• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر باراک اوباما اپنے 8سالہ دور کے آخری مرحلے سے گزر رہے ہیں، وہ چینج کا نعرے لیکر آئے تھے اور امریکن قوم کو امن کے ذریعہ عظمت کی نئی راہ پر گامزن کرنا چاہتے تھے لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ نہ ان کی کوششوں سے مشرق وسطیٰ میں استحکام پیدا ہوا نہ افغانستان میں انکی امن کی منصوبہ بندی اور سوچ کامیاب ہوسکی۔ امریکہ بلکہ امریکہ کے دوست ممالک بھی امریکی پالیسیوں سے نالاں نظر آنے لگے۔ امریکہ نے روس کے دبائو میں آکر شام کی خانہ جنگی میں دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی نے شام کا سب کچھ تباہ کردیا۔ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں ایسی تلخی کبھی پہلے نہ تھی۔پاکستان میں لوگ بڑی حیرت سے امریکی حکومت کے رویوں کو دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ ایک بار پھر پاکستان کو بحرانوں کے منجھدار میں اکیلا چھوڑ کر جانے کو ہے۔ پاکستان کے لوگوں کو اس کا تجربہ ہے۔ یہ اس نے ایک بار نہیں کیا۔ پاکستان امریکہ تعلقات کی تاریخ اس کی گواہ ہے۔ پاکستان کے سیاسی لیڈروں میں نہ وہ سیاسی دانش اور نہ سیاسی اسٹرٹیجک حکمت ہے کہ وہ امریکی چالوں سے پاکستان کو نقصان پہنچنے سے بچاسکیں۔ پاکستان کے خلاف امریکی میڈیا مختلف زاویوں سے پروپیگنڈہ کررہا ہے اور یہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ کبھی پاکستان کے جوہری ملک ہونے کے حوالے سے پاکستان کیخلاف سوال اٹھائے جاتے ہیں کبھی اس امداد اور تعاون کو رکوانے کیلئےامریکی انتظامیہ کو مجبور کیا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں F16لڑاکا طیاروں کیلئے فنڈنگ اسی طرح منسوخ ہوئی اور امریکی انتظامیہ اسے منسوخ ہونے سے رکوا نہیں سکی۔امریکی کانگریس کے ممبران نے پاکستانی حکومت کے بارے میں سخت رویہ اختیار کیا ہوا ہے اور وہ پاکستان کو مالی امداد دینے کےبھی سخت مخالف ہیں۔ کانگریس کی خاتون ممبر Ileana Ros نے خارجہ امور کمیٹی کی چیئرمین کے فرائض ادا کرتے ہوئے سخت لہجہ اختیار کیا اور یہ کہا کہ امریکہ کی ناکامی کا براہ راست ذمہ دار پاکستان ہے اور پاکستان کو ملین اینڈ ملین ڈالر دینا جو ہمارے مفادات کے خلاف ہے،یہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔امریکی کانگریس نے F16طیاروں کی فنڈنگ روکنے کے بعد ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کیلئے بھی دبائو بڑھانے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ آپ یاد کریں اور ذرا پیچھے کی طرف دیکھیں کہ یہ وہی ڈاکٹر شکیل آفریدی ہے جو پاکستانی ہے اور اس نے اسامہ بن لادن کی تلاش اور نشاندہی میں امریکہ سے تعاون کیا تھا اور وہ پاکستان میں 23سال کی قید بھگت رہا ہے۔ امریکہ کو اسی ڈاکٹر شکیل کی رہائی مطلوب ہے۔ کانگریس کے کچھ ممبران پاکستان کی امداد پوری طرح روکنے کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں۔خارجہ کمیٹی کی سنوائی کے دوران کانگریس کے ممبر Mr.Salmon نے پاناما پیپرز کا بھی حوالہ دیا جس میں میاں نوازشریف کے خاندان کے لوگوں کی کرپشن کا ذکر ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ امریکی حکومت نے امداد کی رقم کے شفاف خرچ کیلئے سخت انتظامات کئے ہیں۔ کمیٹی ممبران نے کہاکہ اگر پاکستان کی فوجی امداد روک دی جائے تو پاکستان زیادہ سے زیادہ کیا کرے گا۔کمیٹی کی کارروائی کے دوران مسٹر رچرڈ اولسن اور مسٹر سیملر کو جو امریکی انتظامیہ کی نمائندگی کررہے تھے، انہوں نے یہ کیوں نہیں کہا کہ پاکستانی افواج کی سوات، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں کامیاب فوجی کارروائیوں کی بدولت تو امریکہ اور نیٹو کی افواج حملوں سے بچی رہیں ورنہ نتائج بہت برے ہوتے۔ امریکی افواج اور نیٹو ممالک کی افواج طالبان کے درمیان سینڈوچ ہوجاتیں۔امریکی صدارتی الیکشن سے پہلے اور بعد میں امریکہ پاکستان تعلقات مزید کشیدہ ہوسکتے ہیں اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی اور پاکستان کیلئے مالی امداد اور تعاون کی بندش اور طالبان کا مذاکرات سے انکار ایک نئی صورتحال کو جنم دیگا۔ F16کی بندش اور پاکستان سے ناراضی کے ایشو کو وزارت خارجہ سمجھ بوجھ سے اپنے حق میں نہ کرسکی پاکستان کی خارجہ پالیسی امریکی مفادات کے زیراثر رہی ہے۔
اگر ڈونلڈ ٹرمپ صدر امریکہ منتخب ہوگئے تو وہ اور ان کی حکومت پاکستان کیلئے مشکلات کھڑی کریں گے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’’پاکستان نے ہم سے بہت فائدے اٹھائے دوسروں کی طرح وہ بھی بدلے میں کچھ نہیں کرتا‘‘۔ان کا یہ بیان حقائق پر مبنی نہیں ہے۔ پاکستان نے امریکہ کا بہت ساتھ دیا جس کی بدولت اس نے اسٹرٹیجک فائدے اٹھائے۔ آج امریکہ اور چین تعلقات پاکستان کی کوششوںکا نتیجہ ہیں۔ روس کا افغانستان سے انخلاپاکستان کی حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔ اس کے بعد علاقے میں خلاء پیدا ہوا۔ امریکہ ذمہ داریاں نبھانے کے بجائے پاکستان کو تنہا چھو ڑ کر چلا گیا۔ اس کے بعد عالمی مفادات کی اسٹرٹیجی ایسی بدلی کہ امریکہ بغیر سوچے سمجھے افغانستان کے میدان جنگ میں کود پڑا اور یہ اس کی بڑی غلطی تھی۔امریکہ کا افغانستان سے نکلنا اب بہت مشکل ہوگیا ہے، باراک اوباما کے دور صدارت میں ایسا ہونا ناممکن ہے۔ آج امریکی پالیسی ساز مذاکرات کیلئے کوشاں ہیں اور طالبان مذاکرات کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اس علاقے میں اب ایک ایسی صورتحال پیدا ہونے جارہی ہے جس میں پاکستان کو امریکی بھارتی اور افغان دبائو کو Faceکرنا ہوگا۔
تازہ ترین