سید جعفر شاہ کاظمی، گلگت بلتستان
گلگت بلتستان، پاکستان کے شمال میں قدرتی حُسن سے مالا مال ایک انتہائی دل کش، حسین و جمیل اور پُرکشش مقام ہے، جو بنیادی طور پر دو بڑے حصّوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصّہ ”بلتستان“ کہلاتا ہے، جب کہ دوسرا ”گلگت“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تقریباً72971مربع کلومیٹر رقبے پر محیط یہ پُرفضا خطّہ81 لاکھ نفوس اور تین ڈویژنز بلتستان، دیامیر اور گلگت پر مشتمل ہے۔ شمال مغرب میں افغانستان کی واخان کی پٹّی، اسے تاجکستان سے الگ کرتی ہے، جب کہ شمال مشرق میں چین کا مسلم اکثریتی صوبہ سنکیانگ، جنوب مشرق میں کشمیر اور مغرب میں صوبہ خیبر پختون خوا ہے۔
اس وسیع و عریض دیومالائی خطّے میں سات ہزار میٹر سے بلند 50 پہاڑی چوٹیوں کے علاوہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی K-2 بھی واقع ہے۔ نیز، دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش کے علاوہ دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشیئرز بھی اسی خطّے میں ہیں۔ یہیں سے تاریخی شاہِ راہ ریشم بھی گزرتی ہے۔ 2009ء میں اس علاقے کو نیم صوبائی حیثیت دے کر یہاں پہلی بار انتخابات کروائے گئے۔ گلگت بلتستان کل چودہ اضلاع پر مشتمل ہے، جن میں سے پانچ بلتستان، پانچ گلگت اور چار دیامر کے اضلاع شامل ہیں۔
شہر کی مصروفیت اور یک سانیت سے اکتائے ہوئے سیّاحوں کے لیے یہ علاقہ کسی جنّت سے کم نہیں، جہاں ہرسُو پرندوں کی مسحور کُن چہچہاہٹ، جابجا خوش ذائقہ پھلوں، خوش نُما پھولوں سے لدے پھندے درختوں کی قطاریں، صاف و شفّاف نیلے آسمان سے برستی رم جھم، بلند و بالا پہاڑوں سے گرتی آب شاریں اورست رنگی قوسِ قزح کے نظارے سیّاحوں کو ایسے مبہوت کردیتے ہیں کہ اِرد گرد کا ہوش ہی نہیں رہتا۔ قدرت نے یہاں کی ہر وادی اور ہر مقام کو انتہائی فیاضی سے بیش بہا حُسن و دل کشی کا مظہر بنایا ہے۔
امن و محبت کے داعی، اپنی تہذیب و روایات سے جُڑے یہاں کے باشندے انتہائی پُرخلوص، حد درجہ مہمان نوازہیں، وہ یہاں آنے والے سیّاحوں کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں اور ایک دل چسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس خطّے میں جرائم کی شرح صفر اور تعلیم کا گراف انتہائی بلند ہے۔ یعنی رہزنی، دنگا فساد، ڈاکازنی اور اغوا برائے تاوان جیسی لعنتوں کا نام و نشان تک نہیں۔
لوگوں کاجذبۂ ایثار بھی قابلِ داد ہے۔ مقامی اور غیر مُلکی سیّاح یہاں خود کو بالکل محفوظ سمجھتے ہیں۔ اسی لیے یہاں کے باشندوں کے خلوص، ایمان داری اور مہمان نوازی کا ذکر اکثر قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں بھی ہوتا رہتا ہے۔ حال ہی میں ایک برطانوی ٹریول ایجینسی نے گلگت بلتستان کو دنیا کے 20 سیّاحتی مقامات میں سب سے بہترین اور محفوظ قرار دیا ہے۔
