• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب تصوف اور محبت کی سرزمین ہے۔یہ خوش نصیب خطہ ہزاروں سال پرانی تہذیب کا وارث ہے۔پنجاب کی تاریخ پر سرسری نگاہ دوڑائیں تو اس کا ذکر قدیم کتب میں بھی ملتا ہے۔ہندوستان کی قدیم ترین داستانوں میں سے ایک، مہا بھارت میںاس دھرتی کو’’پنج ندا‘‘ لکھا گیا ہے جس کے معنی پانچ ندیوں کے ہیں،یہ تذکرہ ثانوی یا زیبِ حکایت نہیں بلکہ تفصیل سے موجود ہے۔اسی طرح ابن ِ بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامے میں اس خطے کاذکر تفصیل سے کیا ہے۔ابن ِ بطوطہ نے یہاںتک لکھا کہ یہ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے،جہاں کبھی بھوک اور آفات نے مستقل ڈیرے نہیں ڈالے۔ابوالفضل کی آئین ِ اکبری میں بھی پنجاب کا ناصرف ذکر موجود ہے بلکہ اس کی عسکری اہمیت کے بارے میں بھی سیر حاصل تذکرہ ہے۔اس طرح کی بے شمار تاریخی اسناد ہیں جو پنجاب کو ہزاروں سال پہلے کی تہذیب کا وارث ثابت کرتی ہیں۔

تاریخی حقائق کے آئینے میں دیکھیں تو پنجاب کی اہمیت کو کسی بھی طور کم نہیں کیا جا سکتا۔لیکن بد نصیبی سے ایک سازش کے تحت پنجاب کے ہیروز کو وِلن ثابت کرنے کی کوشش کی گئی جس میں پنجاب دشمن بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔یہ سلسلہ اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب یہاں بیرونی حملہ آوروں کی آمد ہوئی۔سکندر آیا تو اس کے سامنے پورس ڈٹ کے کھڑا ہوا اور دنیا کی مضبوط ترین فوج کا مقابلہ جوانمردی سے کیا۔منگولوں سمیت جب کبھی کوئی یہاں حملہ آور ہوا تو پنجاب کے لوگوں نے مقابلہ کیا، اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ثابت کیا کہ اپنی دھرتی کےلئے لڑتے ہوئے گردن کٹوا لینا شکست نہیں، جیت ہے۔انگریز دور میں جس زبان نے سب سے زیادہ صدمے برداشت کئے وہ پنجابی ہی تھی۔ پنجابی زبان میں تحقیق کا کام تو جیسے نہ ہونے تک ہی محدود رہا۔جو پنجابی کتب خانوں اور تراجم کی جانب راغب ہو رہے تھے انہوں نے بھی مزاحمت کی راہ اختیار کی۔پنجاب نے ایک بار پھر کتاب کی جگہ ڈھال اور قلم کی جگہ بندوق اٹھا لی وہ انگریز سرکار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر ان کی نسلیں بھی اسی لڑائی میں خرچ ہوئیں۔یہ وہ وقت تھا جب علمی انقلاب چھاپہ خانے کی شکل میں دنیا کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ چھاپہ خانے کی ہندوستان آمدنے زبانوں کی ترقی میں انقلاب کا دروازہ ضرور کھولا لیکن پنجابی کے لئے یہ انقلاب بھی آکسیجن کی وہ کھڑکی ثابت نہ ہوا جس سے اس زبان کی سانسیں بحال ہو سکتیں۔انگریز چالاک تھا،جانتا تھا کہ جب زبان کمزور ہوجائے تو قوم خودبخود ٹوٹ جاتی ہے۔ثقافت سلامت رہتی ہے نہ ادب سمیت کسی بھی روایت کی جڑیں مضبوط رہتی ہیں جو اس خطے کا سرمایہ مانی جاتی ہیں۔پنجابی کے ساتھ بھی یہی کھیل ہوا،لیکن یہ زبان اتنی طاقتور تھی کہ آ ج سازش کی کئی صدیاں گزر جانے کے باوجود اپنی جگہ پرقائم ہے۔پنجاب نے ہمیشہ اپنے دروازے کھلے رکھے،یہاں کبھی تعصب آیا ہی نہیں۔پختون بھائی ہوں یا سندھ سے آئے ہم وطن یاپھر بلوچ قوم پرست،پنجاب نے کھلے بازووں سے خوش آمدید کہا۔اس محبت کے باوجودپنجاب کو گالی دینا اور پنجابی کے ساتھ دشمنی جیسے کارِ خیر سمجھ کر کی گئی۔اب بھی سیاسی مفادات کے لیے پنجاب کی تقسیم کا ایسا ایجنڈا زیر بحث ہے جس سے ناصرف ریاست کمزور پڑے گی بلکہ پنجاب کی محرومیوںمیں مزید اضافہ ہوگا۔بہرحال پنجاب اور اس میں ہزاروں سال کی جدوجہد کرکے اپنی روایات کو زندہ رکھنے والے اتنے بھی کمزور نہیں کہ ایسی سازشوں کے خلاف اُٹھ کھڑے نہ ہوں۔

تمام سازشوں کے باوجود آج بھی پنجاب میں وہی تازگی دکھائی دے رہی ہے جو کسی زندہ ثقافت کے سلامت اور توانا ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔پنجاب کے عوام اپنی ہزاروں سال پرانی روایات اور ثقافت سے محبت کے اظہار کےلئے ’’پنجاب کلچرڈے‘‘منارہے ہیں۔آج چیت کی یکم تاریخ ہے،یہ بہار کی آمد کا اعلان ہے۔دنیا میں بیشتر اقوام بہار کے آغاز پر ہی اپنے ثقافتی تہوارمنانے کی روایت رکھتی ہیں۔پنجاب نے کئی صدیاںسازشوں کا سامنا کرتے گزار یں لیکن اپنی پہچان کو فراموش نہیں ہونے دیا۔ آج پنجابی چاہتے ہیں کہ ان کی ثقافت کا دن منانے کی روایت زندہ ہو،وہ ثقافت جسے قتل کرنے کے لئے ہر دور کی بڑی عالمی قوت کوشش کر چکی لیکن ناکام رہی۔کلچر ڈے منانے کا فیصلہ پنجاب اور پنجابی کے لئے کام کرنے والی تمام تنظیموں نے مشترکہ طور پر کیا ہے۔اب پنجاب حکومت بھی پنجابی کلچر ڈے کے پروگرام کر رہی ہے، پچھلے سال کی طرح اس سال بھی پولیس سمیت دیگر اداروں کے افسران بھی پنجاب کلچر ڈے کی مناسبت سے پہناوے پہنے پنجابی ثقافت کے رنگ بکھیررہے ہیں۔آج یکم چیت ہے،چیت کا مہینہ بھی کیلنڈر سے زیادہ پنجابیوں کے دلوں میں ہے۔یہ پہلی چیت اس طلوع کی پہلی کرن ہے جو آنے والی نسلوں کو ایسی روشنی دے گا جس میں اپنی ثقافت کا ہر نقش روشن اور نمایاں ہوکر دکھائی دے گا۔آج کا دن پنجاب کا دن ہے،اس پنجاب کادن جس کی پہچان مٹانے کی کوشش کئی صدیوں سے ہوتی رہی لیکن اس کا اُچاشملہ جھکا نہ آنکھوں سے’’روایتی اَنکھ‘‘ کی لالی گئی۔پنجاب آج بھی قائم ہے اور اللہ کے فضل سے ہمیشہ اسی طرح ہنستا بستا اور لہلہاتا رہے گا۔

تازہ ترین