• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغان خواتین کھلاڑیوں کو کھیلنے دینا طالبان کے خلاف مزاحمت ہے: ملالہ

---فائل فوٹو
---فائل فوٹو

نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے ایک مرتبہ پھر افغان خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہوئے عالمی کھیلوں کے اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور افغان خواتین ایتھلیٹس کے لیے کھیل کے میدان میں مواقع پیدا کریں۔

ملالہ نے سی این این اسپورٹس کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ جب ہم افغان خواتین کھلاڑیوں کو کھیلنے کا موقع دیتے ہیں، تو یہ طالبان کے خلاف ایک مزاحمت ہے۔

ملالہ نے کہا کہ جب دنیا بھر میں خواتین کی کھیلوں میں کامیابیوں کا جشن منا رہی تھیں، افغان خواتین فٹبال ٹیم اپنی سرزمین پر کھیلنے سے محروم تھی، یہ دل توڑ دینے والا لمحہ تھا۔

ملالہ کا کہنا تھا کہ ہر بار جب کوئی افغان لڑکی کھیلتی ہے، پریکٹس کرتی ہے یا اپنا حق مانگتی ہے، وہ طالبان کی سخت گیر پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کا عملی ثبوت دیتی ہے، یہ بہادری ہے۔

انہوں نے عالمی اداروں جیسے فیفا اور آئی سی سی پر زور دیا کہ وہ صرف بیانات پر اکتفا نہ کریں، بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے ان خواتین کھلاڑیوں کو پلیٹ فارم فراہم کریں جو اپنی سرزمین چھوڑنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔

ملالہ نے کہا کہ کھیل انہی کھلاڑیوں سے بنتا ہے، اگر وہ نہ ہوں، تو کھیل بھی کچھ نہیں، ہمیں ان کے لیے راستے تلاش کرنے ہوں گے۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق طالبان کے 2021ء میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان دنیا کا سب سے زیادہ خواتین مخالف ملک بن چکا ہے، لڑکیوں کے لیے ثانوی تعلیم بند، خواتین کی یونیورسٹی میں داخلے پر پابندی اور بغیر محرم کے سفر تک کی اجازت نہیں۔

خواتین پارک، جم، اور دیگر عوامی مقامات پر بھی نہیں جا سکتیں اور اکثر انہیں گھروں میں محدود کر دیا گیا ہے۔

طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغان خواتین فٹبال ٹیم آسٹریلیا میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکی ہے، ملالہ یوسفزئی نے 2023ء کے فیفا ویمنز ورلڈ کپ کے دوران اس ٹیم سے ملاقات کی اور ان کے لیے فیفا سے باقاعدہ شناخت کا مطالبہ کیا۔

فیفا نے حال ہی میں افغان خواتین فٹبال کے لیے ایکشن اسٹریٹجی کا اعلان کیا ہے، تاہم ابھی تک افغان خواتین قومی ٹیم کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب، انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے اپریل میں افغان خواتین کرکٹرز کے لیے امدادی فنڈ اور معاونت کا اعلان کیا، مگر انسانی حقوق کی تنظیمیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ جب تک افغانستان میں خواتین کو تعلیم اور کھیل کی اجازت نہیں دی جاتی، تب تک مردوں کی ٹیم پر پابندی لگائی جائے۔

بین الاقوامی خبریں سے مزید