• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

8 مارچ کادن ہر سال دنیا بھر میں’’خواتین کے عالمی یوم‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے، جب دنیا کی تمام خواتین کی حُرمت و عظمت کو سلام پیش کرنے کے ساتھ حقوقِ نسواں پر بھی زور و شور سےبات کی جاتی ہے۔ وہ حقوق، جو انہیں کبھی ملے ہی نہیں، وہ حقوق ، جو ہنسی ،مذاق میں اڑا دئیے جاتے ہیں ، تو کبھی تیز چبھتی نظروں سے رَدکر دئیے جاتے ہیں۔ کس قدر افسوس کی بات اور لمحۂ فکریہ ہے کہ آج بھی ہمارے معاشرے کی بیش تر خواتین باپ، بھائی یا شوہر کی غیرت کے نام پر قتل کردی جاتی، تو کبھی اپنے دادا کی عُمر کے مَرد سے بیاہ دی جاتی ہیں، لیکن انہیں اُن کا قصور نہیں بتایا جاتا۔

’’سنگل مدر‘‘کی اصطلاح غالباً پچھلی صدی سے رائج یا زبانِ زدِ عام ہے۔ تب اس سے متعلق ذہن میں کچھ ابہام تھے، لیکن شعور کی منازل طے کیں، تو پتا چلا کہ یہ اصطلاح تو اُن بہادر ماؤں کے لیے استعمال ہوتی ہے، جو خلع، طلاق یا بیوگی کے بعد حالات سے مجبور ہو کر اپنے بچّوں کی ذمّےداری تنہا اُٹھاتی، اُن کی اپنے دَم پر پرورش کرتی اور انہیں معاشرے کا ایک ذمّے دار شہری بناتی ہیں۔ عام افراد پتا نہیں یہ سوچتے ہیں یا نہیں کہ زندگی کا یہ سفرایک عورت کےلیے کتناکٹھن ہوجاتا ہے، جب اُسے بچّوں کا پیٹ پالنے کے لیے تلاشِ معاش میں دَر دَر کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔ 

کوئی بھی عورت شوق سے خلع لیتی ہے، نہ اپنا گھر برباد کرتی ہے۔عموماً شوہر، سُسرال والوں کی ناانصافیاں، زیادتیاں ہی گھروں ، خاندانوں کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنتی اور سنگل مدرز کو جنم دیتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مَرد چاہے کتنی ہی زیادتی کیوں نہ کرلے، معاشرے سے عورت کی حق بات بھی برداشت نہیں ہوتی اور اگر کہیں وہ اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھالے، تو پھر تو سزاوار، بد تہذیب اور بددماغ ہی ٹھہرتی ہے۔ اسی طرح کی ایک کہانی ہے، 28سالہ فرحین کی ، جو ہمارے معاشرے میں عورتوں کی بے بسی ، لاچارگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 

فرحین کی شادی چھوٹی عُمر میں ہوگئی تھی، ایک بیٹے کی پیدائش کے بعد شوہر کوعشق کا بخار چڑھ گیااور دوسری شادی کا شوق چرایا۔ فرحین برداشت نہ کرسکی، بات بڑھی، تو والدین نے بھی اُسی کی حمایت کی اور اُسےاپنے گھر لے آئے، لیکن یہاں بہن، بھائیوں کا سلوک بھی اس سے اچھا نہیں۔فرحین بتاتی ہے،’’میرے اپنے والدین کےگھر میں میرے ساتھ نوکروں سے بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ بھائی کی شادی ہوئی، تو وہ بیوی کو لے کر الگ ہو گیا۔ چھوٹے بہن، بھائی نوکری کرتے ہیں اور مَیں گھر پر بیمار والدین کی خدمت اور گھر کا کام کاج کرتی ہوں۔ سابقہ شوہر نے بچّے کی ذمّے داری، خرچ تک اُٹھانا گوارا نہیں کیا۔ 

میرا بیٹا چھے برس کا ہونے والا ہے، لیکن تنگ دستی کے سبب تا حال اُسے اسکول داخل نہیں کروا سکی۔ اب تومَیں نے حالات سے تنگ آکر فارغ اوقات میں سلائی کڑھائی شروع کردی ہے، تاکہ بچّے کے ایڈمیشن کاخرچہ تو اُٹھا سکوں۔ آج خیال آتا ہے کہ ڈھیٹ بن کر شوہر کے گھر ہی بیٹھی رہتی، تو کم از کم آج میرا بچّہ بنیادی ضروریاتِ زندگی سے تومحروم نہ ہوتا۔ میری والدہ، بہن بھائیوں کی بے اعتنائی دیکھ کر کڑھتی ہیں کہ میرے بعد تمہارا کیا ہوگا۔ مگر مَیں بھی کیا کروں۔ میرے پاس بھی تو بس یہی ٹھکانہ ہے۔ اکیلی ہوتی تو کسی ٹرک کے نیچے آجاتی، بیٹے کو کس کے رحم و کرم پہ چھوڑ جاؤں۔‘‘

جوانی میں بیوہ ہوجانے والی نازیہ کی زندگی بھی کچھ کم مشکل نہیں کہ ہمارے معاشرے میں بیوہ ہونا بھی کسی قیامت سے کم نہیں۔ زندگی کےنشیب و فراز کا اصل اندازہ تب ہی ہوتا ہے، جب سر پہ سائبان نہیں رہتا، رفیقِ حیات ابدی نیند سو جاتا ہے۔ شوہر کے انتقال کے بعد ایک معذور بیٹے اور دو بیٹیوں کے ساتھ زندگی کے طوفانوں کا سامنا کرتی نازیہ تعلیم یافتہ نہ ہوتی اور سابقہ ادارے نے دورانِ عدّت ہی ملازمت کی پیش کش نہ کی ہوتی، تو جانے آج اُس کا کیا بنتا۔

وہ کہتی ہے، ’’اگر مَیں بروقت ملازمت کا فیصلہ نہ کرتی اور مدد کے لیے دوسروں کی جانب ہی دیکھتی رہتی تو اپنا گھر بار چھوڑ کر میکے میں رہنا پڑتا۔ مَیں پہلے بہت لااُبالی، بے فکر سی تھی، مگر اب اِک اِک قدم پھونک پھونک کر رکھتی ہوں۔ شوہر کا ساتھ زمانے کے سردو گرم سے بھی بچاتا ہے اور باعزّت زندگی بھی دیتا ہے۔ اب ملازمت پر جاتی ہوں، تو بچّوں کی فکر ستاتی رہتی ہے کہ جانے انہوں نے کھانا کھایا ہوگا یا نہیں، ہوم ورک کرلیا ہوگا یا ٹی وی،موبائل ہی میں لگے ہوں گے، کہیں بیٹا پریشان تو نہیں ہو رہا ہوگا۔ میری بیٹیاں، میری غیر موجودگی میں محفوظ بھی ہیں یا نہیں۔ بس ، زندگی کی گاڑی انہی سوچوں کے ساتھ آگے بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘

بشریٰ کی شادی خاندان میں ہوئی،لیکن اُس کا شوہر اسے پسند نہیں کرتا تھا اور یہ شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پھر اوپر تلے تین بیٹیوں کی پیدائش نے تو اسے مزید بدظن کردیا۔ بیٹے کی خواہش کی آڑ میں اُس نے دوسری شادی کرلی، حالاں کہ دوسری بیوی سے بھی بیٹیاں ہی پیداہوئیں، لیکن دوسری بیوی کے کہنے پراُس نے بشریٰ سے لاتعلقی اختیار کرلی۔ تعلیم یافتہ بشریٰ نے زندگی کی پتواراپنے ہاتھوں سے کھینچنی شروع کی، سُسرال کے ایک کمرے میں رہ کر خاموشی سے بچیوں کی تعلیم کو اپنا نصب العین بنالیا۔

بچیوں کی تعلیم، اسکول، کالج لانے ،لے جانے سمیت تمام مسائل کا تنِ تنہا سامنا کیا۔ بلاشبہ یہ ایک عورت ، ماں ہی کا حوصلہ تھاکہ شوہر کی قطع تعلقی کے باوجود اُس نے ہار نہیں مانی اور تنہا ہی بچیوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرتی رہی۔ تب ہی آج اس کی ایک بیٹی انجینئر ،دوسری ڈاکٹر ہے۔ کنچی آنکھوں والی ثمینہ کے والد کے انتقال کے بعد گھر کی تمام ترذمّے داری اُس کے کاندھوں پر آن پڑی ، خوش قسمتی سے اُسے والد کے ادارے ہی میں ملازمت مل گئی۔ ابھی زندگی کی گاڑی پٹری پر آنا شروع ہی ہوئی تھی کہ ایک بہن بیوگی کی چادر اوڑھے ، دو بچیوں کے ساتھ میکے لَوٹ آئی۔

چند ماہ بعد ثمینہ کی شادی توہوگئی، مگر وہ بہن کی بچیوں کی بھی کفالت کرتی رہی۔ شومئی قسمت ، شادی کے چھے سال بعد مختصر سی علالت کے بعد اس کے شوہرکا بھی انتقال ہوگیا۔ ثمینہ کی بھی دو بیٹیاں ہیں، جو والد کی وفات کے بعد تین سال بعد بھی سنبھل نہیں پارہی ہیں۔ جب بھی کسی بچّے کو اس کے والد کے ساتھ دیکھتی ہیں، تو ان ننھی پریوں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ جاتی ہیں کہ جیسے وہ اپنے باپ کی متلاشی ہوں۔ اور ثمینہ غمِ روزگار کے ساتھ، دُکھ کا یہ پہاڑ بھی اپنے کاندھوں پہ اُٹھائے زندگی کی گاڑی گھسیٹے چلی جا رہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکیلی مائوں یا سنگل مدرز کے لیے جس مضبوط سیٹ اَپ کی ضرورت ہے، اس کا وجود سِرے سے نظر ہی نہیں آتا۔

خواتین کے حقوق کی بات تو ہر کوئی کرتا ہے، لیکن انہیں سماج میں اُن کا صحیح مقام دلوانے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی جاتی۔ ایسے بہت سے خاندان ہیں، جہاں طلاق یا خلع یافتہ بیٹی کو بدنامی کی وجہ قرار دے کر الگ تھلک کر دیا جاتا ہے، جب سگے والدین، بہن ، بھائی ہی ساتھ نہ دیں، تو ایک مجبور، بے سہارا عورت کس کا دَر کھٹکھٹائے۔ اس تکلیف دہ امر کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ سخت الجھنوں ، پریشانیوں، مسائل کی شکار کوئی عورت ایک خوش باش، خود اعتماد نسل بھلا کیسے پروان چڑھا سکتی ہے۔

نیز، خواتین کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ عہد سماجی میل جول کا ہے، جہاں ایسے بے شمارپلیٹ فارمز موجود ہیں ،جو خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں، تو خدارا! اپنے پَیروں پہ کھڑا ہونے کی کوشش کریں۔ تعلیم یافتہ نہیں ہیں، توکوئی نہ کوئی ہنر سیکھنے کی سعی کریں، لیکن کسی بھی حال میں ہار نہ مانیں کہ آپ کی ہار، ایک پوری نسل کی شکست کے مترادف ہے۔