فلاحی حکومتوں کا آج کل بہت رواج ہے۔ تقریبا ہر ملک میں آنے والی حکومت اپنے آپ کو عوام فلاح و بہبود کی نگہبان گردانتی ہے اور welfare State کا جھومر لگاتی ہے۔ اس کی ساری پالیسیوں کا محور عوام ہوتے ہیں۔ بالکل یہی صورتحال ہمارے یہاں بھی ہے۔ الیکشن کے قریب ہر پارٹی اپنا منشور پیشی کرتی ہے جس میں حکمرانی عوام کی ہوتی ہے اور حکمران خدام عوام ہوتے ہیں۔ غربت کا خاتمہ اور سماجی انصاف کا قیام ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ اس کے بعد قیمتوں میں توازن اور نوکریوں کی بھرمار ان کی دوسری ترجیح ہوتی ہے۔ الغرض دودھ کی نہر ہی بہنے والی ہوتی ہے کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد حکومتی تشکیل ہوتے ہی اچانک دودھ ہی خشک ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یوں نہر بہنے کے پروگرام موخر ہوجاتا ہے کیونکہ "فنڈز کی کمی" آڑے آتی ہے۔عوام حیرت زدہ رہ جاتی ہے کہ ابھی توالیکشن سے پہلے ان ہی لوگوں نے پانی کی طرح پیسہ بہایا ہے اب اچانک یہ مفلس کیسے ہوگئے؟دوسرے نمبر والی ترجیح یعنی روزگار کے مواقع فراہم کرنا تو اس پہ مکمل خاموشی ہوجاتی ہے بلکہ حکومتی خسارے( بجٹ خسارہ) کو کم کرنے کے نام پر نج کاری کا عمل تیز کردیا جاتا ہے، یوں سرکاری نوکریوں کی بجائے down sizing کے نام پر نوکریوں سے نکالا جاتا ہے۔ حکومتی شاہ خرچیوں کو کم کرنے کی بجائے مزید بڑھا دیا جاتا ہے اور پھر بجٹ خسارے کے نام عالمی برادری سے سخت شرائط پر قرضہ حاصل کیا جاتا ہے۔ ان سخت شرائط کا ایک کی مقصد ہوتا کہ ملک میں مہنگائی کی جائے اور روپے کی قدر قرض دینے والے ملکوں کی کرنسی کے مقابلہ میں کم رکھا جائے۔ یوں نہ قیمت کم ہوتی ہے نہ ہی روزگار میں اضافہ ہوتا ہے۔ اب آپ ہی اندازہ لگا لیں کہ غربت کا خاتمہ کیسے ممکن ہوگا؟ ایک آخری اور سب سے اہم نکتہ کے سماجی انصاف اور برابری تو اس کے لئے حکومتی دعوئ بہت ہوتا ہے لیکن عمل نہ ہونے کے برابر۔ دنیا بھر کے قانون کے مطابق ہر شہری کی۔جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری صرف اور صرف ریاست کی ہے۔ فلاحی ریاست کا دعوئ کرنے والی حکومتیں اپنے دعوے سے بہت زیادہ کرکے دیکھاتی ہیں۔ مگر افسوس ہمارے حکومتیں فلاحی ریاست ہونے کا دعوٰی تو کرتی ہیں لیکن واضح طور پر سماجی نا انصافی کی بنیادوں کام کرتی ہیں۔ امن وامان قائم کرنے کی بجائے عوام کو نجی گارڈز رکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ واضح طور پر دو طبقاتی نظام بنایا جاتا ہے ۔ جس میں عوام کے لئے معیار کچھ اور خواص کے لئے معیار کچھ ہوتا ہے۔ پولیس کی اہم ذمہ داری عوام کی جان اور مال حفاظت کرنا ہے لیکن ہماری فلاحی ریاست میں خواص کی حفاظت کے لئے پولیس کی پچاس فیصد سے زیادہ نفری تعینات ہوتی ہے۔ جو جدید اسلحہ سے لیس ہوتی ہے اور انتہائی تربیت عملہ ان کی حفاظت سے معمور ہوتا ہے۔ ان کی حفاظت صرف سرکاری خدمات انجام دیتے وقت ہی نہیں کی جاتی بلکہ جب یہ اپنے خاندان کے ساتھ تفریحی مقصد کے تحت باہر جاتے ہیں یا کھانا کھانے کے لئے کسی ریستوران میں جاتے ہیں تو پولیس کی بھاری نفری اس مقام یا ریستوران کے باہر ان کی اور ان کے خاندان کی حفاظت کے نام پر گھنٹوں کھڑی رہ کر خوش گپیوں میں مصروف رہتی ہے۔ کیا یہ وسائل کا غلط استعمال میں نہیں ہے؟ دوسری طرف عوام کی حفاظت کے لئے تعینات پولیس انتہائی سست، قدیم ہتھیاروں سے لیس (جو کہ ضرورت پڑنے پر شاید چلتے بھی نہ ہوں) ہوتی ہے، گاڑی اتنی پرانی کہ اس کو چلتا دیکھ کر ہی حیرت ہوتی ہے۔ یہ پولیس والے عوام کی حفاظت کرنے کی بجائے ان سے الٹا ان سے مدد کے طلبگار رہتے ہیں۔ جب حکمران یا خواص سڑکوں پہ اپنی سرکاری گاڑی میں سرکاری گارڈز کے ساتھ گزرتے ہیں تو تکبر کا یہ حال ہوتا ہے کہ ہارن بجا کر اور بندوق لہرا لہرا کر ہر گزرنے والی گاڑی والے کو ہراساں کیا جاتا کہ وہ اپنی رفتار کم کرکے کنارے ہو صاحب بہادر کو
راستہ دے۔ اس وقت اچانک سے پریشر ہارن سن کے بندوقوں کی نوک اپنی طرف دیکھ بہت سے لوگ خوفزدہ ہوجاتے اور کچھ شدت سے ڈپریشن کا شکار کہ آخر یہ کون سی بےعزتی کرنے کا طریقہ ہے یہ مملکت خدا داد ہے فلاحی ریاست ہے انسانی حقوق اور سماجی انصاف سب کے لئے ہے۔ لیکن سڑکوں پہ ہی یہ امتیاز نظر آجاتا ہے لیکن حکمرانوں کو اس کا احساس نہیں۔ ابھی ایک ایف ایم ریڈیو پولیس کی زیر نگرانی شروع ہوا ہے جو کہ عوام کو قانون کی عملداری کے طریقہ بتاتا ہے وہیں یہ بھی اعلان ہوتا ہے کہSpecial Security Unit (SSU) قائم کیا گیا ہے جس کا عملہ انتہائی جدید اسلحہ سے لیس ہے، جس کی اسپیشل تربیت کی گئی ہے یہ "کمانڈوز خواص کی حفاظت کے ذمہ دار" ہیں۔ غور کریں کہ باقاعدہ اشتہار میں اس کا فخر سے دعوئ کیا جاتا ہے تو سماجی انصاف کہاں اور کیسے فلاحی ریاست میں ممکن ہو؟
minhajur.rab@janggroup.com.pk