• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’حکومتی تبدیلی کی عالمی سازش‘‘ تو طشتِ از بام ہوئی، البتہ اندرونی معاملات میں ’’غیر سفارتی زبان‘‘ کے استعمال کی ’’مداخلت‘‘ کی دُم کتنی عمران خان کی ’’امریکہ مخالف‘‘ طوفانی مہم، ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کے خلاف نئے انتخابات کے مطالبے کو جلا بخشتی ہے یا پھر ایک وقتی اُبال ثابت ہوتی ہے؟ آئندہ چند ہفتوں میں پتا پڑ جائے گا کہ ’’قومی آزادی‘‘ کی احتجاجی لہر کہاں جاکے رُکتی ہے؟ گزشتہ رات بھی کراچی میں قومی پرچموں کی بہار میں امریکہ مخالف قوم پرست جذبات خوب آپے سے باہر ہوتے رہے، بھلے نعرہ زن یوتھیوں کو معلوم نہ تھا کہ وہ یہ مستانہ نعرہ ’’امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘‘ کیوں لگارہے ہیں۔ البتہ پشاور کے جلسے کی طرح تحریک انصاف کا کراچی کا ہجوم بھی تین باتوں پہ بپھرا نظر آیا۔ آئینی و پارلیمانی طریقے سے حکومتی تبدیلی کی ’’سازش‘‘ کی طفلانہ کہانی، اپنے فالن ہیرو سے یکجہتی اور ’’بدنام زمانہ‘‘ ولنز (حریفوں) کی کامرانی۔ گویا غصہ سہ آتشہ ہوا جو جلد ٹھنڈا پڑنے والا نہیں لیکن وقت کی دھول میں زیادہ چلنے والا بھی نہیں۔ اقتدار سے عدم رغبت کے باوجود یہ اتنا پیارا نکلا کہ آئین، قانون، انصاف اور پارلیمان کے سارے لبادے تار تار کر کے پھینک دیے گئے اور قومی سلامتی و خارجہ تعلقات کو ناراض بچوں کی تضحیک کی مشق ستم بنا دیا گیا۔ آئینی، عدالتی، پارلیمانی اور اخلاقی شکست اور تمام تر بےاصولی و غیرجمہوری حدوں کو پھلانگنے کے بعد بھی کوئی مقبول زمانہ شخصیت (Celebrity) اور اپنے زخم خوردہ ہیرو سے دیوانہ وار محبت مڈل کلاس میں چھپی محرومیت و غصے کا فسطائی رجحان نہیں تو اور کیا ہو سکتا ہے۔ یک قطبی دنیا اور گلوبلائزیشن کے انحطاط اور عالمی معاشی، طبقاتی و قومی نابرابری کے منظر نامے پہ بھانت بھانت کے سورمے نمودار اور غروب ہورہے ہیں۔ سو، پاکستان کیوں استثنائوں میں پیچھے رہے۔ ساڑھے تین برس کی ناکارہ و نامراد کارکردگی کو شرم چھپانے کی جگہ نہ ملی اور ریاست مدینہ ثانی ثواب کمانے سے محروم رہی تو المعروف کے دعوے کے توشہ خانہ سے 14کروڑ روپے کے تحائف کی چوری کی شرمساری پلے پڑی تو بائیں بازو کے دیرینہ امریکی سامراج مخالف پھریرے کو لہرانے میں کیا مضائقہ ہے۔ بھلے سامراج جو عالمی اجارہ دار سرمایہ داری اور بین الاقوامی، مالیاتی تفریق اور امریکی ورلڈ ایمپائر و ڈالر کے غلبے سے عبارت ہے، سے رتی بھر بھی آگاہی نہ ہو۔

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی دراصل ہائبرڈ نظام کے اندرونی خلفشار کا پھل ہے۔ یہ ہائبرڈ نظام قائم بھی مقتدرہ کے زور پہ ہوا، دائم بھی اس کے سہارے رہا اور جب سہارا ’’نیوٹرل‘‘ ہو گیا تو یہ راہِ عدم سدھارا۔ یہ سارا ہنگامہ میراثی کی رضائی ہتھیانے کا بچگانہ قصہ نہیں۔ نہ امریکہ بہادر کو بھولے بسرے اتحادی کے کسی ڈیماگوگ (جذباتی لیڈر) کو کسی بڑے مقصد کی خاطر راہ سے ہٹانے کی کوئی ضرورت تھی۔ افغانستان جنگ کے خاتمہ پر سوائے انخلا کے امریکیوں کو پاکستان کی کوئی ضرورت نہ رہی، گو کہ امریکہ سے دست نگری کے رشتے برقرار رکھنے اور طفیلی ریاست بنے رہنے کی تمنا بےقرار ہے۔ ٹرمپ سے قربت کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مفت کی امریکی شفقت بائیڈن کے دور میں بھی برقرار رہتی۔ جس طرح کی بات چیت امریکی سفارت کار اور پاکستانی سفیر کے مابین ہوئی اس سے سخت انسانی حقوق کی پامالی پر امریکہ اور بھارت کے نریندرا مودی کے درمیان بات چیت ہورہی ہے جسے بھارت بھی ’’اندرونی معاملات میں مداخلت‘‘ قرار دے کر بار بار رَد کررہا ہے، لیکن کسی محاذ آرائی میں پڑے بغیر۔ پاکستانی سفیر کے خفیہ مراسلے کے غبارے سے ہوا تو افواج کے ترجمان میجر جنرل افتخار بابر نے یہ کہہ کر نکال دی کہ کابینہ کی قومی سلامتی کے اجلاس کے اعلامیہ میں ’’سازش‘‘ کا کہیں ذکر ہے تو کوئی بتائے؟

ڈی جی آئی ایس پی آر کی 14اپریل کی پریس کانفرنس دراصل ہائبرڈ نظام سے کنارہ کشی کا بڑا اعتراف ہے۔ 74برس سے فوج کی سیاست سے دست برداری کا جو تقاضہ سول سوسائٹی کررہی تھی یا پھر ساڑھے تین سال سے اپوزیشن نیوٹریلیٹی کا جو مطالبہ کررہی تھی، آخر کار پاک فوج نے اسے آئینی تقاضے کے طور پر قبول کر لیا ہے۔ اب افواج کے بھی مارشل لا نہ لگانے کے عہد اور سیاست سے دست کشی کے وعدے کو خوش آئند قرار دیا جارہا ہے لیکن کھیر کا ذائقہ تو کھانے میں ہی پتا لگ پائے گا۔ اس مثبت تبدیلی کے لیے ریاست کے تصور، اقتدار کے ڈھانچے اور اداراتی دائرے سمیت سول ملٹری تعلقات کے تمام پہلوئوں کو از سر نو تربیت دینے کی ضرورت ہوگی۔ امید ہے کہ جنرل باجوہ 29 نومبر کو ریٹائرمنٹ سے پہلے کابینہ کی سلامتی کمیٹی کے سامنے جامع منصوبہ پیش کریں گے تاکہ جس کا کام اسی کو ساجھے کے کلیہ پہ واقعتاً عمل ہو سکے۔ تادم تحریر، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی سوری کی ایک اور غیر پارلیمانی حرکت ناکام ہوئی اور وہ اپنے مواخذے سے پہلے مستعفی ہو گئے۔ ہفتہ ہی کے روز پنجاب اسمبلی ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کی صدارت میں پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب کرے گی گو کہ تحریک انصاف کے 123 اراکین قومی اسمبلی کا استعفیٰ جھٹ پٹ منظور کروا لیا گیا ہے، لیکن بہت سے منکر ہونے پہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ صوبوں سے مستعفی ہونے کا امکان ابھی نہیں کیونکہ منتخب اراکین اپنے حلقے مخالفوں کے رحم و کرم پہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہونا چاہیں گے۔ رہی خادم پاکستان شہباز شریف کی حکومت تو وہ ایک انتہائی وسیع البنیاد عمران مخالف اتحاد کی حکومت ہے۔ اسے وہ پنجاب کے لاشریک خادم اعلیٰ کی طرح نہیں چلا سکتے۔ وسیع تر اتحاد کی یہ حکومت فقط تین اراکین کی اکثریت پہ قائم ہے جسے زیادہ عرصہ جاری رکھنا ایک نہایت صبر آزما، مشکل اور پیچیدہ کام ہوگا۔ وزیراعظم اور ان کے اتحادیوں کی باتوں سے معلوم پڑتا ہے کہ ان کا ارادہ اس اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک اقتدار پہ براجمان رہنے کا ہے۔ ایسے میں اسے عمران خان کی حکومت کا خوفناک ملبہ بھی اٹھانا ہوگا اور ملک کو مجموعی بحران سے نکالنے کے لیے بڑے پاپڑ پیلنا پڑیں گے۔ اوپر سے عمران خان کی طوفانی مہم اور جلد انتخابات کا مطالبہ ضرور زور پکڑے گا۔ ایک تو اپوزیشن نے عمران خان کی حکومت کو قبل از وقت چلتا کرنے کی جلدی کی اور اب وہ اپنی حکومت کو طول بھی دینا چاہتی ہے تو امتحان تو سخت تر ہو جائے گا۔ عوام کی ٹوٹی ہوئی توقعات کی بحالی، معاشی بحران کا حل، سیاسی افراتفری کا مقابلہ اور اوپر سے پرانے پاکستان کے گھسے پٹے فارمولوں پہ انحصار جانے اس حکومت کا مستقبل کیا ہو؟ فی الحال دعائے خیر!

تازہ ترین