اسلام آباد (نمائندہ جنگ، ٹی وی رپورٹ) عدالت عظمیٰ میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی جانب سے مشترکہ اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کیخلاف جمع کروائی گئی تحریک عدم اعتماد کو بغیر ووٹنگ کے ہی مستردکردینے کے حوالے سے از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اگر آئین کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو رولنگ کالعدم کی جاسکتی ہے، عدالت کا فوکس صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر ہے، عدالت کی ترجیح ہے کہ صرف اس نقطے پر ہی فیصلہ ہو، عدالت ریاستی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، عدالت نے صرف اقدامات کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے، عدالت پالیسی معاملات کی تحقیقات میں نہیں پڑنا چاہتی، تمام فریقین کو کہیں گے کہ اس نقطے پر ہی فوکس کریں۔
دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے شہباز شریف کے وکیل کو کہا کہ کہا کہ آپ عدالت کے دروازے پارلیمنٹ کی کارروائی کیلئے کھول رہے ہیں، اگر ایوان کی کارروائی میں قانون کی چھوٹی موٹی خلاف ورزی کے معاملے پر عدالت مداخلت کرے تو ہائی کورٹس میں مقدمات کے انبار لگ جائینگے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا جوڈیشل ریویو سے رولنگ واپس ہو سکتی ہے؟
عدالت نے خط پر خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں سے ان کیمرہ بریفنگ لینے، مراسلے کی انکوائری اور امریکا میں پاکستانی سفیر کو طلب کرنے کی استدعا مسترد کردی اور 31مارچ کی قومی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے ازخود نوٹس کی سماعت (آج) بدھ تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے منگل کے روز از خود نوٹس کیس کی ۔سماعت کے آغاز میں خاتون درخواست گزار نے عدالت میں درخواست دی کہ سابق امریکی سفیر اسد مجید کو بلایا جائے تو سب سامنے آجائیگا، اسد مجید کے خط کی وجہ سے سارا مسئلہ شروع ہوا۔
خاتون کی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہم انفرادی درخواستیں نہیں سن رہے۔دورانِ سماعت رضا ربانی نے کہا کہ چاہتے ہیں آج دلائل مکمل ہوں اور عدالت مختصر حکم نامہ جاری کردے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکم جاری کرینگے اگر سارے فریقین دلائل مکمل کرلیں۔ رضا ربانی نے کہا کہ میں عدالت کو تحریری دلائل دےرہا ہوں،15 منٹ میں دلائل مکمل کرلوں گا۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے 31 مارچ کے اجلاس کے منٹس منگوا لیے۔جسٹس عمر عطا نے کہا کہ اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری اجلاس کے منٹس پیش کریں۔
جسٹس منیب اختر ریمارکس دیئےکہ تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے طریقہ کار پر آئین خاموش ہے، کیا ایک بار 20فیصد اراکین کی حمایت سے تحریک پیش ہونے کےبعد اسپیکر کا اختیار نہیں رہتا؟ کیا اسپیکر تحریک پیش ہونے پر صرف ووٹنگ کراسکتا ہے؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت کے بعد بحث کا مرحلہ آتا ہے،تحریک عدم اعتماد کے آئینی یا غیرآئینی ہونے پر بحث ہوئی ؟ ہمارے سامنے سوال ہے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی کیا آئینی حیثیت ہے؟ آئین کے احکامات رولز سے بالادست ہوتے ہیں۔
تحریک عدم اعتمام پیش ہونے کے وقت 20 فیصد اراکین اسمبلی موجود تھے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے وقت 20 فیصدممبران کی موجودگی کا مقصد کیا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اصل سوال ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ قانونی یاغیرقانونی ہونےکا ہے، کیا جوڈیشل ریویو سے رولنگ واپس ہوسکتی ہے۔
ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان نےکہا کہ سپریم کورٹ کا اختیار ہے رولنگ واپس کر دے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا تحریک عدم اعتماد کے غیرقانونی عوامل کو عدالت جانچ سکتی ہے، اس پر مخدوم علی خان نےکہا کہ عدالت تحریک عدم اعتماد پر غیر قانونی عوامل کو جانچ سکتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئےکہ پارلیمنٹ میں چھوٹی سی غیرقانونی حرکت پر عدالت کو مداخلت کا اختیار ہوگا، آپ عدالت کے دروازے پارلیمنٹ کی کاروائی کیلئے کھول رہے ہیں، کیاآئین یہ کہتاہے کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کی ہر غیر قانونی حرکت پر فیصلہ دے سکتی ہے؟ سپریم کورٹ پارلیمانی کارووائی یارولنگ غیر قانونی قرار دینا شروع کر دے تو مقدموں کے انبار لگ جائینگے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت پریمیئرانٹیلیجنس ایجنسی چیف کو اِن کیمرا سماعت میں بلا کر بریفنگ لے سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری پریکٹس نہیں کہ ریاستی پالیسی یا فارن پالیسی کے معاملات میں مداخلت کریں، عدالت کی پالیسی معاملات کو دیکھنے کی پریکٹس نہیں، ہمارےلیے آسان ہوگا کہ اگر معاملےکو قانون و آئین کے تناظر میں پرکھا جائے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نےکہا کہ بطور اٹارنی جنرل یہ میرا آخری کیس ہوگا، میری درخواست یہ ہوگی ایک سائیڈ کو آج سنا گیا،کل دیگر وکلا کو سن لیں،مجھے پرسوں دلائل کا موقع دیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تمام تحاریک کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں، پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتے، پارلیمان کیلئے بے حد احترام ہے، ماضی میں عدالت غیر آئینی اقدامات پر پارلیمانی کارروائی میں مداخلت کرتی رہی ہے، آج سماعت مکمل نہیں ہوسکتی۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی، کل فریقین کے وکلا بابراعوان، بیرسٹرعلی ظفر اور نعیم بخاری دلائل دینگے۔
گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ بحث کرائے بغیر ووٹنگ پر کیسے چلے گئے، عدالت ہوا میں فیصلہ نہیں کریگی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتی سولات کے جوابات دینا ہونگے، ہم بھی جلد فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔
دوران سماعت عدالت نے پنجاب سے متعلق استفسار کیا کہ ایڈوکیٹ جنرل بتائیں کہ بدھ کے روز وزیر اعلیٰ کے انتخاب کیلئے ووٹنگ ہوگی یا نہیں؟ عدالت نے آرڈر لکھواتے ہوئے قرار دیا کہ ایڈوکیٹ جنرل نے یقین دہانی کروائی ہے کہ آج بروز بدھ پنجاب اسمبلی اجلاس قانون کے مطابق منعقد ہوگا.
عدالت عظمیٰ نے اس موقع پر قرار دیا کہ عدالت نے ابھی تک پنجاب پر کوئی باضابطہ حکم جاری نہیں کیا تھا،وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن آئین کے مطابق ہونا ضروری ہے.
چیف جسٹس نے ریما رکس دیئے کہ پنجاب میں صورتحال اسلام آبادکی صورتحال کا ہی تسلسل ہے،پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے بعد آج اس معاملے کو دیکھ لیں گے۔
جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب ہونے دیا جائے سب کچھ ٹھیک ہوجائیگا۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ 3اپریل کو اسمبلی میں شدید جھگڑا ہوا جس پر اجلاس ملتوی ہوا،
پنجاب میں بھی جمہوریت کا مذاق بنایا جا رہا ہے،حکومتی اراکین کو ہوٹلوں میں قید رکھا گیا ہے، اسپیکر پنجاب اسمبلی آئین کی مکمل پاسداری کرینگے،نئے وزیراعلی کے انتخاب تک عثمان بزدار کام جاری رکھے ہوئے ہیں، پنجاب اسمبلی اور ہوٹلز میں جو ہو رہا ہے اسکی عدالت انکوائری کرائے۔
عدالت عظمیٰ نے اس موقع پر قرار دیا کہ عدالت نے ابھی تک پنجاب پر کوئی باضابطہ حکم جاری نہیں کیا تھا،وزیراعلی کا الیکشن آئین کے مطابق ہونا ضروری ہے.
اسمبلی کی کارروائی جس ایجنڈے کیلئے طلب ہوئی وہ ہونی چاہیے، عدالت نے اس موقع پر 31 مارچ کا ڈپٹی اسپیکر کا آرڈر طلب کرتے ہو ئے معاملہ کی سماعت آج بروز بدھ ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