• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھیڑیں اور بھیڑیے، ہر دو الفاظ میں اگرچہ ’’بھیڑ‘‘ مشترک ہے۔ بچپن میں ابتدائی جماعتوں کے نصاب میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک ندی میں بھیڑ یا پانی پی رہا تھا کہ بھیڑ کا ایکبچہ بھی ندی کی اُس سمت سے جس سمت کو پانی بہہ رہا تھا، بھیڑیے سے کچھ دور نیچے سے پانی پینے لگا۔ بھیڑیے سے برداشت نہ ہوا اور غصے میں آکر کہنے لگا کہ تمہیں نظر نہیں آتا، میں پانی پی رہا ہوں اور تم پانی گندہ کر رہے ہو؟ بھیڑ کے بچے نے عاجزی اور انکساری کے ساتھ عرض کیا کہ حضور والا میں تو ادھر سے پانی پی رہا ہوں جدھر سے عزت مآب کی طرف پانی جا نہیں رہا بلکہ اُدھر سے نیچے آ رہا ہے۔ جواب سن کر بھیڑیا بپھر گیا اور بولا کہ ایک تو تم پانی گندہ کر رہے ہو اور دوسرا مجھے جھوٹا بھی کہہ رہے ہو۔ قصہ مختصر، بھیڑ کا بچہ پانی بھیڑیے سے اُوپر کی جانب سے پیے یا نیچے کی طرف سے، قصور بھیڑ کے بچے کا ہی ہوگا کیونکہ وہ ایک ناتواں مخلوق اور بھیڑیا خونخوار درندہ۔اب بات کرتے ہیں ان انسان نما بھیڑوں کی جنہیں عرف عام میں عوام کہا جاتا ہے اور جنہیں کھانے کے لیے سیاستدان ہر جائز و ناجائز طریقے سے اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ یہ بلی کی طرح 9سو چوہے بھی کھاتے ہیں اور حج بھی کرتے ہیں۔ اُن میں سے بیشتر اربوں لوٹیں تو لاکھوں دے کر پاک صاف ہو جاتے ہیں۔ غریب عوام کے خون پسینے، کمیشنوں اور رشوت سے یہ بیرون ملک علاج کے لیے بھی جاتے ہیں، حج اور عمرے کرتے ہیں اور باقاعدہ صدقات و خیرات کرتے ہیں، ماہانہ محفلوں اور کھانوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ لوگوں کے ضمیر خریدنے کا فن بھی انہیں خوب آتا ہے۔ بھوکے ننگے غریبوں کے خون سے ان کی صنعتیں تو چلتی ہیں مگر غریب کا چولہا نہیں جلتا۔

صد افسوس کہ پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ کہنے والا کوئی نہیں رہا۔ ان سب کا نظریہ، سوچ اور عمل یہ ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا، دن رات لوٹ کر کھا۔ جھوٹ ان کی مادری زبان ہے اور یہ منافقت، جھوٹ اور چالاکیوں کو ہی سیاست سمجھتے ہیں اور اب تو علانیہ کہتے بھی ہیں۔ سیاسی مراتب کو ماپنے کا پیمانہ بھی جھوٹ، عیاری و مکاری ہے۔ جو جتنا عیار ہوگا اُسے اتنا ہی بڑا عہدہ اور پروٹوکول ملے گا۔ غریب ٹریفک کا اشارہ کسی غلطی یا مجبوری میں بھی توڑ دے تو ناقابلِ معافی جرم ٹھہرتا ہے اور سخت سے سخت قانونی کارروائی ہوتی ہے اور یہ بادشاہ لوگ ملک توڑیں یا آئین پامال کریں تو انہیں گارڈ آف آنر اور کلین چِٹ ہی ملتی ہے۔

اس دھرتی سے ان کو اتنا پیار ہے کہ خدا کے فضل و کرم سے یہ اور ان کی اولادیں یہاں رہنا اور کاروبار کرنا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی یہاں پڑھنا ان کے معیار کے مطابق ہے۔ ان کے بچے بیمار ہوں تو علاج لندن میں ہوتا ہے یا امریکہ میں۔ یہ بڑے سخی اور حاتم ہیں، عوام کے لیے انہوں نے ایسے اسپتال قائم کیے ہیں جو علاج گاہوں سے زیادہ بیمار یوں کی پناہ گاہیں ہیں۔ جہاں کا رُخ کرنے سے بیمار تو بیمار اس کا وارث جیتے جی بےموت مر جاتا ہے۔

قصور پھر بھی حکمرانوں کا نہیں بلکہ عوام کا ہے کیونکہ ان کا دین، اخلاقیات، فکر و دانش اور سب کچھ پیٹ اور صرف پیٹ ہے جبکہ بھوک انسان سے ساری صلاحیتیں چھین لیتی ہے اور جن کے گھر دانے ہوتے ہیں ان کے کملے بھی سیانے ہوتے ہیں۔ مقتدر بھیڑیوں نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اپنے وطن میں بھوک اور افلاس کی فصلیں بو رکھی ہیں تاکہ عوام کی سوچیں مفلوج رہیں اور ان کی اراضی و ریاضی ہمیشہ 2 + 2 = چار روٹیاں ہی رہے۔ دنیا کا کوئی سماج، کوئی نظریہ و مذہب اور کوئی دین و آئین بھوکے سے قانون کی پاسداری کی ضمانت نہیں مانگتا بلکہ اُس کی بھوک مٹانے کا اہتمام کیا جاتا ہے پھر بعد میں قوانین و ضوابط کا احترام سکھایا جاتا ہے۔

بھوک پھرتی ہے میرے دیس میں ننگے پائوں

رزق ظالم کی تجوری میں چھُپا بیٹھا ہے

تبدیلی سرکار نے 50لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے و عہد فرما کر ووٹ لیے لیکن نئے پاکستان میں نوکریاں نہیں، بس بھیک اور بھوک ہے۔ ساتھ ساتھ تبدیلی کی تال اور چور چور کی تان ہی رہی جبکہ دوسری جانب گو عمران گو کی گردان جاری رہی۔ آج بھی بڑے بڑے محلات بنگلوں میں امیروں کے گھوڑے اور کتے بھی سونے کے نوالے کھاتے ہیں اور ایک عام انسان دو وقت کی روٹی کو ترستا ہے۔

گندم امیرِ شہر کی ہوتی رہی خراب

بیٹی کسی غریب کی فاقوں سے مر گئی

اور اب اگر بات کریں بھاری بیرونی سودی قرضوں کی تو میں نے نواز دور میں ہی لکھ دیا تھا کہ آثار یہ نظر آ رہے ہیں کہ آئندہ آنے والے حکمرانوں کا انحصار بھی بھاری قرضوں پہ ہی ہو گا، وہ ان سے بھی زیادہ قرضے لیں گے بلکہ حکومتی اخراجات پورے کرنے کی خاطر آغاز ہی قرضوں سے ہوگا اور آج کے حالات و معاملات آپ کے سامنے ہیں کہ ہم کس قدر قرضوں کی گہری دلدل میں پھنسے ہیں، ہماری آنے والی نسلیں بھی مقروض ہو رہی ہیں، پیدا ہونے والا ہر بچہ دو لاکھ کا مقروض ہے لیکن باز ہم پھر بھی نہیں آئے، عہدِ عمرانی میں بھی قرضوں پے قرضے لیے گئے جس سے معیشت ICUسے نکل ہی نہیں رہی۔ کروڑوں ڈالرز کی منی لانڈرنگ اور کرپشن ہوئی لیکن وصولی ایک کوڑی کی بھی نہیں ہوئی۔ معاشی بحران سر چڑھ کر بول رہا ہے، مہنگائی، غربت، بھوک، بیروزگاری ہے اور پیارا پاکستان ہے، جو مسائلستان بن چکا ہے، سوچنا یہ ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟ کیونکہ آج ہم جن مشکلات، جن حالات میں سانس لے رہے ہیں لگتا یہی ہے کہ آئندہ آنے والے حکمران بھی یہی بولیں گے کہ خزانہ بالکل ہی خالی ہے، اس لیے ہم مزید قرضے لینے جا رہے ہیں۔

ہم بھی کیا عجیب ہیں کڑی دھوپ کے تلے

صحرا خرید لائے ہیں برسات بیچ کر

تازہ ترین