• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

1980ء تک چین دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل تھا جس کی 80 فیصد آبادی کی یومیہ آمدنی ایک امریکی ڈالر سے کم تھی اور تمام بالغ افراد کا صرف ایک تہائی حصہ تعلیم یافتہ تھا۔ اس کی فی کس آمدنی انڈیا کے برابر تھی۔ 2000 تک غربت کا تناسب کم ہو کر تقریباً 16 فیصد رہ گیا تھا۔ 2008 اور 2018 کے درمیان چین کاجی ڈی پی 4.6 ٹریلین ڈالر سے 18 ٹریلین تک، یعنی چار گنا بڑھ گیا۔ اس طرح یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن گیا۔آج اس کی فی کس آمدنی دس ہزار ڈالر ہے جو انڈیا سے پانچ گنا زیادہ ہے۔قابلِ ذکربات 700 ملین آبادی کو غربت سے نکالنے میں اس کی کامیابی ہے جس میں 500 ملین لوگ متوسط طبقے کے طرز ِزندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ چین آج دنیا کادوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک ہے جس کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ زرِمبادلہ کے ذخائر 3.2 ٹریلین ڈالر ہیں جو 13 ماہ کی درآمدات کے برابر ہیں۔ 1960 میں کوریا اور پاکستان کی فی کس آمدنی 100 ڈالر تھی۔ کوریا اب بڑھ کر او ای سی ڈی ملک بن چکا ہے۔ اس کی فی کس آمدنی 27500 ڈالر تک پہنچ چکی ہے جب کہ ہم نے ابھی 1600 کی حد بھی عبور نہیں کی۔

1960ء کی دہائی کے آخر میں ایک وقت تھا جب پاکستان کی برآمدات انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور فلپائن کی مجموعی برآمدات سے زیادہ تھیں۔ ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں عملی طور پر کوئی انتہائی غربت یا درمیانے درجے کی غربت نہیں ہے۔ انڈونیشیا کی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ غربت سے نیچے ہے۔ جنگ سے تباہ شدہ ویت نام 1985 اور 2020 کے درمیان 100 فیصد سے زیادہ کی برآمدات کے ساتھ اپنی اوسط فی کس آمدنی میں 12گنا اضافہ کرنے میں کامیاب رہا۔ ویت نام میں غربت کی شرح 70 فیصد سے کم ہو کر 8 فیصد پر آگئی۔ تقریباً دو عشرے قبل ملک میں معاشی طور پر محفوظ متوسط طبقے کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔ دو دہائیاں قبل پاکستان کی برآمدات 10 ارب ڈالر اور ویت نام کی 14 ارب ڈالر تھیں۔ 2020 میں ویت نام 281 بلین سے تجاوز کر چکا تھا جب کہ ہم اس کا تقریباً دسواں حصہ ہیں۔ جبکہ یہ تمام ممالک آگے بڑھ چکے ہیں۔ پاکستان اب بھی 1600 ڈالر فی کس آمدنی، غربت کی شرح تقریباً 24 فیصد اور 30 ارب ڈالر کے برآمدی ہدف حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔ اس سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ملک کی شرح نمو بھی دوسروں سے پیچھے رہ گئی ہے بلکہ ترقی کے ثمرات بھی بڑے پیمانے پر غیر متناسب طور پر ایک قلیل اشرافیہ کی جیب میں جارہے ہیں۔ پاکستان نے اگر1960 کی دہائی کی اپنی معاشی ترقی کو برقرار رکھا ہوتاتو اس کی معیشت مشرقی ایشیائی معیشتوں کی طرح ہوتی اور اب تک درمیانی آمدنی والے گروپ میں شامل ہو چکی ہوتی۔ ہم طویل عرصے سے کم درمیانی آمدنی رکھنے والے ممالک کی صف میں جامد کھڑے ہیں۔

جہاں برطانیہ کو اپنی فی کس آمدنی کو دوگنا کرنے میں تقریباً ایک صدی لگ گئی، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو 50 سال لگے، وہیں زیادہ تر آسیان +3 ممالک2 (آسیان + جاپان، چین اور کوریا) نے یہ ہدف نصف صدی سے بھی کم وقت میں حاصل کر لیا۔ جاپان نے 40 سال میں، کوریا نے 25 سال میں اور چین نے 10 سال میں یہ کام کیا۔مشرقی ایشیائی معیشتوں سے کون سے اسباق ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے پائیدار اور جامع ترقی حاصل کی جانی چاہیے ؟ ذیل میں ان کا تجزیہ کیا گیا ہے:

1۔ نمو، شمولیت اور استحکام کے درمیان کوئی ربط نہیں : ماہرین اقتصادیات اور پالیسی سازوں کی سوچ پر غلبہ رہا کہ شمولیت اور پائیداری کے دیگر اہداف کو ترک کیے بغیر تیز رفتار ترقی ممکن نہیں۔ لیکن مشرقی ایشیائی معیشتوں کے پچاس سالہ تجربے نے یہ مفروضہ بدل دیا۔ انہوں نے نہ صرف فی کس آمدنی میں کئی گنا اضافہ کیا بلکہ تقریباً ایک ارب لوگوں کو غربت سے نکالا اور ترقی کے فوائد کو عوام میں تقسیم کیا۔ 1990-2005 کے عرصے میں، انتہائی غربت میں تقریباً دو تہائی کمی واقع ہوئی کیونکہ فی کس آمدنی 2 سے 4 فیصد سالانہ تک بڑھ گئی۔ سماجی نقل و حرکت اور مواقع کی مساوات نے صنفی، جغرافیائی، نسلی اور خاندانی پس منظر کے درمیان عدم مساوات کو کم کیا۔ 2021 کا نوبل انعام برائے اقتصادیات ان محققین کو دیا گیا جنہوں نے یہ ثابت کیا کہ کم از کم بلند اجرت کے نتیجے میں بے روزگاری میں اضافہ نہیں ہوتا۔

2۔ حکومت کا کردار: مشرقی ایشیائی ممالک میں حکومت کا کردار معاشی ترقی کے لیے نجی شعبے کی سہولت، رہنمائی اور مدد فراہم کرنا رہا ہے۔ طویل مدتی وژن اور اسٹرٹیجک سمت کا تعین کرتے اور پیش بینی سے کام لیتے ہوئے مستقل پالیسیاں وضع کی گئیں اور ان پر عمل کرکے میکرو اکنامک کو مستحکم کیا گیا۔ان ممالک کی حکومتوں نے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اعتماد دیا۔ سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات نے مقامی حکومتوں کو مضبوط کیا جس سے وہ سرمایہ کاری کو راغب کرنے، بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور کاروباری ماحول کو بہتر بنانے اور کاروباری مسابقت کی راہ اپنانے کی اجازت دیتی ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں تبدیلیوں کے باوجود ڈنگ شیائو پنگ(Deng Xao Ping) کی قیادت میں 1970 کی دہائی کے اواخر میں چین نے جو طویل المدتی راستہ چنا تھا، اسے اب بھی قدرے ترمیم کے ساتھ برقرار رکھا گیا ہے۔ دیگر مشرقی ایشیائی ممالک نے جاپان کی مثال کی پیروی کی جہاں صنعتی حکمت عملی اور وژن کو تیار کرنے اور ان برآمدات کی توسیع میں نجی شعبے کی مدد کرنے کے لیے بین الاقوامی تجارت اور صنعت (MITI) کے نام سے ایک علیحدہ وزارت بنائی گئی۔ جاپان کے صنعتی اور کاروباری ماڈل میں حکومت اور نجی شعبہ باہمی تعاون کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ خطے کے بہت سے ممالک میں اس کی نقل کی گئی جیسے کوریا، ملائیشیا، چین وغیرہ۔ اس سے معیشت میں ہمواری، منافع خوری کے رجحان میں کمی اور صحت مندانہ مسابقت کی فضا قائم ہوئی۔

تازہ ترین