یہاں کی قدیم تہذیب و روایات، آثار قدیمہ، جھیلوں، جھرنوں، فلک پوش پہاڑی سلسلوں، حیرت انگیز طلسماتی نظاروں اور جداگانہ لینڈ اسکیپ کو دیکھ کرقدرت کی فیّاضی کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان ہی میں تین عظیم پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش آپس میں ملتے ہیں۔ دنیا کے 8000 فٹ سے بلند 14عظیم پہاڑوں میں سے 5 گلگت بلتستان میں پائے جاتے ہیں۔ جن میں کے۔ ٹو، نانگا پربت، براڈ پیک، گشہ برومIاور گشہ بروم II شامل ہیں۔
جب کہ دنیا کے تین بڑے گلیشیئرز میں سے بھی دو یہیں پائے جاتے ہیں۔ خطّہ گلگت بلتستان قدرتی حُسن سے مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ ذائقے دار پھلوں کی پیداوار کے حوالے سے بھی اپنی ایک خاص پہچان رکھتا ہے۔ یہاں خوبانی، ناشپاتی، سیب، انگور، آلو بخارے اور چیری سمیت دیگر دوسرے پھلوں کے باغات بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اگر سرکاری سطح پر توجّہ دے کر یہاں کے کاشت کاروں کو خصوصی مراعات دی جائیں، توصرف خوبانی کی برآمد سے کثیر زرمبادلہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
قدرت نے گلگت بلتستان کو معدنی ذخائر، خصوصاً قیمتی پتھروں سے بھی خُوب نوازا ہے کہ یہاں کے علاقے روندو، طورمک اور ستک وغیرہ نایاب، قیمتی پتھروں کے حوالے سے خاصے معروف ہیں، جب کہ غذر کی خُوب صُورت ترین وادی پھنڈر کو زمین پر جنّت کے ایک ٹکڑے کی حیثیت حاصل ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر گلگت بلتستان آئے اور پھنڈر نہیں دیکھا، تو کچھ بھی نہیں دیکھا۔ یہاں کے دیگر معروف سیّاحتی مقامات میں فیری میڈوز، دیوسائی، راما، خنجراب، بابوسرٹاپ، عطا آباد جھیل، شنگریلا، خلتی جھیل، پھنڈر شندور، ہنزہ بلتت اور التت فورٹ، جب کہ اسکردو میں شگر فورٹ اور گانچھے فورٹ، خپلو میں ہزار سال قدیم مسجد چقچن کے علاوہ اسکردو میں واقع کولڈ ڈیزرٹ جیسے تفریحی مقامات سرِفہرست ہیں۔
یہاں ہرہر قدم پر دل کش مناظر، بل کھاتی کچّی پکّی سڑکیں، دریائوں کی غضب ناک شور مچاتی لہریں، بلندی سے گرتی آب شاریں، حدِ نظر پھیلا پہاڑی سلسلہ، دیوسائی کا میدان، غرض چپّا چپّا قدرت کا بہترین اظہار، بے مثل شاہ کار ہے۔ تب ہی موسمِ گرما شروع ہوتے ہی پاکستان کے مختلف شہروں اور دنیا کے مختلف ممالک سے سیّاح ان علاقوں کا رُخ کرنے لگتے ہیں۔
گلگت بلتستان کے ایڈونچر سے بھرپور بائی روڈ سفر کے لیے پیر ودھائی، راول پنڈی بس اڈّے سے بسز، کوچز، ویگنز یا کاریں مناسب کرائے پر مل جاتی ہیں، جب کہ اسلام آباد سے گلگت، اسکردو کے لیے روزانہ فلائٹس جاتی ہیں۔ بائی روڈ سفر میں دنیا کے آٹھویں عجوبے شاہِ راہِ قراقرم، جب کہ فضائی سفر میں کوہ ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کے عظیم پہاڑی سلسلے کے دل کش مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ خاص طور پر نانگا پربت، جس کے دو پَل کے نظارے کی خاطر لوگ ہفتوں ہوائی سفرکا ٹکٹ ملنے کا انتظار کرتے ہیں۔