• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ لگن، عزم و ہمت اور جہدِ مسلسل قوموں کی کامیاب زندگی اور زوال کا تعین کرتی ہے۔ کچھ اقوام ترقی کرنے کے لیے ان تھک جدوجہد کرتی ہیں جبکہ کچھ محض ترقی کرنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ 23مارچ کا جشن تمام پاکستانیوں کے لیے ایک یادگار لمحہ ہوتاہے، موجودہ حالات میں اس کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی۔ 1940، لاہور منٹو پارک میں، اس قوم نے دنیا کے نقشے پر ایک علیحدہ وجود کی حیثیت سے آگے بڑھنے اور زندہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ برصغیر کے مسلمان آزادی اور آزادی کے حقیقی تصور سے آشنا ہو چکے تھے۔ پھر ایک دن، انہوں نے اس نوشتہِ دیوار کو لوحِ محفوظ پر تحریر کر دیا۔ دن 23 مارچ کا تھا۔

پوری دنیا انتشار کاشکار ہے، سب سے زیادہ پاکستان اور کشمیر نت نئے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ 2019 میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے مسلمانوں کے حقوق معطل کئے۔ اس خطے کے تمام شہریوں کے سیاسی اور انسانی حقوق کوصریحاًرد کر دیا گیا۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ بھی اس صورتِ حال میں بے بس نظر آئی۔ صورتحال روز بروز خراب ہوتی گئی۔ ہندوستان کی ریاست اور فوج کے ذریعے سرکاری سطح پر مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دی گئی۔ کشمیر کی حیثیت اور 6دہائیوں سے زیادہ کی اس کی شناخت، ایک ہی بل کے جھٹکے سے چھین لی گئی۔ بی جے پی نے ناقابلِ فہم کردارکا مظاہرہ کیا۔ لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 2020ءکے آغاز سے پورے ہندوستان میں مسلم مخالف جذبات کو عروج پر دیکھا گیا۔ سٹیزن ایکٹ نے مفاہمت کے امکانات کو ختم کردیا۔ احتجاج اور تشدد ہندوستان کے تمام حصوں میں پھیل گیا۔ پولیس، آر ایس ایس غنڈوں اور بھارتی فوج کے ذریعے مسلمانوں کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا جاتارہا۔ نوٹ کریں کہ شہری پابندیاں پورے ہندوستان میں 201ملین سے زیادہ مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ کئی دہائیوں سے ایک پرامن شہردہلی میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں اور بہت سی مساجد جلا ئی گئیں۔ مسٹر ششی تھرور، ہندوستانی پارلیمنٹ میں کھڑے ہوئے، ان کی تقریر پر بے انتہا تنقید کی گئی جب انہوں نے کہاموجودہ حالات میں جو سلوک اقلیتوں کے ساتھ ہندوستان کر رہا ہے’’آج جناح جیت گئے اور گاندھی ہار گئے ہیں‘‘۔

یوم پاکستان، جسے یوم قرارداد بھی کہا جاتا ہے، تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا، جب ہماری پیش بین قیادت نے دہائیوں بعد پیش آنے والی صورتحال کو بھانپ لیا، بلاشبہ مسلمان ہندو اکثریتی ریاست کے تحت نہیں رہ سکتے تھے۔ لسانی، تہذیبی اور طبقاتی رکاوٹوں کو ختم کیا جاسکتا تھا لیکن متعصبانہ رویوں اور سوچ پر قابو نہیں پایا جاسکا، بلکہ ایک طرح سے انہیں بڑھاوا دیا جاتا رہا۔ ہمیں ان ذہنوں اور دلوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے جوبرسوں پیشتر آگے کے منظر نامے کا ادراک کرسکتے تھے۔ انہوں نے اپنے انتہائی دانشمندانہ فیصلے کی بنیاد پر عملی جدوجہدکی اور اس حد تک کی کہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے اپنی جان تک کی پروا نہیں کی۔اس خیال کے معمار علامہ محمد اقبال تھے جنہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی رہنمائی میں اس خواب کو عملی شکل دی تھی۔

پچھلے برسوں میں پاکستان کو مختلف قسم کے سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اندرونی اور بیرونی چیلنجز یکساں حیثیت کے حامل تھے۔ چونکہ قومیں پیچیدگیوں سے نمٹتی اور نئے مسائل سے نبرد آزما ہوتی ہیں ویسے ہی ہم وقت کے ہر امتحان میں سرخرو ہوئے۔ ہم نے آمریت اور جمہوریت کے مابین جدوجہد کی، ہم نے داخلی و بیرونی دہشت گردی اور شورشوں کا مقابلہ کیا، ہم دشمن پڑوسیوں کے درمیان زندہ رہنے میں کامیاب رہے، دیوالیہ پن سے بچتے ہوئے ہم اپنی معیشت کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہوئے، ہم 1971ءسے پھلتے پھولتے اور بنتے چلے گئے۔ واحد مسلم ایٹمی طاقت بنے، واقعی، اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی پریشانیوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے نعمتوں کا بھی شمار کریں۔ان دنوں جس قسم کی سیاسی صورتحال ملک کو درپیش ہے،ہمیں سیاسی بالیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیر پا جمہوریت کو فروغ دیناہوگا۔ پاکستان اس وقت عالمی سطح پر انتہائی اہم ترین کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آچکا ہے عالمی قوتیں پاکستان کے اس اہم ترین کردار کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان سے قریبی روابط قائم کرنے کی خواہاں ہیں۔ چین جیسی معاشی سپر پاور پاکستان کو اپنی عالمی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز تسلیم کر چکی ہے اور پاکستان کے کردار کے مطابق اسے رول ماڈل بنانا چاہتی ہے ایسے میں ہماری اندرونی لڑائیاں اور غیر سنجیدہ اقدامات ہمارے مستقبل کے لیے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ انہیں دیرپا جمہوری عمل چاہئے یا بار بار ڈی ٹریک ہوتی جمہوریت ان کا آخری ہدف ہے، کچھ بھی کرنے سے پہلے پاکستان کی موجودہ پوزیشن اور عالمی حالات و واقعات کو مدِ نظر رکھنا چاہئے پاکستان کے عوام کا مستقبل ان تمام حالات و واقعات سے بلاواسطہ جڑا ہے۔سیاسی اختلافات اور رنجشیں اپنی جگہ لیکن ملکی مجموعی مفاد سب سے مقدم ہونا چاہئے آج ہم پھر ایکتا کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان کا دنیامیں بے حد اہم مقام ہے۔چین، امریکہ، افغانستان اور مشرق وسطیٰ خطے میں استحکام کے لیےپاکستان کی طرف دیکھتے ہیں۔ چین، پاکستان اور گوادر کو مستقبل کی تجارتی کلید سمجھتا ہے، اقوام متحدہ نے پاکستان اور اس کی گورننس کا ذکر امن اور ہم آہنگی کے پیامبر کے طور پر کیا ہے۔ ترکی، سعودی عرب، ایران اور ملائیشیا جیسے مسلم ممالک نے پاکستان کو ایک قابل اعتماد اتحادی قرار دیا ہے۔ پھر بھی، ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اس ملک کے عوام اس فلسفہ سے رجوع کریں جو عظیم قائد نے اس قوم کو دیا تھا اور جوش و جذبے کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں، جو خوشحالی اور نئے سال کے تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کا ایک اٹوٹ جذبہ رکھتا ہو۔غیر یقینی اور عدم استحکام کا یہ وقت بھی گزر جائے گا لیکن یہ وقت آنے والے وقت کے لیے کچھ سخت اور دیر پا فیصلوں کا تقاضا کرتا ہے اتنی دہائیوں کے تجربات ہماری راہیں متعین کرنے کے لیے کافی ہونے چاہئیں لیکن افسوس ہم ماضی کو فراموش کر دیتے ہیں اللہ کرے کہ اس بار ہمارے عمائدین اپنے عوام اور ان کے مستقبل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیصلے کریں۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین