• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کے تجارت کے فروغ کے ادارے UNCTD نے پاکستان کو دنیا کے ان 5 ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جن پر بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا ناقابل برداشت دبائو ہے۔ ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ سری لنکا، مصر، انگولا اور کولمبیا شامل ہیں۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کی وجہ سے گزشتہ ایک ہفتے میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 2.9ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے اور 25مارچ 2022ء کو اسٹیٹ بینک کے ذخائر 14.9 ارب ڈالر سے گرکر 12ارب ڈالر کی نچلی سطح تک پہنچ گئے جبکہ اس دوران کمرشل بینکوںکے ڈپازٹس 6.5ارب ڈالر رہے ، اس طرح پاکستان کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر5.19فیصد کمی کے ساتھ 18.5رب ڈالر رہ گئے جو فروری 2022ء میں 22.6ارب ڈالر تھے۔

قرضوں کی حالیہ ادائیگیوں میں 2.5ارب ڈالر چین کا قرضہ شامل ہے جس کو وزیراعظم نے اپنے حالیہ دورہ چین میں رول بیک کرنے کی درخواست کی تھی اور امید کی جارہی ہے کہ چین اس قرضے کو مزید ایک سال کیلئے رول بیک کردے گا۔ چین پہلے بھی 2 ارب ڈالر کا قرضہ رول بیک کرچکا ہے ،اس طرح چین کے مجموعی 4.5ارب ڈالر کے قرضے مزید ایک سال کیلئے رول بیک ہوجائیں گے۔ یاد رہے آئی ایم ایف کے پروگرام میں جاتے وقت چین نے پاکستان کو 4 ارب ڈالر کا سیف ڈپازٹ 31 دسمبر 2021ء تک کیلئے دیا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان نے نان پیرس کلب ممالک سے 16ارب ڈالر کے قرضے لئے ہیں جن میں چین سے گزشتہ 3سال میں لئے گئے 14.8ارب ڈالر کے قرضے شامل ہیں جبکہ پاکستان نے مختلف انٹرنیشنل کنسوریشمز اور بینکوں سے 10.8ارب ڈالر کے قرضے بھی لئے جس میں چین کے 2.5ارب ڈالر کے قرضے شامل ہیں جس سے پاکستان کے مجموعی قرضے 127ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جو ملکی جی ڈی پی کا 87فیصد ہیں جبکہ بنگلہ دیش کے قرضے جی ڈی پی کا 30فیصد، چین کے 54فیصد اور روس کے 19فیصد ہیں جبکہ زیادہ سے زیادہ قرضوں کی حد کے قانون FDLA کے مطابق حکومت جی ڈی پی کے 60فیصد سے زیادہ قرضے نہیں لے سکتی جس کو حکومت نے کم کرکے 2030ء تک 60فیصد تک لانا ہے۔ قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے پاکستان اپنی آزادی اور خودمختاری پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہے۔ موجودہ آئی ایم ایف کا پروگرام اس کی زندہ مثال ہے جن کی شرائط کی وجہ سے ہمیں اپنے آئین اور قوانین میں ترامیم کرنا پڑیں۔

پاکستان کے قرضےاگر اسی رفتار سے بڑھتے رہے تو مغرب کے دبائو کی وجہ سے خدانخواستہ ہمارے ایٹمی اثاثوں کی بقا اور سلامتی مشکل میں پڑسکتی ہے۔ پاکستان کے بیرونی قرضوں کی سالانہ ادائیگی تقریباً 12.4ارب ڈالرہے جس میں 10.4 ارب ڈالر اصل اور 2ارب ڈالر سود شامل ہے، جولائی سے مارچ کے دوران 9مہینوں میں 10ارب ڈالر کے قرضے ادا کئے جاچکے ہیں جبکہ جون تک مزید 2.4ارب ڈالر کی ادائیگی ہونا باقی ہے۔ آج پاکستان قرضوں کی دلدل میں پھنس چکا ہے، ہمیں قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے مزید نئے قرضے لینے پڑرہے ہیں۔ ہماری آمدنی کا 60سے 70فیصد سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ گزشتہ سال 4500ارب روپے کے ریونیو میں 3900ارب روپے قرضوں کی ادائیگی لمحہ فکریہ ہے۔ 2018ء میں بیرونی قرضے 134 کھرب روپے تھے، 2021ء میں یہ بڑھ کر 227کھرب روپے تک پہنچ گئے۔ مختلف حکومتوں کے ادوار میں لئے گئے قرضوں کے موازنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی دور میں 161ارب روپے ماہانہ، مسلم لیگ (ن) کے دور میں 265 ارب روپے اور پی ٹی آئی دور میں 540ارب روپے ماہانہ کے حساب سے قرضے لئے گئے۔ قرضے لینے میں کوئی برائی نہیں لیکن اگر یہ قرضے منافع بخش ترقیاتی منصوبوں کیلئے لئے جائیں جو قرضوں اور سود کی رقم واپس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو یہ ملکی ترقی کیلئے فائدہ مندثابت ہوتے ہیں۔

ملک کے موجودہ سیاسی عدم استحکام کے باعث سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی آئی ہے جبکہ اسٹاک مارکیٹ سے بیرونی سرمایہ کاروں، پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز، پورٹ فولیو انویسٹمنٹ سے 387ملین ڈالر کے انخلا اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستانی روپیہ، ڈالر کے مقابلے میں کم ترین سطح 190روپے پر پہنچ گیا تھا۔ تحریکِ عدم اعتماد کی وجہ سے IMF کا ساتواں جائزہ اجلاس التوا کا شکار ہے۔ IMF نے وزیراعظم کی جانب سے صنعتکاروں کو دی گئی ایمنسٹی، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 10روپے اور بجلی کے نرخ میں 5 روپے کی کمی پر اعتراض کیا ہے جس کی وجہ سے حکومت کو 250ارب روپے کی سبسڈی دینا ہوگی جو کرنٹ اکائونٹ خسارے میں مزید اضافہ کرے گی۔ تجارتی خسارہ گزشتہ 6 ماہ میں 100فیصد بڑھ کر 25.5ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو رواں مالی سال کے آخر تک 50 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے، جس کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل گررہے ہیں اور دبائو کی وجہ سےروپیہ 190کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔ حال ہی میں گورنر اسٹیٹ بینک سے روپے کی گرتی ہوئی قدر روکنے کیلئے شرح سود میں اضافے اور دیگر ہنگامی اقدامات کے بارے میں میری تفصیلی گفتگو ہوئی جس سے روپے کی قدر میں 2روپے کا اضافہ ہوا لیکن قرضوں کی ادائیگیاں اب بھی روپے کی قدر پر حقیقی دبائو ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین