چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ پنجاب اسمبلی کی صورتحال میں ہم مداخلت نہیں کرسکتے، پنجاب اسمبلی کا معاملہ چھوٹا نہیں کہ مختصر حکم نامے پاس کرنا شروع کردیں، پہلے قومی اسمبلی کے معاملے پر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، کل فیصلہ کریں گے پنجاب اسمبلی کا معاملہ سنیں یا لاہور ہائی کورٹ بھیجیں۔
مشترکہ اپوزیشن کی وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف جمع کروائی گئی تحریکِ عدم اعتماد کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی جانب سے بغیر ووٹنگ کے ہی مسترد کر دینے کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں از خود نوٹس کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ از خود نوٹس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
گزشتہ سماعت میں اپوزیشن جماعتوں اور بار کونسلز کے دلائل مکمل ہو گئے تھے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے وکیل بابر اعوان، صدرِ مملکت عارف علوی کے وکیل علی ظفر، وزیرِ اعظم عمران خان کے وکیل امتیاز رشید صدیقی، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے وکیل نعیم بخاری اور اٹارنی جنرل کے دلائل ابھی باقی ہیں۔
سماعت شروع ہوئی تو ن لیگ کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت سے استدعا کی کہ مجھے ایک منٹ کے لیے سنا جائے۔
اجازت ملنے پر اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو آج اجلاس ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی، پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کی ہدایات پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ انتہائی اہم نوعیت کا کیس زیرِ سماعت ہے، 3 اپریل کو قومی اسمبلی میں جو ہوا اس پر سماعت پہلے ختم کرنا چاہتے ہیں، عدالت کے بارے میں منفی کمنٹس کیے جا رہے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ عدالت معاملے میں تاخیر کر رہی ہے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی، پنجاب اسمبلی کا معاملہ آخر میں دیکھ لیں گے، آج کیس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کا معاملہ بھی اسلام آباد کے معاملے کی ایکسٹینشن ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں سب کو سن کر فیصلہ کرنا ہے، یک طرفہ کارروائی نہیں کر سکتے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے پوچھیں گے کہ کس قانون کے تحت اجلاس ملتوی کیا گیا۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے اقلیتی فیصلے کا حوالہ دیا اور کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں عدالت کے سامنے فریق ہیں، ایم کیو ایم، تحریکِ لبیک پاکستان، بلوچستان عوامی پارٹی، پی ٹی ایم اور جماعت اسلامی فریق نہیں، راہِ حق پارٹی کی بھی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہے لیکن وہ عدالت کے سامنے فریق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ از خود نوٹس کی ہمیشہ حمایت کی، شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے از خود نوٹس لیا اور قوم کے ساتھ مہربانی کی، کیس یہ ہے کہ اسپیکر کا اقدام غیر قانونی ہے، آرٹیکل 5 کے حوالے سے کسی کو غدار کہا گیا، عدالت سے کہا گیا ہے کہ آئین کے 2 آرٹیکلز کی تشریح کی جائے، سیاسی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ ان کو آرٹیکل 5 کے تحت غدار قرار دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ غدار ان کو نہیں، آرٹیکل 5 کے تحت کیے گئے ایکشن کو کہا گیا ہے، آئین ایسی دستاویز ہے جس کی شقوں کو ملا کر پڑھا جاتا ہے، آرٹیکل 95 کی اپنی تشریح ہے۔
بابر اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر کسی نے لفظ بھی نہیں کہا، ان کا دعویٰ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، صدر ن لیگ نے پریس کانفرنس کے ذریعے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا، مرکز، کے پی، پنجاب، آزاد کشمیر کی اکثریتی جماعت کو بغیر ریلیف چھوڑ دیا گیا، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی رولنگ پڑھے بغیر اپوزیشن لیڈر نے پریس کانفرنس کی، یہ چاہتے ہیں کہ عدالت فوری طور پر ان کے حق میں مختصر حکم جاری کر دے، چیئرمین پی ٹی آئی کی ہدایات پر عدالت کے سامنے چند نکات رکھنا چاہتا ہوں۔
سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس برطانوی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا وہ اس کیس میں لاگو نہیں ہوتا، کیا سندھ ہاؤس اور لاہور کے ہوٹل میں جو ہوا اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ ارکانِ اسمبلی کے کردار پر قرآن و سنت اور مفتی تقی عثمانی کا نوٹ بھی دوں گا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر نعیم بخاری دلائل دیں گے۔
پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ تمام شہریوں پر لازم ہے کہ وہ ریاست کے ساتھ مخلص ہوں، جو باہر سے پاکستان آتے ہیں انہیں بھی وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو پاکستانیوں کو ہیں، دیگر ممالک کے آئین میں ایسے حقوق نہیں دیے گئے، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بھی قرار دیا ہے کہ پاکستان سے وفاداری ہر شہری پر لازم ہے، آئین شکنی پر کسی بھی شہری کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ کیا اسپیکر کو اختیار ہے کہ وہ ہاؤس میں ایجنڈے سے ہٹ کر کسی فیکٹ پر جا سکے، آئینی طریقہ ہے جسے بالکل سائیڈ لائن کر دیا جائے، کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ آپ کو یہ بھی بتانا ہے، عدالتیں قانون کے مطابق چلتی ہیں، اس کیس میں ایک الزام لگایا گیا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے ایک اقدام کیا ہے، بنیادی چیز یعنی حقائق پر آئیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس پر سیاسی جماعتوں کو نوٹس ہوا تھا؟
بابر اعوان نے جواب دیا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹس کیا گیا، پارلیمانی لیڈرز نے اس میٹنگ کا بائیکاٹ کیا، میٹنگ منٹس نعیم بخاری پیش کریں گے، میٹنگ میں کہا گیا کہ ایک ملک نے پاکستان کے معاملے میں مداخلت کی، احتجاجی مراسلہ جاری کیا جائے، پھر احتجاجی مراسلہ دو جگہ جاری ہوا، پاکستان میں اور خفیہ کوڈ والے ملک میں بھی، سینئر اینکر کے ساتھ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج کا وہی مؤقف ہے جو کمیٹی نے کہا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس میں دو رائےنہیں کہ آئین کے تحت ہر شہری کی وطن سے وفاداری لازم ہے، کوئی بیرونی طاقتوں سے ملا ہوا ہے تو اس کے خلاف کیا ایکشن ہوا؟ تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے والوں پر الزام ہے کہ وہ بیرونی سازش کرنے والوں سے ملے ہوئے ہیں، اگر ایسا ہے تو تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے والوں کے خلاف کیا کیا؟
بابر اعوان نے جواب دیا کہ حکومت نے کسی کو غدار کہا، نہ ایکشن لیا، محتاط ہو کر اس معاملے پر دلائل دے رہا ہوں، پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے خلاف آرٹیکل 63 اے کے تحت الیکشن کمیشن کو معاملہ بھجوایا ہے، رات کو میں نے اپنے مؤکل سے ہدایات لیں، پاکستان کی خود مختاری پر کس کس نے حملہ کیا؟ کمیشن بنایا جائے، میمو گیٹ کمیشن کی کارروائی ابھی تک زیرِ التواء ہے، جو حقائق متنازع ہیں ان کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کمیشن بنانے کی بات کر رہے ہیں، کیا آ پ کے مؤکل کو نہیں پتہ کہ کون کون شامل ہے اور اتنا بڑا اقدام کر دیا؟
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ صرف مفروضوں پر بات کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے بابر اعوان سے کہا کہ آپ کو ہمیں پارلیمانی جمہوریت کا بتانا تھا، ہمیں اس معاملے کو ختم کرنا ہے، ہم جلد سماعت مکمل کرنا چاہتے ہیں، آپ اِدھر اُدھر کی باتیں نہ کریں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ان سے سوال کیا کہ ہمیں یہ بتا دیں آرٹیکل 69 اور 95 پر آپ کا کیا مؤقف ہے، آپ یہ بتا دیں کہ ڈپٹی اسپیکر کے کیا اختیارات ہیں؟
