• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں مجھے ’موٹیویشنل کالم ‘ لکھنے کا بہت شوق ہے۔ اِ س کے دو فائدے ہیں۔ پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ زیادہ سوچنا نہیں پڑتا، موٹیویشن کے نام پر کوئی بھی کہانی اٹھائیں، اس کی نوک پلک سنواریں اور بنا دیں کالم۔ موٹیویشنل کالم لکھنے کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اِس سے یوں تاثر ملتا ہے جیسے کالم نگار اِن تمام سنہری اصولوں کو اپنی زندگی کا جزو بنا کر پہلے ہی امر ہو چکا ہے، اب وہ صرف عام لوگوں کی فلاح و بہبود کی خاطر یہ باتیں پھیلا رہا ہے تاکہ باقی لوگ بھی اُس کی دانش سے فائدہ اٹھاکرکامیاب ہو سکیں۔لیکن آج کل ملک میں جس قسم کا ماحول ہے اُس میں موٹیویشن کی ضرورت ’مایوس نوجوانوں ‘ سے زیادہ سیاست دانوں کو ہے۔یہ درست ہے کہ چانکیہ، میکاولی اور سن زو نے اِس موضوع پر لکھنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی، اِن تینوں حضرات نے اپنی کتابوں میں سیاست اور جنگ کے جو رہنما اصول بیان کیے ہیں اُن میں اضافہ ممکن نہیں اور مجھے یہ تسلیم کرنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ یہ تینوں بزرگوار عمر میں مجھ سے سینئر ہیں اور شاید سمجھ بوجھ بھی اِن کی زیادہ تھی، گوکہ بعض محققین کا اِس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے جسے میں قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، لیکن قطع نظر اِس بات کے،میں یہ سمجھتا ہوں کہ جدید دور میں حکمرانی اور سیاست کے اصول کچھ بدل گئے ہیں جس کی روشنی میں اب ایک نئی ارتھ شاستر، دی پرنس اور آرٹ آف وار لکھنی پڑےگی۔ اپنی عدیم الفرصتی کی وجہ سے میں یہ نئی کتاب لکھنے کا کام تو نہیں کر سکتا البتہ اتنا ضرور کرسکتا ہوں کہ ایک خاکہ سا بنا دوں جس کی بنیاد پر یہ کتاب لکھی جا سکے۔ذیل میں یہ خاکہ میں نے بنا دیا ہے،جو لکھاری اِس خاکے سے فائدہ اٹھاکر کتاب لکھنا چاہے اسے اجازت ہے۔ بھارتی میزائل سسٹم کی طرح اِس خاکے کے جملہ حقوق بھی غیر محفوظ ہیں۔

آج کل کے دور میں ڈیجیٹل میڈیا سیاست دانوں کے بیانات ریکارڈکر لیتاہے اور پھر کسی تضاد کی صورت میں یہ بیانات بار بار دکھائے جاتے ہیں کہ دیکھو اِس نے پہلےکیا کہا تھا اور اب یہ کیا کہہ رہا ہے۔ کوئی بھی شخص ، چاہے وہ فرشتہ سیرت ہی کیوں نہ ہو، ایسی زندگی نہیں گزار سکتا جس میں کوئی ایک بھی تضاد نہ ہو۔سیاست دانوں کے معاملے میں یہ تضادات کچھ زیادہ ہی ہو تے ہیں، انہیں بدلتی ہوئی صورتحال کے ساتھ اپنے موقف میں تبدیلی کرنی پڑتی ہے اور لا محالہ اُن دعوؤں سے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے جو انہوں نے ماضی میں کیے ہوتے ہیں۔ اِس پورے مسئلے کا حل ایک لفظ میں پوشیدہ ہے اور وہ لفظ ہے ’قومی مفاد‘۔اسے بوقت ضرورت ’قومی سلامتی کا تقاضا‘ یا ’ملکی مفاد ‘ بھی کہا جا سکتا ہے اور اگر محسوس ہو کہ اِن تراکیب کی تکرار ہو گئی ہے تو اسے ’پارلیمانی نظام کا تسلسل ‘ وغیرہ سے جوڑ کر بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔ ہمیں چونکہ ہر بات کی سند امریکہ سےلانے کا شوق ہے تو اِس کی سند بھی وہیں سے لیتے ہیں۔ سی آئی اے کے ایک سابق سربراہ کا انٹرویو میں نے دیکھا جس میں اُس سے پوچھا گیا کہ دوسرے ممالک میں آمریتوں کو تحفظ دینے یا کسی ملک پر حملہ کرنے کا فیصلہ آپ کس بنیاد پر کرتے ہیں؟ اُس مردِ حُر نے یک حرفی جواب دیا ’نیشنل انٹرسٹ۔‘چٹکی بجاتے مسئلہ حل۔اگر اِس بنیاد پر کسی ملک پر حملہ کرکےلاکھوں لوگوں کو قتل کیا جا سکتا ہےتو چھوٹے موٹے بیانات سے پیچھے ہٹنا تو کوئی بات ہی نہیں۔ سیاست دان اِس ایک لفظ کو رَٹ لیں اور جہاں کہیں مشکل میں پھنسیں، یہ جادوئی لفظ بول کر اطمینان سے آگے نکل جائیں، اللہ برکت دے گا۔

آج کل آزادی رائے کا بھی بہت فیشن ہے۔ چانکیہ،میکاولی اور سن زو کے زمانے میں ایسی خرافات کی کوئی گنجائش نہیں تھی اِس لیے انہوں نے اِس سے نمٹنے کاطریقہ بھی نہیں بتایاخیر، کوئی بات نہیں۔ سب سے پہلے تو یہ بات پلے سے باندھ لیں کہ کہیں بھولے سے بھی آپ نے آزادی اظہار پر قدغن لگانے کی بات نہیں کرنی، ایسا کوئی بھی بیان نہیں دینا جس سے یہ شائبہ بھی ملتا ہو کہ آپ آزاد صحافت کے علمبردار نہیں ہیں، ہمیشہ یہ کہیں کہ آزادیٔ اظہار پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں کی جائے گی اور پھر جب یہ بات کرچکیں تو نہایت ہولے سے ’البتہ ‘ کا دُم چھلا لگائیں اور ساتھ ہی وہ قومی مفاد والی بات جڑ دیں کہ ’البتہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کہیں آزادیٔ اظہار کے نام پر قومی مفادات پر زد تو نہیں پڑ رہی۔بس پھر ستے ہی خیراں ہیں۔ کوئی آپ سے بحث نہیں کرے گا کہ یہ آزادیٔ اظہار ضروری ہے یا قومی مفاد۔ اور اگر کوئی بحث کرے تو پھر سند امریکہ سے ہی لے آئیں اور بتائیں کہ امریکہ جیسے ملک میں بھی قومی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا، آج تک انہوں نے جولین اسانج اور ایڈورڈ اسنوڈن کو معاف نہیں کیا۔

اور اب آخری بات۔ اگر کوئی ایسی مصیبت آن پڑے جس کا حل ’قومی مفاد‘ یا ’ملکی سلامتی ‘ جیسے بیانات سے بھی نہ نکل سکے تو پھر مذہب کا استعمال کریں، اِس حکمت عملی کا ڈسا ہوا پانی بھی نہیں مانگتا۔یہاں بھی میکاولی وغیرہ سے چُوک ہو گئی، دنیا جہان کے حربے انہوں نے اپنے مخالفین کو زیر کرنے کے لیے لکھے مگر مذہب کے استعمال کا ذکر کرنا بھول گئے (کم از کم مجھے تو یہی یاد پڑتا ہے )، چانکیہ نے اپنے دشمنوں کی جاسوسی کے لیے خوبصورت عورتوں کا گروہ بنانے کا طریقہ بتایا تھا، وہ تو آج بھی استعمال کیا جاتا ہے، مگر بعض اوقات اِن میں سے کوئی بھی طریقہ کارگر ثابت نہیں ہوتا، مذہب کارڈ ایسے ہی کسی موقع پر کام آتا ہے۔ یہاں بھی آپ کو مغرب سے سند فراہم کر دیتے ہیں۔ روسو، جسے پورا مغرب سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے، سوشل کنٹرکٹ جیسی شہرہ آفاق کتاب کا مصنف کہتا ہے کہ ریاست کا اپنا مذہب ہونا چاہئے۔ یہ بات اُس نے کس تناظر میں کہی وہ بھول جائیں، بس یہ فقرہ یاد رکھیں۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہوگا۔

تازہ ترین