیا ہے، جس کے مطابق شریعہ(اسلامی قانون)میں کسی فرد کے جسم سے دوسرے فرد کی جان بچانے کے لیے اعضاء عطیہ کیے جا سکتے ہیں۔ کوئی بھی عاقل و بالغ فرد اپنے اعضاء عطیہ کرسکتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے اپنے قریبی عزیزوں اور رشتے داروں کواپنی خواہش سے آگاہ کیا جائے،مگر دیکھا گیا ہے کہ بعد از مرگ عطیے کی خواہش کا اظہار کرنےکے باوجود 100 میں سے صرف ایک فردایسا خوش قسمت ہوتا ہے، جو اعضاء کا عطیہ دینے میں کام یاب ہوجاتا ہے۔ 

اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی فرد اپنے گھر میں طبعی موت مرتا ہے، تو اس کے اعضاء محفوظ نہیں کیے جاسکتے، کیوں کہ مَرنے کے فوراً بعد خون جم جاتا ہے، نتیجتاًاعضاء کسی دوسرے کےاستعمال کے قابل نہیں رہتے۔ہاں البتہ اگر کوئی فرد کسی سنگین حادثے کی صُورت میںاسپتال لایا جائے اورپھر اسے مصنوعی تنفس کے لیے وینٹی لیٹر پر رکھا جائےور اس دوران اس کی موت واقع ہوجائے تو اس کے اعضاء فوری طور پرمحفوظ کرکے کئی مریضوں کی جان بچائی جاسکتی ہے۔ گُردوں کوناکارہ ہونے سے بچانے کے لیے ذیل میں چندعمومی ہدایات درج کی جارہی ہیں۔

٭گُردوں کی پتھری اور پیشاب کی نالی کی بیماریوں سے محفوظ رہنےکے لیے پیشاب نہ روکیں ،جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے دیں اور زیادہ سے زیادہ پانی پیئں۔ ٭ حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کیا جائے۔ ٭خواتین اور بچّوں میں پیشاب کی نالی کے عوارض سے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں،لہٰذاپیشاب سے متعلقہ مسائل نظر انداز نہ کیے جائیں۔ ٭گُردے کی پتھری کا مستند معالج سے علاج کروائیں اور اگر بار بار پتھری کی شکایت ہو،تو اس کے اسباب مدِّنظر رکھیں۔ ٭متوازن غذا استعمال کی جائے، جب کہ ضرورت سے زائد نمک اور گوشت کے استعمال سے اجتناب برتیں۔ ٭گُردے کی پتھری میں مبتلا مریض کیلشیم کی زائد مقدار،نمکین اور ترش کھانوں سے پرہیز کریں۔ ٭دردکُشا اور اینٹی بائیوٹکس ادویہ کا غیر ضروری استعمال ہرگز نہ کیا جائے۔ ٭اگر ذیابطیس، ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہیں، تو معالج کی ہدایت پر عمل کریں، تاکہ مرض کنٹرول میں رہے۔

وہ افراد جن کا ایک گُردہ ہو، زائد پروٹین والی غذائوں کے استعمال سے پرہیز کریں اور دِن بَھر میں اپنے جسمانی وزن کے اعتبار سے ایک کلوگرام پر ایک گرام پروٹین استعمال کریں۔ اگر فربہی مائل ہیں، تو وزن کنٹرول کریں۔ ریشے دار غذاؤں اور سبزیوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے، جب کہ سوڈیم اور نمک کم مقدار میں استعمال کریں۔ ایک دِن میں تجویز کردہ نمک کی مقدار پانچ سے چھے گرام(ایک چائے کا چمچ) ہے اور اس مقدار میں کھانے میں پہلے سے موجود نمک بھی شامل ہے۔ 

اسی طرح کم تیل والی غذائیں استعمال کی جائیں۔ پراسیسڈ، فاسٹ فوڈز اور باہر کے کھانے کم سے کم کھائیں، جس قدر ممکن ہو، تازہ اجزاء سے تیار کردہ گھر کا کھانا کھائیں۔ روزانہ کم از کم 30منٹ ورزش کریں اور کسی مرض میں مبتلا ہونے کی صُورت میں معالج کی ہدایت کے مطابق معائنہ کرواتے رہیں، الکحل اور تمباکونوشی سے گریز کریں۔ (مضمون نگار، معروف نیفرولوجسٹ ہیں اور سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانس پلانٹیشن سے منسلک ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید