• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمہوریت کا ننھا منا پودا جس کا بیج 3نومبر 2007کو بویا گیا تھا معلوم ہوتا ہے کہ اب تناور درخت کی صورت اختیار کرنے کو ہے۔ خیال آتا ہے کہ اگر آج جمہوری ادارے مضبوط ہیں،عدلیہ پوری تابندگی کے ساتھ انصاف کے پرچم کی سربلندی میں مصروف عمل ہے،ہمارے عسکری ادارے ملکی سلامتی کیلئے قومی پالیسیاں بنانے کیلئے جمہوری حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔تو دل ایک ہی گواہی دیتا ہے کہ اس سب کا سہرا عدلیہ کے ’ افتخار‘ کی اس ’نہ ‘کو جاتا ہے جو انہوں نے جابر حاکم وقت کے سامنے 3نومبر 2007کوبلند تھی۔ایک ایسی ’نہ ‘جس نے نئے پاکستان کی بنیاد ڈال دی تھی۔آج جب عدلیہ چوتھا تاریخی سال ختم کرکے پانچویں سال میں داخل ہورہی ہے۔اس عرصے میں قومی خزانے سے لوٹے گئے اربوں روپے کی واپسی کا معاملہ ہویا پھر لاپتہ افراد کی بازیابی ، رینجرز کے ہاتھوں نہتے نوجوان کے قتل کا معاملہ ہو یا پھر کراچی و بلوچستان میں بدامنی کا سلسلہ ۔کورٹ روم نمبر 1 کے احکامات ہر مظلوم کے دل کی آواز بنتے رہے۔9 ستمبر کی صبح مارگلہ کی پہاڑیوں میں گھرے شہر اقتدا ر کی فضا سرد ہوا کے جھونکوں میں ڈوبی جارہی تھی۔بوندا باندی اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے تیز بارش اور سرد ہوا میں تبدیل ہوچکے تھے۔بارش میں بھیگتا ہوا عدالت عظمی کی عمارت کے بیرونی احاطے سے ہوتا ہوا کورٹ روم نمبر 1کے مرکزی دروازے پر پہنچا تو عدلیہ کے نئے سال کے آغاز کی پروقار تقریب میں شرکت کیلئے بار کے ممبران سمیت ایک بڑی تعدا د جمع تھی۔کورٹ روم نمبر 1کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو چیف جسٹس آف پاکستان کی بارعب آواز سماعتوں سے ٹکرائی تو معلوم ہوا کہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری کا خطاب شروع ہوچکا تھا ْ۔مگر ابتدائیہ کلمات ہی ادا کئے گئے تھے۔کورٹ روم وکلاء برادری سے بھرا ہوا تھا،مگر خطاب کو بغور سننے کے تجسس میں قطاروں کو چیرتا ہوا باhلآ خر پہلی صف میں پہنچ ہی گیا۔چیف جسٹس صاحب درست فرما رہے تھے ۔جب سے انہوں نے اس منصب کا حلف اٹھایا ہے ملک میں انصاف کی ترویج کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کئے گئے۔گزشتہ چار سالوں کی طرح اس مرتبہ بھی 18ہزار سے زائد زیر التواء مقدمات کا فیصلہ سنایا گیا۔ 2009 سے لے کر ستمبر 2013 تک 11.75ملین مقدمات کے فیصلے کئے گئے۔تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان تو کیا پوری دنیا کی عدالتی تاریخ میں اتنے انہماک سے اس قدرقلیل عرصے میں اتنی بڑی تعداد میں مقدمات کے فیصلے نہیں کئے گئے۔انصاف کی سستی اور آسان فراہمی حکومت وقت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے ۔مگر اس میں بھی کوئی خاص دلچسپی نہ لی گئی تو اعلی عدلیہ کے نوٹس لینے پر حکومت پنجاب نے تو ایک ارب کی رقم جاری کرتے ہوئے جوڈیشل افسران تعینات کردئیے مگر دیگر صوبوں میں معاملہ جوں کا توں رہا۔گزشتہ چار سالوں میں قومی خزانے کے ساتھ حکام کی لوٹ مار کی بہت مثالیں ہیں این آئی سی ایل اسکینڈل،حج کوٹہ کرپشن،پاکستان اسٹیل مل میں ہونے والی بے ضابطگیاں،رینٹل پاور پلانٹ میں کروڑوں کی کرپشن۔حتی کہ اکیلے ای او بی آئی اسکینڈل میں اربوں روپے کرپٹ مافیا کی جیبوں میں سے واپس نکلوائے گئے۔تمام مقدمات میں ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کی گئی۔
جناب چیف جسٹس آف پاکستان درست فرمارہے تھے کہ مناسب مقدمات میں ازخود نوٹس بھی لیا گیا،ان مقدمات کے تعین میں سپریم کورٹ کا اقدام اچھا ہے کہ نہیں ۔اس سوال کا تعین مستقبل کے تاریخ دان پر چھوڑتے ہیں۔مگر میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ان چار سالوں کی تاریخ تو ان مٹ ہے۔جو تاریخی فیصلوں کی صورت میں خودبخود تحریر ہوچکی ہے۔عدالت عظمی کا ہر درودیوار اس کی گواہی دیتا ہے۔ ان مظلوموں ،بے یارومددگار لوگوں کی آہیں ،جو عدالت میں سسکیاں بھرتے ہوئے داخل ہوئے اور لوٹے تو عدلیہ کے افتخار کے تاریخی فیصلوں کی بدولت انکے چہرے دمک رہے تھے۔میرے خیال سے تاریخ لکھی جاچکی ہے۔ایک ایسی تاریخ جو نئے پاکستان کا پتہ بتارہی ہے۔ابھی خیالات کی اس دنیا میں مگن ہی تھا کہ اختتامیہ دعا ئیہ کلمات پڑھے جانے لگے تو میں دیوار پر سابقہ معزز چیف جسٹس صاحبان کی تصویریں دیکھ رہا تھا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ سب میری طرف متوجہ ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم سب نئی تاریخی رقم کررہے ہیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اس کمرے میں لگی تصویر یا نوٹس بورڈ پر نہیں بلکہ تاریخ کے اوراق میں زندہ رہیں گے۔ایک ایسی تاریخ جس کے مصنف تو وہ خود ہیں مگر مرکزی کردار پاکستان کے غیور و غریب عوام ہیں۔عدلیہ کے تاریخی سالوں میں قومی خزانے میں لوٹ مار ہو یالاپتہ افراد کی بازیابی نیز کہ فیصلہ کئیے گئے مقدمے کا صرف عنوان ہی لکھ کر آگے چل دوں پھر بھی سینکڑوں کالم پر مشتمل ایک سیریز درکار ہوگی۔تقریب کا اختتام ہوچکا تھا۔معزز عدالت عظمی کے رجسٹرا ر جناب ڈاکٹر فقیر حسین کی شائستہ آواز ہال میں گونجی کہ مہمانوں کے لئے ریفریشمنٹ کا انتظام متصل ہال میں کیا گیا ہے۔چند لمحوں بعد ہی پررونق کورٹ روم خالی ہوچکا تھا۔مگر میں اس سوچ میں گم تھا کہ کیا آنے والے سالوں میں بھی عدلیہ کی تاریخ ایسی ہی شاندار ہوگی۔بوجھل بوجھل قدموں کے ساتھ کورٹ روم سے منسلک ہال میں داخل ہوا تو کیا حسین منظر تھا۔عدلیہ کے افتخار کی ایک جھلک دیکھنے کو ہال میں موجود ہر شخص ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں تھا۔ہال میں شاندار ریفریشمنٹ کا بندوبست کیا گیا تھا۔صبح ناشتہ نہ کرنے کی وجہ سے کچھ دیر قبل بھوک کی طلب نہ جانے کہاں غائب ہوگئی تھی۔مجھے تو اپنے سوال کا جواب چاہئے تھا؟ اچانک جانی پہچانی پروقار شخصیت نظر آئی۔ سلام کی غرض سے قریب ہوا ،مگر گفتگو طویل ہوتی چلی گئی۔ مجھے جواب مل چکا تھا۔ سپریم کورٹ کی عمارت سے باہر آتے ہوئے محسوس کررہا تھا کہ اضطراب کی کیفیت سے باہر نکل آیا ہوں۔ ایک نیا پاکستان دیکھ رہا تھا۔میرا یقین تھا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔عدلیہ کے آئندہ سالوں میں بھی ایسے ہی تاریخی فیصلے اس قو م کا مقدر ہونگے۔ مگر کیا کروں قلم چلتے چلتے رکتا ہے اور پھر چل دیتا ہے اور لبوں پر یہ مصرعہ مچل جاتا ہے ،کبھی یاد کرو گے جب ہم نہ ہونگے۔
تازہ ترین