بابر اعوان نے کہا کہ میمو گیٹ آج تک زیرِ التوا ہے، ایک شخص آج تک بھاگا ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں سب معلوم ہے، آپ اپنے کیس پر دلائل دیں، آپ کے کلائنٹ وزیرِاعظم کمیشن بنانا چاہتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مطلب انہیں معلوم نہیں کہ کون ملوث ہے؟
بابر اعوان نے کہا کہ وزیرِ اعظم کو جو کچھ علم ہے وہ ملکی مفاد میں بولنا نہیں چاہتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آسٹریلیا، برطانیہ اور بھارت کے آئین کی تشریح میں نہیں جانا چاہتے، ہمارا اپنا آئین ہے، اس کی شقیں الگ ہیں، ان کی تشریح کے لیے بیٹھے ہیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ وزیرِ اعظم کو جو علم ہے وہ ملکی مفاد میں بولنا نہیں چاہتے، وزیرِ اعظم تفتیش کار نہیں اس لیے یہ کام متعلقہ لوگوں کو کرنے دیا جائے، حقائق متنازع ہوں تو اس کی تحقیقات ضروری ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں متعلقہ حقائق بتائیں، باقی آپ کے تحریری دلائل پڑھ لیں گے۔
بابر اعوان نے کہا کہ قومی مفاد سب سے بے چارہ لفظ ہے جو پاکستان میں بہت استعمال ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ قومی مفاد کا لفظ اسپیکر کے حلف میں کہاں استعمال ہوا ہے؟
بابر اعوان نے جواب دیا کہ ملکی سلامتی اور دفاع سے وفاداری کا حلف میں ذکر ہے جو قومی مفاد ہی کہلاتا ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان کے دلائل پر جسٹس اعجازالاحسن نے سر تھام لیا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ قرار داد کو ووٹنگ کے علاوہ بھی نمٹایا جا سکتا ہے؟
چیف جسٹس پاکستان نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ پہلا نکتہ ہے جو آپ نے دلیل میں اٹھایا ہے، آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ رولز خود کہتے ہیں کہ ووٹنگ کے علاوہ بھی تحریک مسترد ہو سکتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اسپیکر تب تحریک مسترد کر سکتا ہے جب اس نے لیو گرانٹ نہ کی ہو، ایک بار تحریکِ عدم اعتماد ایوان میں پیش ہو جائے تو اسے مسترد صرف ووٹنگ سے کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اسپیکر کی پاور اور ریگولیٹری اختیارات الگ الگ ہیں، رول 28 میں ڈپٹی اسپیکر شامل ہیں یا نہیں؟
بابر اعوان نے جواب دیا کہ ڈپٹی اسپیکر رول 28 میں شامل ہیں، نہیں میں جلدی میں ہاں کہہ گیا ہوں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ جواب میں ناں بھی کہہ سکتے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جواب ہاں یا ناں میں دیں، ڈپٹی اسپیکر رول 28 میں آتے ہیں یا نہیں۔
رول 28 کے سوال پر پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے نو کمنٹس کہہ دیا۔
جسٹس منیب اختر نے ان سے استفسار کیا کہ اسپیکر کےخلاف تحریکِ عدم اعتماد زیرِ التواء ہو تو وہ سیشن پریزائڈ کر سکتا ہے؟
بابر اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 94 کے تحت صدر وزیرِ اعظم کو نئی تعیناتی تک کام جاری رکھنے کا کہہ سکتے ہیں، کہاں لکھا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد واپس نہیں لی جا سکتی؟ یہ کہاں لکھا ہے کہ اسپیکر تحریکِ عدم اعتماد پر رولنگ نہیں دے سکتا؟ اگر کہیں لکھا نہیں ہوا تو اسے عدالت پڑھ بھی نہیں سکتی۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے آرٹیکل 63 اے پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اب چھانگا مانگا نہیں رہا، اب سندھ ہاؤس اور ہوٹل کی اپ ڈیٹ آ گئی ہے، جس ادارے کے اندر ہارس ٹریڈنگ ہو رہی ہے وہ ملک کو قانون اور ضابطے دیتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ان سے سوال کیا کہ سیاست میں اصلاح کیا ہوتی ہے؟ آرٹیکل 63 اے میں ڈی سیٹ ہونا نتیجہ ہے، آپ کہتے ہیں کہ سنگین سزا ہونی چاہیے، اگر آپ کے ممبران منحرف ہو رہے ہیں تو سپریم کورٹ تو فیصلہ نہیں دے سکتی، سپریم کورٹ کو منحرف اراکین پر الیکشن کمیشن کی ڈکلیئریشن پر فیصلہ دینا ہے۔
بابراعوان نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو آئین دینے کے بعد سولی پر لٹکے تھے، وہ بھی ریفرنس زیرِ التواء ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ سیاست میں صورتحال کا ازالہ کیا ہوتا ہے؟
بابر اعوان نے جواب دیا کہ سیاست میں صورتحال کا ازالہ عوام کے پاس جانا ہوتا ہے۔
جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ سیاسی جماعتوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ لوگ انہیں کیوں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟
بابر اعوان نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے بھی کہا ہے کہ وہ الیکشن کے لیے تیار ہیں، الیکشن کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا، بھارت اور بنگلا دیش نے ای وی ایم کا راستہ نکالا مگر ہم نہیں مانتے، اگر یہاں سے راستہ بننا ہے تو سعادت سمجھتا ہوں کہ اس تاریخ کا حصہ بنوں، ڈیڈ لاک روکنے کے لیے آپ نے از خود نوٹس لیا تھا اور کہا تھا کہ کوئی ماورائے آئین کام نہیں ہو گا، کوئی ریاستی ادارہ نہ آ جائے اس لیے از خود نوٹس لیا گیا، پارلیمنٹری کمیٹی کے لیے ہم نے اسد عمر، شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری اور پرویز خٹک کے نام دے دیے، ہم نے قائم مقام وزیرِاعظم کے لیے نام دے دیا ہے، اپوزیشن تاخیر کر رہی ہے، ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا، ڈیڈ لاک ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اسی لیے کہہ رہے ہیں کہ کیس جلد مکمل کریں تاکہ تاخیر نہ ہو، عدالت عوام کے لیے فیصلہ کرے گی اور سب اس پر عمل درآمد کے پابند ہوں گے۔
اللّٰہ اس ملک پر راضی رہے، راستہ انتخابات ہے، بابر اعوان نے یہ کہتے ہوئے دلائل مکمل کر لیے۔
بابر اعوان نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ اِدھر ہونا چاہیے یا اُدھر، درمیان میں نہیں ہونا چاہیے، اگر اِدھر ہوا تو وہ کھڑے ہوں گے، اُدھر آیا تو ہم کھڑے ہوں گے، آپ کو پتہ ہے کہ اس طرح اسٹاک مارکیٹ کریش کرتی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ڈیڈ لاک ہو جاتا ہے؟
بابر اعوان نے جواب دیا کہ عدالت نے اسی ڈیڈ لاک کو روکنے کے لیے از خود نوٹس لیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے، فیصلہ ایسا ہو گا جو ملک کے مفاد میں ہو گا، عدالت کے فیصلے کے سب پابند ہوں گے، سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہو گا کہ ان کے ارکان انہیں کیوں چھوڑ جاتے ہیں، اس کا حل سیاسی جماعتوں ہی کے پاس ہے کہ وہ انہیں ادارہ بنائیں، ایسا کیوں ہے کہ وہی چہرے کبھی کہیں تو کبھی کہیں نظر آتے ہیں۔
صدر عارف علوی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ پر سپریم کورٹ کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی، عدلیہ پارلیمنٹ میں مداخلت نہیں کر سکتی، کی تو اس سے تصادم ہو گا، تصادم ہوا تو نقصان پاکستان کے عوام کا ہو گا، پارلیمنٹ سب جوڈس رول کے تحت عدلیہ کے اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتی، ہمارے ہاں پارلیمانی جمہوریت ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مخدوم علی خان نے کہا ہے کہ عدالت آئینی خلاف ورزی پر پرکھ سکتی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میری رائے میں ایسے عمل پر بھی عدالت نہیں دیکھ سکتی، جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اداروں کے درمیان توازن ہونا چاہیے، توازن تبھی ہو گا جب ادارے ایک دوسرے کا احترام کریں گے، اس کیس میں اسپیکر کو بھی پارٹی بنایا گیا ہے، عدالت کی طرف سے کوئی بھی ڈائریکشن دائرہ اختیار سے تجاوز ہو گا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف عدالت سے رجوع پارلیمنٹ کے کام میں مداخلت ہے، اسپیکر کو دی گئی ہدایات دراصل پارلیمنٹ کو ہدایات دینا ہو گا جو غیر آئینی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ آئین کی خلاف ورزی کرے کیا تب بھی مداخلت نہیں ہو سکتی؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کیا غیر آئینی ہے اور کیا نہیں اس پر بعد میں دلائل دوں گا، آرٹیکل 184 تھری کے تحت دائر درخواستیں کیسے سنی جا سکتی ہیں؟ آرٹیکل 66 سے 68 پارلیمنٹ کی کارروائی کو تحفظ دیتا ہے، بد قسمتی سے درخواست گزاروں نے رولنگ چیلنج کی ہے، درخواستیں منظور کی جاتی ہیں تو اس سے پارلیمنٹ میں ووٹنگ کرائی جائے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مخدوم علی خان نے کل دلائل میں کہا تھا کہ یہ غیر آئینی اقدام تھا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہمارا آئین جمہوریت کی بنیاد پر بنا ہے، آرٹیکل 69 عدالت اور پارلیمان کے درمیان حد مقرر کرتا ہے، صدر کے اقدام کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جا سکتا، اس تمام صورتِ حال کا حل نئے الیکشن ہی ہیں، ایوان اسپیکر سے مطمئن نہ ہو تو عدم اعتماد کر سکتا ہے، اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لیا تو اسپیکر کا ہر فیصلہ عدالت میں آئے گا، رولنگ کو ریورس نہیں کیا جا سکتا۔
صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ پارلیمنٹ کے دو بنیادی استحقاق ہیں، آزادیٔ اظہار اور پارلیمنٹ اپنے بزنس کا خود ہی ماسٹر اور جج ہے، پارلیمنٹ کی ساری کارروائی اور پارلیمنٹ کے فیصلے عدالت نہیں دیکھ سکتی، پارلیمنٹ جب کوئی قانون بنا دیتی ہے تو وہ عوام کے پاس ہوتا ہے، اس قانون کو عدالت آئین کی کسوٹی پر پرکھ سکتی ہے، پارلیمنٹ میں یہ کہنا کہ 10 لوگوں کو نکال رہے ہیں یہ ووٹ نہیں دے سکتے، عدالت اس کارروائی کو نہیں دیکھ سکتی۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے سوال کیا کہ اسپیکر کی رولنگ سے اسمبلی توڑنے کی رکاوٹ دور ہوئی، آپ کہتے ہیں کہ اسپیکر نے غلط کیا تو اسے پارلیمانی انداز میں ہٹائیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اسپیکر کی رولنگ کسی صورت واپس نہیں ہو سکتی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے صدر کو اسمبلی توڑنے کی جو سمری بھجوائی آپ کہتے ہیں کہ اسپیکر رولنگ سے وہ درست اقدام ہوا؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت کو اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا وزیرِ اعظم کی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس کا جائزہ لے سکتے ہیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس رولنگ کےنتیجے میں ہے تو جائزہ نہیں لیا جا سکتا، اسپیکر ایوان کا ماتحت ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اسپیکر رولنگ دے دے تو کیا ایوان واپس کر سکتا ہے؟ اگر اسپیکر ایوان کی بات ماننے سے انکار کر دے تو پھر کیا ہو گا؟
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ہاؤس اسپیکر کو اوور رول کر سکتا ہے، فیصلہ دیا گیا تو پارلیمنٹ میں چھینک بھی سپریم کورٹ میں چیلنج ہونے لگے گی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا اسپیکر کا اقدام تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد کی میعاد ہٹانے کے لیے تھا؟
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ وزیرِ اعظم کو ہٹا دیا جائے تب بھی عدالت مداخلت نہیں کر سکتی؟
علی ظفر نے جواب دیا کہ عدالت پارلیمنٹ کے کسی بھی معاملے کو نہیں دیکھ سکتی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کئی دن سے آرٹیکل 5 کا تذکرہ سن رہے ہیں، آرٹیکل 5 کی شق 2 میں واضح ہے کہ ہر شہری آئین پر عمل درآمد کا پابند ہے، کیا اسپیکر اس ملک کا شہری نہیں؟ اسپیکر نے آئین کے آرٹیکل 95 پر عمل نہ کر کے آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی نہیں کی؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ روزانہ آئین کی خلاف ورزیوں کے واقعات ہوتے ہیں جس پر عدالت میں رٹ دائر ہوتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ برطانیہ میں ایک حد کے اندر پارلیمانی معاملات عدالتوں میں طے ہوتے ہیں، کیا آئینِ پاکستان کے تحت عدالت کو اختیار نہیں کہ پارلیمانی معاملات میں مداخلت کرے؟
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ موجودہ کیس میں آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی کی گئی ہے، یہ واضح ہے کہ عدالت پارلیمنٹ کی کارروائی میں تب مداخلت کر سکتی ہے جب آئین کی خلاف ورزی ہو، پارلیمنٹ کی کارروائی کو تحفظ حاصل ہے اور ہم اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت کو آئین کے آرٹیکل 69 کو دیکھنا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آئین کی خلاف ورزی ہو تو عدالت معاملہ دیکھ سکتی ہے؟ اس کیس میں آئین کے آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی کی بات کی جا رہی ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ یہ تو دوسری طرف کے دلائل اور مؤقف ہیں کہ آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ درخواست گزار کہتے ہیں کہ آئین کی خلاف ورزی پر پارلیمانی کارروائی کا جائزہ لیا جا سکتا ہے، عدالت اختیارات کی آئینی تقسیم کا مکمل احترام کرتی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ مقدمہ درحقیقت پارلیمان کے استحقاق میں مداخلت ہے، سپریم کورٹ پارلیمان کا بنایا قانون پرکھ سکتی ہے لیکن مداخلت نہیں کر سکتی، درخواست گزاروں کے مطابق آرٹیکل 95 پر عمل نہیں کیا گیا، چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ووٹوں کی غلط گنتی کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج ہوا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے فیصلہ دیا کہ یہ پارلیمنٹ کے اندر کا معاملہ ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ استحقاق کےساتھ پارلیمنٹ کی آئینی ذمے داریاں بھی ہیں، درخواست گزار کہتے ہیں کہ آئینی خلاف ورزی پر عدالت اختیارِ سماعت رکھتی ہے، عدالت تقسیمِ اختیارات کے اصول کا احترام کرتی ہے، جب کچھ چیزیں ان حدود سے باہر نکل جائیں تو عدالت دیکھ سکتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بیرسٹر علی ظفر! آپ کہہ رہے ہیں کہ آئینی خلاف ورزی پر بھی عدالت نہیں دیکھ سکتی؟
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ تحریکِ عدم اعتماد ایوان کی کارروائی تھی، ایوان کے ارکان کو ہی ووٹ ڈالنا تھا، اس دوران سارا عمل قواعد و ضوابط کے تحت ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ وزیرِ اعظم کو ایوان میں اکثریت نہ ہو تو علی ظفر صاحب آئین کیا کہتا ہے؟ اسپیکر کا کردار پریزائیڈنگ افسر کا تھا، انہیں ووٹنگ کرا کے گنتی کرنی تھی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ پوری پارلیمنٹ وزیرِ اعظم کے خلاف اور اسپیکر وزیرِ اعظم کے خلاف ہو تو کیا ہو گا؟
’’آئین میں کچھ سوالوں کے جواب نہیں، اسے خلاء کہہ سکتے ہیں‘‘
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین میں کچھ سوالوں کے جوابات نہیں، اسے آئین میں خلاء کہہ سکتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ اسپیکر کی رولنگ کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ اسپیکر کی رولنگ کو ہاؤس ختم کر سکتا ہے، عدالت پارلیمان کے فیصلے کا جائزہ نہیں لے سکتی، عدالت پارلیمان کے باہر ہونے والے اثرات کا جائزہ لے سکتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اسپیکر کی رولنگ چیلنج نہیں ہو سکتی؟
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ میں سوچ رہا ہوں کہ اسپیکر کی بدنیتی کہاں تھی؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں سیاسی معاملے میں نہیں جاؤں گا، عدالت ڈپٹی اسپیکر کی بدنیتی کی بات کر رہی ہے، میں صدرِ مملکت کا وکیل ہوں، ڈپٹی اسپیکر کی بات نہیں کروں گا۔
’’علی ظفر صاحب! آپ کے دلائل میں دلچسپ نکتہ ہے‘‘
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ علی ظفر صاحب! آپ کے دلائل میں دلچسپ نکتہ ہے، آپ کہتے ہیں کہ اسپیکر رولنگ میں نقص بھی ہے تو بھی اسے پارلیمانی تحفظ ہے، رولنگ کے بعد فوری عمل یہ ہوا کہ اسمبلی تحلیل ہوئی، آپ کہتے ہیں کہ یہ بھی جمہوری عمل ہے، اگر کوئی بدنیتی تھی تو وہ یہ کہ پارٹی کو بچاؤں، اپوزیشن سوچ رہی تھی کہ وہ جیت جائے گی، اپوزیشن کو اگر غصہ بھی ہے تو کیا عوام کے پاس جانے سے گھبرا رہی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ رولنگ میں کہا گیا کہ غیر ملکی طاقت سے مل کر حکومت گرانا چاہتے تھے، اسے بنیاد بنا کر ساری اسمبلی ہی توڑ دی گئی اور ان کا کام آسان کر دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک قرار داد جو کامیاب ہو سکتی تھی آخری لمحات میں ختم کر دی گئی، اگر یہ اجازت دے دی گئی تو پھر کیا ہو گا، کیا پھر ہٹلر کے نازی جرمنی جیسا ہو گا جس کی کل صلاح الدین نے مثال دی؟ مثال دی گئی کہ ہٹلر نے اپنے مخالفین کو غدار قرار دے کر قانون منظور کرائے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت وقفہ کرنا چاہے تو ٹھیک ہے، دلائل مکمل کرنے میں آدھا گھنٹہ مزید لوں گا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ہم جتنی دیر سن سکتے ہیں سنیں گے۔
وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ کل صبح دلائل کا آغاز کرنا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل کے دلائل کا انتظار کر رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ میں کل دلائل دوں گا، قانونی نکات پر دلائل دوں گا، کیس سے غیر متعلقہ کوئی بات نہیں کروں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک پر ووٹنگ ہونا تھی لیکن اسی اثناء میں وہ ہوا جس کی مثال نہیں ملتی، صلاح الدین نے ہمیں کل غلط مثال دی کیونکہ ہٹلر کی جماعت تو اقتدار میں رہی تھی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اب تک جو بھی دلائل ہوئے ان میں سے کچھ نہیں دہراؤں گا، اگر میرے دلائل کی ضرورت نہ رہی تو نہیں دوں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر کے دلائل کے بعد امتیاز صدیقی کو سنیں گے، کیا تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹ کنڈکٹ آف بزنس میں آتے ہیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹ کنڈکٹ آف بزنس میں آتے ہیں اس لیے انہیں تحفظ حاصل ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بظاہر تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے جا رہی تھی مگر رولنگ آ گئی، جس دن ووٹنگ ہونا تھی اس دن رولنگ آ گئی، ہماری کوشش ہے کہ معاملے کو جلد مکمل کیا جائے۔
بیرسٹر علی ظفر نے سماعت کے دوران دلچسپ غیر ملکی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک ملک میں اسپیکر نے رکنِ پارلیمنٹ کو سارجنٹ کے ذریعے ایوان سے باہر نکال دیا، اسپیکر نے اس رکن کو سارجنٹ کی حراست میں رکھا، عدالت نے حبسِ بے جا کی درخواست پر اس رکن کو چھوڑنے کا حکم دیا، بعد میں پارلیمنٹ نے ان 3 ججز کو طلب کیا اور 2 ججز کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔
واقعہ سن کر چیف جسٹس سمیت تمام ججز مسکرا دیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس وقت آئین کا آرٹیکل 175 نہیں تھا، اب ججز کو تحفظ حاصل ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اسپیکر کوئی تقرری کرتا ہے تو اسے عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں جن میں پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت کا بتایا گیا ہے، جہاں پارلیمان کو استثنیٰ نہیں وہ معاملات عدالت دیکھ سکتی ہے، اس کیس میں بھی عدالت کو دیکھنا ہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت ہو سکتی ہے یا نہیں، سولہویں صدی میں ججز کو پارلیمانی کارروائی میں دخل اندازی پر گرفتار کیا گیا، پارلیمان کو اپنے مسائل خود حل کرنے دینے چاہئیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ جو مسائل پارلیمان خود حل نہ کر سکے تو کیا ہو گا؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت کو مداخلت کے بجائے معاملہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے، این آر او کیس میں وزیرِ اعظم کو سوئس حکام کو خط لکھنے کا حکم دیا گیا، خط نہ لکھنے پر اسپیکر کے پاس ریفرنس آیا جو انہوں نے خارج کر دیا، عدالت نے قرار دیا کہ اسپیکر کا کام فیصلے پر عمل کرنا تھا، اسپیکر کا جو کام پارلیمانی کارروائی نہیں صرف اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے، میں 5 سے 10 منٹ میں دلائل مکمل کر لوں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وقت گزر رہا ہے، کل اس کیس کو صبح ساڑھے 9 بجے سنیں گے۔
ن لیگ کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی کے دروازے نہیں کھولے جا رہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے اس کیس میں کوئی حکم نہیں دیا، آرٹیکل 63 اے کا معاملہ بھی ابھی نہیں دیکھ رہے۔
’’پنجاب اسمبلی کی صورتِحال میں مداخلت نہیں کر سکتے‘‘
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کی صورتِ حال میں ہم مداخلت نہیں کر سکتے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ دل دکھ رہا ہے کہ صوبہ پنجاب 6 دن سے بغیر وزیرِاعلیٰ کے چل رہا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کا آرڈر سامنے ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پنجاب میں سب سے بڑا فورم لاہور ہائی کورٹ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کا معاملہ چھوٹا نہیں کہ مختصر حکم نامے پاس کرنا شروع کر دیں، پہلے قومی اسمبلی کے معاملے پر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، قومی اسمبلی ممبران نے ہر طرح کے حالات کے باوجود انتہائی مؤدبانہ رویہ رکھا، کل فیصلہ کریں گے کہ پنجاب اسمبلی کا معاملہ سنیں یا لاہور ہائی کورٹ بھیجیں، قومی اسمبلی کے ممبران کے اچھے رویے کے معترف ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری کے وکیل نے کہا کہ اسمبلی میں کافی توڑ پھوڑ ہوئی تھی اس لیے اجلاس 16 اپریل تک ملتوی ہوا، آج صبح سے ڈپٹی اسپیکر غائب ہیں، ان سے رابطہ نہیں ہو رہا، آج شام ہونے والے اجلاس کا نوٹیفکیشن جعلی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سسٹم تعاون نہ کر رہا ہو تو آئینی عہدے دار اختیار استعمال کر سکتے ہیں، ڈپٹی اسپیکر چاہیں تو اجلاس باغِ جناح میں بھی بلا سکتے ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حکومت کے پاس اکثریت نہیں ہے اس لیے الیکشن نہیں ہونے دیا جا رہا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کے حکم میں مداخلت کر سکتے ہیں؟
پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری کے وکیل نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کا نوٹیفکیشن جعلی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا گیا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ جلد بازی میں پنجاب اسمبلی سے متعلق کوئی حکم نہیں دے سکتے، پنجاب میں آئیڈیل حالات ہیں کہ عوام سے رجوع کیا جائے۔
گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اگر آئین کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو رولنگ کالعدم کی جاسکتی ہے، عدالت کا فوکس صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر ہے، عدالت کی ترجیح ہے کہ صرف اس نقطے پر ہی فیصلہ ہو، عدالت ریاستی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، عدالت نے صرف اقدامات کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے، عدالت پالیسی معاملات کی تحقیقات میں نہیں پڑنا چاہتی، تمام فریقین کو کہیں گے کہ اس نقطے پر ہی فوکس کریں۔
دورانِ سماعت جسٹس منیب اختر نے شہباز شریف کے وکیل کو کہا کہ آپ عدالت کے دروازے پارلیمنٹ کی کارروائی کے لیے کھول رہے ہیں، اگر ایوان کی کارروائی میں قانون کی چھوٹی موٹی خلاف ورزی کے معاملے پر عدالت مداخلت کرے تو ہائی کورٹس میں مقدمات کے انبار لگ جائیں گے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا جوڈیشل ریویو سے رولنگ واپس ہو سکتی ہے؟
عدالت نے خط پر خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں سے اِن کیمرہ بریفنگ لینے، مراسلے کی انکوائری اور امریکا میں پاکستانی سفیر کو طلب کرنے کی استدعا مسترد کر دی اور 31 مارچ کی قومی اسمبلی کی کارروائی کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے ازخود نوٹس کی سماعت (آج) بدھ تک ملتوی کر دی۔