• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو کچھ "ہورہا" ہے اور جو کچھ "ہوتا رہا" ہے اور خدانخواستہ آئندہ بھی "ہوگا"، ایک ہی اسکرپٹ، ایک ہی پلاٹ، ایک ہی مرکزی خیال کی مختلف "اداکاروں" اور "ہدایتکاروں" کے ذریعے ڈرامائی تشکیلات ہیں۔ جن کی پہلی قسط دیکھنے کے بعد ناظرین بڑی بے چینی سے اگلی قسط کا انتظار کرتے ہیں اور پھر آخری قسط کے بارے میں اپنے اپنے انداز میں قیاس آرائیاں شروع کردیتے ہیں۔ وہ کہانی میں ایسے محو ہوجاتے ہیں کہ اپنے چھوٹے بڑے ہر مسئلہ کو بھول جاتے ہیں اور ڈرامہ کا انجام اپنی سوچ کے مطابق تصور کرتے ہوئے اوروں کو یہی سوچ اپنانے کو کہتے ہیں، جس سے ان کے آپس کے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں لیکن انہیں احساس نہیں ہوتا۔ پھر ڈرامے کی آخری قسط دیکھنے کے بعد کچھ لوگ خوش ہوتے ہیں، مٹھائیاں بانٹتے ہیں اور کچھ بے انتہا ناخوش ہوتے ہیں۔ پھر۔۔۔۔۔۔۔۔ سب لوگ یہ سب کچھ بھول بھال کر اگلا ڈرامہ دیکھنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہ سلسلہ پچاس کی دہائی سے جاری ہے اور نجانے کب تک چلے گا؟ لوگ کہانی کے پلاٹ کو تو دیکھتے ہیں لیکن اس کے پیچھے ہونے والی سرگرمیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ آئیں ذرا اس طرف بھی سوچ کا دائرہ گھمائیں۔ سوشل میڈیا پہ چلنے والی رپورٹ کے مطابق اس حالیہ سیاسی ڈرامہ میں "پچاس ارب" روپے لگائے گئے۔ چودہ جماعتوں نے مل کر یہ پیسے دیئے۔ لینے والے حکومتی نشستوں والے تھے۔ دوسری طرف الزامات لگے کے حکومتی اراکین اور ان کے دوستوں اور رشتہ داروں نے اقتدار کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور ایک ترقی یا تبادلے کے لئے کڑوروں روپے لئے۔ آیا ان باتوں کتنی صداقت ہے اس کا ثبوت نہیں، لیکن سب کچھ میڈیا میں آرہا ہے اور تیزی سے پھیلایا جارہا ہے کہ آخر کیا واقعی "ہم غریب" ہیں؟ لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں،

اسی لیے درد دل رکھنے چندہ مانگ مانگ کر لوگوں کا پیٹ بھر رہے ہیں۔ تو دوسرا منظر نامہ یہ ہے کہ ایک پولیس والا ایک مخصوص علاقے میں تعینات ہونے کے لیے کڑوروں کی رشوت دے رہا ہے تو اس سے اوپر کے عہدے دار کتنے کڑور دیتے ہوں گے؟ اسی طرح بیوروکریسی کے عہدوں کی بھی اسی طرح نیلامی ہوتی ہے اور کڑور سے نیچے کوئی تعیناتی نہیں۔ دوسری طرف کسی کی وفاداری حاصل کرنے اور دوسرے کی حکومت گرانے کی قیمت بھی کڑوروں میں آتی ہے۔ آخر جب ہمارے ملک میں لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہےکہ تیس، چالیس ہزار روپے کی نوکری کے لئے کڑور اور اس سے اوپر کے لئے کڑوروں روپے دیئے جاتے ہوں۔ تو ایسے لوگوں کو ذریعہ معاش کچھ اور

ہی ہوگا اور یہ "اضافی آمدنی" کے لئے عہدے حاصل کئے جاتے ہیں۔ سرکار گرانے اور سرکار بنانے میں بھی "اربوں خرچ" ہوجاتے ہیں ۔ یہ سب کے سب افراد چاہے پیسہ لینے والے ہوں یا دینے والے سب کا بلاواسطہ یا بالواسطہ حکومت یا اراکین پارلیمنٹ سے تعلق ضرور ہوتا ہے۔ یعنی یہ لوگ انتہائی امیر ہوتے ہیں۔ اربوں کی رشوت دینا اور لینا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ان کے گھر والے امریکہ، لندن یا یورپ میں رہتے ہیں ۔ یہ کماتے پاکستان سے ہیں لیکن ان کے خاندان کا خرچہ پاکستان سے جاتا ہے۔جہاں وہ شاہانہ زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن جب ان افراد کا ٹیکس دینے کا ریکارڈ دیکھا جاتا ہے تو چند ہزار سے زیادہ نہیں ہوتا۔انتہائ حیرت کی بات ہے کہ چند دنوں میں پچاس ارب روپے بغیر آئی ایم ایف، چین اور سعودی عرب کی مدد کے بغیر جمع کر لئے گئے ۔ تو سال میں پتا نہیں کتنے "ہزار ارب" خرچ ہوتے ہوں گے؟ لیکن جب ملکی خزانے کی بات ہو تو خزانہ خالی ہوتا ہے، ٹیکس اندازے سے کم جمع ہوتا ہے، غربت کی وہ منظر کشی کی جاتی ہے کہ آمدنی ہی نہیں ہے تو ٹیکس کس پہ لگائیں (tax base)۔ ایک سڑک کی مرمت کرنی ہو تو فنڈز کی کمی آڑے آتی ہے، پینے کے صاف پانی کا منصوبہ ہو تو خزانہ خالی بتا یا جاتا ہے، صحت و تعلیم پر خرچ کرنا ہو تو ممکن ہی نہیں ہوتا کیونکہ غربت کے خاتمے کے لئے حکومتی اقدامات کی وجہ سے خزانہ خالی ہوجاتا ہے۔ لیکن بقیہ ہر معاملے میں پیسے ریل پیل رہتی ہے۔ حزب اختلاف کو حزب اقتدار کے سارے کالے کرتوتوں کا پتا ہوتا ہے اور حکومتی اراکین کو اپوزیشن کا۔ لیکن یہ صرف ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں عملی قدم نہیں اٹھاتے۔ تاکہ سب لوگوں کے ذریعہ آمدن کو دستاویزی ثبوت کے ساتھ سامنے لایا جائے اور tax base کو بڑھا کر قومی بجٹ میں آمدنی کا تناسب مناسب حد تک بڑھایا جائے تاکہ آئندہ کسی سے قرضہ نہ مانگنا پڑے۔ لہذا اس وقت افسردہ ہونے یا خوشیاں منانے کے بجائے، غور کیا جائے کہ جب ذاتی ضرورت پڑنے پہ اربوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں اور ان سب کے رشتہ دار ملک سے باہر ہیں تو لاکھ دعوئ کریں یہ ہم (عوام) اور ملک سے بالکل مخلص نہیں۔ مخلص اور ہمدرد صرف وہ ہوگا جس نے یہاں کے مسائل کا خود سامنا کیا ہوگا۔ وہ تب ہی ہوگا جب اس کے بچے اسی ملک میں رہتے ہوں، یہیں سے تعلیم حاصل کی ہو، یہیں سے علاج کرواتے ہوں، ٹریفک جام میں پھنستے ہوں، بلاوجہ سڑکوں پہ لٹتے ہوں کیوں کہ پولیس تو حفاظت ان "اربوں روپے" سے کھیلنے والے کی کرتی آپ کی نہیں۔ یہ کھربوں روپے ڈالر کی شکل میں ملک سے باہر لے جاتے ہیں تاکہ ان کی اولادیں عیاشی کریں لیکن ہمیں اس دباؤ میں رکھتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کرتے بلکہ ہمیں سمندر پار پاکستانی پال رہے ہیں زرمبادلہ بھیج کر، یہ جو زرمبادلہ پاکستان سے کما (عوام کا خون چوس کر ) باہر بھیجتے اس کی "تشہیر" کیوں نہیں کی جاتی۔ ذرا سوچئے کبھی وقت نکال کر ، غیر جانبدار ہوکر۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین