مولانا محمد راشد شفیع
رمضان المبارک تمام مہینوں کا سردار ہے۔ اِس ماہ کے تمام ہی ایّام فضیلت کے حامل اور بابرکت ہیں، تاہم اِس کے آخری عشرے کی اہمیت اور عظمت بہت زیادہ ہے کہ یہ جہنّم سے نجات کا عشرہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوں تو پورا ماہِ رمضان عبادت و ریاضت میں گزارتے، مگر آخری دس دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت میں بہت اضافہ ہو جاتا۔ چناں چہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا،’’ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا، تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کمربستہ ہوجاتے، اِس کی راتوں کو زندہ رکھتے (یعنی شب میں بیدار رہتے)اور گھر والوں کو بھی جگایا کرتے۔‘‘(متفّق علیہ)۔یہی وہ عشرہ ہے، جس میں ایک ایسی رات ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار مہینوں سے زیادہ افضل قرار دیا ہے۔اور اِس ماہِ مقدّس کی آخری رات بھی اِسی عشرے میں ہے، جس کی احادیثِ مبارکہؐ میں بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔
اعتکاف
اِس عشرے کی ایک اہم عبادت اعتکاف ہے، جس میں بندۂ مؤمن دنیاوی مشغولیت سے منہ موڑ کر خود کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف کردیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرماتے اور ازواجِ مطہراتؓ بھی اعتکاف کیا کرتی تھیں۔ اِس مقصد کے لیے مرد 20 ویں روزے کو افطار سے قبل مسجد اور خواتین گھر کے مخصوص حصّے میں منتقل ہوجاتے ہیں اور پھر شوال کا چاند نظر آنے تک مختلف شرعی پابندیوں کے ساتھ وہیں ٹھہرے رہتے ہیں۔
یہ سطور 22 ویں روزے کو آپ کی نظر سے گزر رہی ہوں گی، اِس لیے سُنّت اعتکاف کا وقت تو گزر چُکا ہوگا، البتہ اگر کسی کے پاس فرصت ہو، تو وہ رمضان کے باقی ایّام میں مکمل یا چند روز کے لیے نفلی اعتکاف کرسکتا ہے۔ چوں کہ اعتکاف ایک ایسا مبارک عمل ہے، جس پر نبی کریم ﷺ عُمر بھر کاربند رہے، اِس لیے ہمیں اِس سُنتِ نبویؐ کی پیروی میں کم ازکم ایک بار تو ضرور اعتکاف بیٹھنا چاہیے۔اس کے لیے ہمیں ابھی سے اگلے سال اعتکاف کرنے کی نیّت کرلینی چاہیے کہ نیّت کا بھی ایک ثواب ہے اور اگر ارادہ پختہ ہو، تو عمل کا بھی راستہ نکل ہی آتا ہے۔
شبِ قدر کی تلاش
آخری عشرے کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اِس میں’’ لیلۃ القدر‘‘ ہے، جس کا ذکر اللہ تبارک و تعالی نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے۔ ’’ قدر‘‘ کا مطلب مرتبہ یا عظمت ہے، چوں کہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبے کے لحاظ سے بلند ہے، اِس لیے اِسے’’لیلۃ القدر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہی وہ رات ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک نازل فرمایا۔ سورۂ دخان میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’یقیناً ہم نے اِس (قرآن) کو بابرکت رات میں نازل فرمایا ہے۔‘‘حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور دیگر کا قول ہے کہ’’ جس رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا، وہ لیلۃ القدر ہی ہے۔‘‘یہ مبارک رات ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’بے شک ہم نے اِس(قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تمھیں کیا معلوم کہ شبِ قدر کیا ہے؟
شبِ قدر ایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔اِس میں فرشتے اور روح (یعنی حضرت جبرائیلؑ) اپنے پروردگار کی اجازت سے ہر کام کے لیے اُترتے ہیں۔ وہ رات سراپا سلامتی ہے، فجر کے طلوع ہونے تک۔‘‘(سورۃ القدر)۔شبِ قدر کون سی رات ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اِسے مخفی رکھا ہے، تاہم احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے کا اعتکاف خاص طور پر لیلۃ القدر کی تلاش اور اس کی برکات پانے کے لیے فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے اور فرماتے تھے کہ رمضان کے آخری دس دنوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو۔‘‘(صحیح بخاری)۔اِس سے ظاہر ہوا کہ یہ مبارک رات رمضان کے آخری عشرے ہی میں ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ ہی سے مروی ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ’’ شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘یوں احادیثِ مبارکہؐ کی روشنی میں اِس بات کا تعیّن ہوگیا کہ یہ بابرکت رات رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی رات ہے۔ بعض روایات میں 27 ویں شب کو لیلۃ القدر کہا گیا ہے، تاہم سلف صالحین کا معمول تھا کہ وہ آخری عشرے کی تمام طاق راتیں، یعنی اکیس ویں، تیئس ویں، پچیس ویں، ستائیس ویں اور انتیس ویں، عبادت کرتے ہوئے گزارتے۔ اِن راتوں میں عبادت پر بڑے انعام اور ثواب کی بشارتیں ہیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ”یہ مہینہ (رمضان کا) تمھیں ملا ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے، جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو اِس سے محروم رہا، گویا وہ تمام خیر سے محروم رہا اور اس کی خیر و برکت سے کوئی محروم ہی بے بہرہ رہ سکتا ہے۔“ (سنن ابنِ ماجہ)۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،’’ جوشخص شبِ قدر کو ایمان اور اجروثواب کی نیّت سے عبادت کرے، اُس کے سارے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ’’ لیلۃ القدر میں حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے ایک گروہ کے ساتھ زمین پر آتے ہیں اور جس کسی کو عبادتِ الہٰی میں مشغول دیکھتے ہیں، اُس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔‘‘ روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سابقہ اُمّت کی عُمروں سے آگاہ فرمایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کے مقابلے میں اپنی اُمّت کی عُمر کو کم دیکھتے ہوئے خیال فرمایا کہ میری اُمّت کے لوگ اِتنی کم عُمر میں سابقہ اُمّتوں کے برابر عمل کیسے کر سکیں گے؟اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیلۃ القدر عطا فرمائی گئی، جو ہزار مہینے سے افضل ہے۔(موطا امام مالک)۔
حضرت ابنِ عبّاس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا، جس نے ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر تعجّب کا اظہار فرمایا اور اپنی اُمّت کے لیے آرزو کرتے ہوئے دُعا کی کہ’’ اے میرے ربّ! میری اُمّت کے لوگوں کی عُمریں کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی کم ہوں گے۔‘‘ اِس پر اللہ تعالی نے شبِ قدر عنایت فرمائی۔‘‘احادیثِ مبارکہؐ میں اِس رات کے لیے کوئی خاص عبادت مختص نہیں کی گئی۔
لہٰذا اس رات نوافل، قرآن پاک کی تلاوت، ذکر اذکار وغیرہ کیے جاسکتے ہیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مَیں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ’’ اگر مجھے شبِ قدر کا علم ہوجائے، تو مَیں کیا دعا کروں؟‘‘ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،’’ اللھم اِنک عفو کریم، تحبُ العفوَ، فاعف عَني( اے اللہ! تُومعاف کرنے والا، کرم والا ہے اورمعافی کوپسند کرتا ہے، لہٰذا مجھے معاف کردے)۔‘‘(سنن ترمذی)۔
عشرے کی آخری رات
ماہِ رمضان کی آخری رات، یعنی عید الفطر کی چاند رات، ہمارے ہاں غل غپاڑے، بے مقصد گھومنے پِھرنے یا عید کی تیاریوں کے لیے مارکیٹس کے چکر لگانے کے لیے مختص ہے، حالاں کہ اگر ہمیں اس کی اہمیت و فضیلت سے آگاہی ہو،تو اُسے یوں فضول کاموں میں ضایع نہ کریں۔ احادیثِ مبارکہؐ میں اِس رات کو’’لیلۃ الجائزہ‘‘(انعام ملنے کی رات) کہا گیا ہے۔ یہ رات، دراصل مزدوری ملنے کی رات ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس رات بندوں کو پورے رمضان کی مشقّتوں اور قربانیوں کا صلہ ملتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’میری اُمّت کو رمضان المبارک کے بارے میں پانچ مخصوص چیزیں دی گئیں، جو پہلی اُمّتوں کو نہیں ملیں۔(1) اُن کے (روزے دار کے) منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مُشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔(2) روزے دار کے لیے مچھلیاں تک دُعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں۔(3)جنّت ہر روز ان کے لیے آراستہ کی جاتی ہے، پھر حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں،’’ قریب ہے کہ میرے نیک بندے(دنیا کی) مشقّتیں پھینک کر میری طرف آئیں۔‘‘(4)اس ماہ میں سرکش شیاطین قید کردیے جاتے ہیں۔(5) رمضان کی آخری رات روزے داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔‘‘صحابہؓ نے عرض کیا’’کیا یہ شب’’شبِ قدر‘‘ ہے؟‘‘آپﷺ نے فرمایا، نہیں، بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کا کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔‘‘(مسند احمد، بیہقی)۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے اِرشاد فرمایا،’’ جس نے عیدین (عید الفطر اور عید الاضحیٰ)کی دونوں راتوں میں اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے عبادت کی، اُس کا دل اُس دن مُردہ نہیں ہوگا، جس دن سب کے دل مُردہ ہوجائیں گے۔‘‘(ابنِ ماجہ)۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، نبی کریمﷺسے نقل فرماتے ہیں ،’’ جو چار راتوں کو عبادت کے ذریعے زندہ کرے( اُن میں عبادت کرے)،اُس کے لیے جنّت واجب ہوجاتی ہے۔(1)لیلۃ الترویۃ، یعنی آٹھ ذی الحجہ کی رات(2)عرفہ،9 ذی الحجہ کی رات(3)لیلۃ النحر، 10 ذی الحجہ کی رات(4)لیلۃ الفطر، یعنی عید الفطر کی شب۔‘‘حضرت عبد اللہ بن عُمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دُعا رد نہیں کی جاتی: جمعے کی شب، رجب کی پہلی شب، شعبان کی پندرہویں شب اور عیدین(یعنی عید الفطر اور عیدالاضحیٰ)کی راتیں۔‘‘
ماہِ مبارک کے اختتامی گھڑیاں قریب ہیں کہ اِس ماہ کے اب چند روز ہی باقی رہ گئے ہیں۔ پھر یہ بھی علم نہیں کہ اگلے برس یہ بابرکات ساعتیں نصیب بھی ہوں گی یا نہیں؟ تو اب بھی موقع ہے کہ اپنے ربّ سے مغفرت اور اُس کی رحمت طلب کی جائے، گڑگڑا کے اپنے گناہوں کی معافی مانگی جائے کہ اُس سے بڑھ کر معاف کرنے والا کون ہے، خاص طور پر طاق راتوں کا بیش تر یا زیادہ حصّہ اللہ تعالیٰ کے سامنے قیام، رکوع اور سجود میں گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم بھی اُن خوش نصیبوں میں شامل ہوسکیں، جنھیں اِس ماہ کے اختتام پر جہنّم سے نجات کا پروانہ دیا جاتا ہے۔