• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سربراہانِ مملکت کو دوست ممالک کے دوروں کے دوران تحائف کا ملنا ایک معمول کی بات ہے۔ اس فراخدلانہ جذبے کا مقصد ان ممالک سے تعلقات میں گرمجوشی کو فروغ دینا ہے۔کابینہ ڈویژن پاکستانی سربراہان کو دوست ممالک کی جانب سے ملنے والے قیمتی تحائف کی نگرانی کا ذمہ دار ہوتا ہے جبکہ یہ تحائف جہاں محفوظ کئے جاتے ہیں، اُسے ’’توشہ خانہ‘‘ کہا جاتا ہے اور سربراہانِ مملکت پر یہ لازمی ہوتا ہے کہ بیرون ملک سے ملنے والے تحائف کا اندراج توشہ خانہ میں کروائیں۔عمران خان دورِ حکومت میں توشہ خانہ شدید تنقید کی زد میں رہا اور اس کی شفافیت پر سوالات اٹھائے گئے۔ آج کل یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرِ سماعت ہے جس میں پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے عمران خان کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات پبلک نہ کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ اس سے قبل پاکستان انفارمیشن کمیشن (PIC) نے ایک درخواست گزار کی اپیل پر وزیراعظم عمران خان کو اپنے دورِ حکومت میں ملنے والے تحائف کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی جسے حکومت نے ہائیکورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ کیبنٹ ڈویژن کا موقف تھا کہ یہ تحائف وزیراعظم کو ذاتی حیثیت میں دیے گئے تھے اور انہیں نیلام کردیا گیا۔ ان کے بقول نیلامی میں صرف سرکاری اور فوجی ملازمین نے حصہ لیا اور ان تحائف کی تفصیلات بتانا قومی مفاد میں نہیں۔ درحقیقت کیبنٹ ڈویژن کی وزیراعظم کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات فراہم نہ کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر قیمتی تحفے توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے سربراہانِ مملکت نے خود رکھ لیے جن میں رولیکس اور شوپارڈ گھڑیاں، ہیرے اور سونے کے زیورات، ہیرے جڑے قلم اور تسبیحوں سمیت دیگر قیمتی اشیاء شامل تھیں۔ گزشتہ دنوں انہی میں سے ایک بیش بہا قیمتی گھڑی جس کی مالیت 19 کروڑ روپے تھی، کو دبئی میں فروخت کرنے کا انکشاف ہوا۔

یاد رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے اہلیہ کے ہمراہ دورۂ سعودی عرب کے موقع پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان نے عمران خان کی اہلیہ کو جہاں ایک طرف ہیرے کے قیمتی سیٹ تحفتاً دیے، وہیں عمران خان کو ایک بیش قیمت شوپارڈ گھڑی تحفے میں دی جو ہیروں اور سونے سے تیار کی گئی تھی اور کمپنی نے اس طرح کی صرف چند گھڑیاں خصوصی طور پر سعودی ولی عہد کیلئے تیار کی تھیں۔ وطن واپسی پر عمران خان نے یہ گھڑی توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی کو دے دی اور انہیں جب یہ علم ہوا کہ مذکورہ گھڑی کی مالیت کروڑوں میں ہے تو انہوں نے اپنے ایک بااعتماد شخص کے ذریعے اسے دبئی کے ایک شوروم میں فروخت کیلئے بھیجا۔ شوروم کے مالک نے شوپارڈ کمپنی سے رابطہ کیا جس نے سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان کے آفس سے رابطہ کرکے بتایا کہ کمپنی نے جو گھڑی سعودی ولی عہد کیلئے خصوصی طور پر تیار کی تھی، وہ فروخت کیلئے آئی ہے، کہیں یہ گھڑی چوری تو نہیں کی گئی؟ اس طرح یہ معاملہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد سلیمان کے علم میں لایا گیا۔ سعودی ولی عہد نے کمپنی کو ہدایت کی کہ وہ گھڑی خرید کر انہیں واپس بھیج دیں۔ اس طرح وہ گھڑی دوبارہ سعودی ولی عہد کے پاس پہنچ گئی مگر انہیں اس بات کا صدمہ پہنچا کہ وہ گھڑی جو انہوں نے اپنے برادر ملک کے وزیراعظم کو تحفتاً دی تھی، انہوں نے اس تحفے کی قدر نہیں کی اور مارکیٹ میں فروخت کردیا۔ اسی طرح کے ایک اور واقعہ میں گزشتہ دنوں عمران خان کے دیرینہ ساتھی سابق سینئر وزیر عبدالعلیم خان نے یہ انکشاف کرکے لوگوں کو حیرت زدہ کردیا کہ ایک معروف بلڈر کی جانب سے سابقہ خاتون اول کو ڈائمنڈ کا بیش قیمت سیٹ بطور تحفہ دیا گیا تھا اور عمران خان نے اپنی اہلیہ کی کرپشن کو بے نقاب کرنے پر خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو یہ کہہ کر ہٹادیا کہ انہوں نے ریڈ لائن کراس کی ہے۔

سعودی عرب کی ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ وہ برادر ملک پاکستان کے حکمرانوں کے دورہ سعودی عرب میں اُنہیں بیش قیمت تحفے تحائف سے نوازتے ہیں۔ صدر پاکستان عارف علوی جب آفیشل دورے پر سعودی عرب گئے تو نہ صرف اپنی اہلیہ بلکہ بیٹیوں، بیٹوں اور بہوئوں کو بھی ساتھ لے گئے تاکہ سعودی سخاوت سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اطلاعات ہیں کہ صدر عارف علوی کی پوری فیملی وطن واپس لوٹی تو یہ قیمتی تحفے تحائف توشہ خانے میں جمع نہیں کرائے گئے جبکہ کیبنٹ ڈویژن نے سعودی عرب سے صدر مملکت اور ان کے اہلِ خانہ کو ملنے والے تحفے تحائف کی تفصیلات بتانے سے انکار کردیا۔ آج کل سابقہ خاتون اول کی قریبی دوست اور فرنٹ پرسن فرح خان کی کرپشن کے چرچے عام ہیں۔ فرح خان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ پنجاب میں ہر پوسٹنگ اور ٹرانسفر پر کک بیکس وصول کرتی تھیں جس کا اندازہ ان کے زیر استعمال قیمتی اشیاء سے لگایا جاسکتا ہے جن میں مگرمچھ کی کھال سے بنا دنیا کا مہنگا ترین ہرمس برکن (Hermes Birkin) ہینڈ بیگ جس کی قیمت 90 ہزار ڈالر (ایک کروڑ 70 لاکھ روپے) بتائی جاتی ہے، بھی شامل ہے۔

عمران خان کرپشن کے خاتمے کا بیانیہ لے کر برسراقتدار آئے تھے مگر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ میں یہ بات ظاہر ہوئی کہ عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں کرپشن رینکنگ میں پاکستان کی 23 درجے تنزلی ہوئی اور پاکستان 117 سے 140 ویں نمبر پر آگیا۔ مذکورہ بالا واقعات آئس برگ کی چوٹی کی مانند ہیں جس سے کرپشن کے حجم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین