• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام حصولِ رزق کے لیے محنت کی عظمت اُجاگر کرتا، کسبِ حلال کی تعلیم دیتا ہے
اسلام حصولِ رزق کے لیے محنت کی عظمت اُجاگر کرتا، کسبِ حلال کی تعلیم دیتا ہے

اسلام میں ’’تلاشِ روزگار اور کسبِ حلال‘‘ کے لیے محنت کی عظمت مُسلّم ہے، یہ نہ صرف اپنے ماننے والوں کو مستقل مزاجی، جُہدِ مسلسل، کسبِ معاش کے لیے جائز اور حلال ذرائع اختیار کرنے اور محنت و مشقت پر آمادہ کرتا ہے، بلکہ عزم و ارادے کے بعد توکّل اور توکّل کے بعد تلاشِ معاش کے لیے جدّوجہد کی تعلیم بھی دیتا ہے۔ 

رسولِ اکرمﷺ کی ذاتِ گرامی، آپ ؐ کے ارشادات و تعلیمات اور اُسوۂ حسنہ ہمارے لیے لائقِ تقلید نمونہ ہیں۔ آپ ؐ کی حیاتِ طیّبہ عزم و عمل، سعی و جُہد اور استقلال و ثابت قدمی سے عبارت ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مقصد کی لگن اور اس کے لیے محنت، مسلسل جدّوجہد اور عملِ پیہم انسان کو آخر کار کام یابی اور بامراد زندگی سے ہم کنار کرتے ہیں۔ جمود اور بے کاری، سُستی اور کاہلی خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی، انحطاط اور زوال کی علامت ہے، جب کہ تلاشِ معاش اور کسبِ حلال کے لیے محنت، جدّوجہد اور عملِ پیہم عروج اور ترقّی کی نشانیاں ہیں۔

اسلام کے نزدیک دنیا دارالعمل اور آخرت کی ابدی زندگی، اُس کی نعمتیں اور اللہ تعالیٰ کے انعامات درحقیقت نیک اعمال،اللہ پر ایمان، دین پر عمل، اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی اطاعت کا بدلہ اور اُس کی جزا ہیں۔ لہٰذا معلوم ہُوا کہ عملِ پیہم اصل چیز ہے۔ ذرائع معاش اور وسائلِ حیات کے لیے جدّوجہد اور سعی و عمل، کسبِ معاش اور اس کے لیے محنت و مشقّت کے زمرے میں آتی ہے، بہ الفاظِ دیگر بقائے حیات کے لیے جدّوجہد اور فکرِ معاش کے لیے عملِ پیہم، محنت و مشقّت سے عبارت ہے اور اس حوالے سے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اپنے اور اپنے زیرِ کفالت افراد کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے جائز ذرائع سے معاشی جدّوجہد اور محنت، عبادت میں داخل ہے۔ 

اس حوالے سے رسولِ اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی حضرت عبداللہ بن عُمر ؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا۔ ’’دنیا سرسبز و خوش گوار ہے، جس نے اس میں مال کمایا، حلال اور جائز طریقے سے، اور اُسے جائز طور پر صرف کیا، تو اُسے اللہ اس پر ثواب دے گا اور اُسے اپنی جنّت میں داخل کرے گا۔ اور جس نے مال کمایا، اس میں ناجائز طریقے سے، اور اُسے ناجائز جگہ پر صرف کیا، تو اللہ تعالیٰ اُسے ذلّت کے ٹھکانے (جہنّم) میں اُتار دے گا اور بہت سے بے جا خرچ کرنے والے ہیں، اللہ اور رسول ؐ کے مال میں، تو قیامت کے دن اُن کے لیے(جہنّم کی) آگ ہو گی۔‘‘ (سُنن بیہقی)۔اسی طرح رسولِ اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’حلال معیشت کا طلب کرنا، اللہ کے فریضۂ عبادت کے بعد سب سے بڑا فریضہ ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ/باب الکسب و طلب الحلال 2/78)۔

اسلام کسبِ حلال اور تلاشِ روزگار کے لیے محنت، جدّوجہد اور اس کے ذریعے حاصل شدہ معاشی وسائل اور جائز، حلال آمدنی کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس ضمن میں رسولِ اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے۔’’تم میں سے کوئی اپنی پُشت پر لکڑیوں کا گٹّھا اُٹھائے، یہ عمل اُس سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے سوال کرے۔ (نتیجے کے طور پر) کوئی اُسے دے اور کوئی نہ دے۔‘‘ (بخاری / الجامع الصّحیح، کتاب البیوع 1/ 278)۔

اسلام کے فلسفۂ معیشت اور اقتصادی نظام کی ایک نمایاں خصوصیت اور امتیاز یہ ہے کہ اس نے محنت کی عظمت کو اُجاگر کیا اور مزدور و محنت کش طبقے کو پستی کے مقام سے اُٹھا کر قابلِ رشک اور عزّت و عظمت کا مقام عطا فرمایا۔ اسلام کا معاشی نظام اس حقیقت پر یقین رکھتا ہے کہ پیدائشِ دولت اور معاشی ترقّی کی جو بھی صُورت ہو، خواہ زراعت و کاشت کاری ہو یا صنعت و حرفت، ملازمت ہو، یا نجی کاروباری سرگرمیاں، ہر جگہ دو ہاتھ سرگرمِ عمل نظر آتے ہیں، ایک اصل اور دوسرا محنت۔ 

بہرکیف، اسلام ہر مقام پر محنت کی عظمت کا اظہار کرتا نظر آتا اور معاشی سرگرمیوں کو عزّت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں ایسے بے شمار، علما، فقہا، محدّثین، مؤرّخین اور مختلف اسلامی علوم کے ماہرین گزرے ہیں، جو اسلامی اقتصادیات کے مختلف شعبوں اور مختلف تجارتی و کاروباری سرگرمیوں سے تعلّق رکھتے تھے، اُن میں بعض جلیل القدر اور مشاہیر علما، فقہا، محدّثین وغیرہ کا تذکرہ ملتا ہے، جو تدریسی، تصنیفی اور تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مختلف پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے بھی متعلق تھے۔ 

وہ آج بھی اپنی علمی جلالت، قدر و منزلت، عزّت و عظمت کے باوجود اپنی معاشی سرگرمیوں اور پیشوں کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ ایسے بے شمار علما میں امام قُدوری ؒ (ہانڈی بیچنے اور بنانے والے) امام قفّال ؒ (تالے بیچنے اور بنانے والے) امام جصّاص ؒ (پینٹر کا کام کرنے والے) امام صفّار ؒ (برتن فروش) صیدلانی ؒ (عطر فروش) امام دقّاق ؒ (آٹا فروش) نعّال (جوتے فروش) بقّال ؒ (سبزی فروش وغیرہ) علّامہ سمعانی ؒ نے ’’الانساب‘‘ میں، یاقوت الحموی ؒ نے ’’مُعجم البُلدان‘‘ میں ’’اللُّباب فی تحریر الانساب‘‘ میں علّامہ جلال الدین السُّیوطی ؒ نے اور دورِ حاضر میں قاضی اطہر مبارک پوری ؒ نے اپنی کتاب ’’مسلمانوں کے ہر طبقے میں علم و علما‘‘ میں اس سلسلے سے وابستہ علما کا انتہائی تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔

حضرت سعد ؓ مشہور صحابی ہیں، وہ مدینۂ منوّرہ میں آہن گری کے پیشے سے وابستہ تھے، ہتھوڑا چلاتے چلاتے اُن کے ہاتھ سیاہ اور کُھردرے ہوگئے تھے۔ ایک روز رسولِ اکرمﷺ نے دورانِ مصافحہ یا کسی اور ذریعے سے یہ کُھردرا پن محسوس کیا، تو اس کی وجہ دریافت فرمائی۔ حضرت سعدؓ نے عرض کیا، ’’ہتھوڑا چلاتے چلاتے۔ کیوں کہ اس کے ذریعے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے روزی کماتا ہوں۔‘‘ یہ سُن کر رسالت مآبﷺ نے اُن کے ہاتھ چُومتے ہوئے فرمایا۔ ’’یہ وہ ہاتھ ہیں، جن سے اللہ اور اُس کے رسولﷺ محبّت کرتے ہیں۔‘‘ (ابنِ حجر عسقلانیؒ / الاصابہ فی تمییز الصّحابہ، ترجمہ سعدؓ)۔

رسولِ اکرمﷺ کی ان تعلیمات اور ہدایات کے نتیجے میں عہدِ نبویؐ میں کوئی فرد بھی بے کار رہنا پسند نہیں کرتا تھا۔ رسول اللہﷺ نے صحابۂ کرامؓ میں یہ جذبہ پیدا فرما دیا تھا کہ وہ کسی بھی فرد پر اپنا معاشی بار ڈالنا پسند نہیں کرتے تھے۔ چناں چہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب صحابۂ کرام ؓ مکّے سے ہجرت کرکے مدینۂ منوّرہ تشریف لے آئے، تو انصارِ مدینہ ؓ نے رسول اللہﷺ کی خدمتِ اقدس میں یہ تجویز پیش کی کہ آپؐ ہماری جائیداد کو مہاجرین ؓ کے درمیان تقسیم فرمادیں۔ 

یہ سُن کر آپ ؐ نے فرمایا۔’’ نہیں، بلکہ تم مہاجرین ؓ سے یہ کہو کہ ’’تم محنت میں ہمارا تعاون کرو، ہم پیداوار میں تمہیں شریک کرلیں گے۔‘‘ اُنہوں نے کہا کہ ہمیں یہ منظور ہے۔ (بخاری / الجامع الصّحیح)۔ خلیفۂ دوم،حضرت عمرفاروقؓ کایہ فرمان اسلامی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے، جس میں آپ نے فرمایا۔’’جب میں کسی صحت مند اور تن درست آدمی کو دیکھتا ہوں، تو دریافت کرتا ہوں کہ آیا وہ کسی عمل، پیشے وغیرہ سے وابستہ ہے یا نہیں؟ اگر وہ کہتا ہے کہ مَیں بے کار ہوں، تو وہ میری نظر سے گر جاتا ہے۔‘‘ چناں چہ آپ یہ نصیحت فرماتے۔ ’’لاتکونُوا عیالاً علی المسلمین‘‘(ترجمہ) مسلمانوں پر بار نہ بنو۔‘‘

ان تعلیمات سے یہ پتا چلتا ہے کہ اسلام، مسلمانوں کو کسبِ حلال کی تعلیم دیتا اور حصولِ معاش کے لیے معاشی سرگرمیوں اور محنت کی عظمت کو اُجاگر کرتا ہے۔ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ مال و دولت جو جائز اور حلال ذرائع سے کمایا گیا ہو، جس کا مقصد اپنی، اپنے اہل و عیال اور ضرورت مند افراد کی کفالت اور مدد کرنا ہو، یہ محض اللہ کا فضل ہے۔ جسے حاصل کرنے کے لیے ہر جائز کوشش اور جدّوجہد درست ہے۔ ہر مسلمان کو اس معاملے میں آزادی حاصل ہے۔

مزید یہ کہ جائز مقاصد اور محنت کے ذریعے حاصل شدہ مال ودولت اور اس حوالے سے معاشی سرگرمیاں محض دنیوی عمل نہیں، بلکہ یہ بھی گویا اللہ کی راہ میں عبادت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کے برخلاف ایک سوچ اور نظریہ یہ ہے کہ معاشی جدّوجہد،حصولِ رزق کے لیے محنت مشقّت اورکوشش کرنا اسلامی تعلیمات کے منافی عمل ہے، اس لیے کہ اللہ نے اپنے بندوں کو تخلیق کیا ہے، تو رزق بھی وہی دے گا۔ اس کے لیے معاشی جدّوجہد اور محنت، اللہ پر بھروسے اور توکّل کے منافی ہے۔ 

تو اس حوالے سے معروف عرب محقّق اوراسکالر، علّامہ یوسف قرضاوی اپنی کتاب’’مشکلات الفقروکیف عالجہا الاسلام‘‘ میں لکھتے ہیں۔’’اسلام نے بہت پہلے ان غلط نظریات اور باطل خیالات کی جڑیں کاٹ دیں،جن کے ہوتے ہوئے آدمی محنتی اور جفاکش بننے کے بجائے کاہل اور سُست بن جاتا ہے، چناں چہ کچھ لوگوں کو یہ وہم ہو جاتا ہے کہ اُنہیں اللہ پر کامل بھروسا اور توکّل ہے، اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے، تو وہی روزی بھی دے گا۔ خواہ اس کے لیے محنت و مشقّت کی جائے، یا نہ کی جائے۔‘‘

موصوف مزید لکھتے ہیں۔’’اسلام اس قماش کے لوگوں کو ناسمجھ تصوّرکرتا ہے، توکّل اور اللہ پر بھروسا کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی محنت اور اسباب استعمال کرنے سے گریزکرے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے، بلکہ مسلمانوں کا شیوہ یہ ہے کہ وہ اسباب کو کام میں لائیں گے، چناں چہ کھیتی باڑی سے قبل زمین کو درست کریں گے، پھر بیج وغیرہ ڈالیں گے اور بعد ازاں نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں گے۔‘‘اس موقعے پر اسلام میں توکّل کی حقیقت اور اس کی غرض و غایت کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ توکّل درحقیقت ہے کیا؟

علّامہ سیّد سلیمان ندویؒ توکّل کے متعلق لکھتے ہیں۔ ’’توکّل‘‘ قرآنِ کریم کی اصطلاح کا ایک اہم لفظ ہے، بعض لوگ اس کے معنیٰ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کام کے لیے کوشش اور جدّوجہد نہ کی جائے، بلکہ چُپ چاپ ہاتھ پاؤں جوڑ کر کسی حجرے یاخانقاہ میں بیٹھ رہا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ اللہ کو جو کچھ کرنا ہے، وہ خود کرے گا،یعنی تقدیر میں جو کچھ ہے، وہ ہوکر رہے گا، اسباب اور تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن یہ سراسر وہم اور خوش کُن فلسفہ ہے، جس کا اسلام سے قطعاً کوئی تعلّق نہیں۔ 

’’توکّل‘‘ کے لفظی معنیٰ بھروسا کرنے کے ہیں اور اصطلاحِ شریعت میں اللہ پر بھروسا کرنے کو توکّل کہا جاتا ہے، لیکن کس بات پر بھروسا کرنا، کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر۔ بعض افراد نے ترکِ عمل، اسباب و تدابیر سے بے پروائی اور خود کام نہ کرکے دوسروں کے سہارے جینے کا نام توکّل رکھا ہے، حالاں کہ توکّل نام ہے، کسی کام کو پورے عزم و ارادے اور تدبیر و کوشش کے ساتھ انجام دینے اور یہ یقین رکھنے کا، کہ اگر اس کام میں بھلائی ہے، تو اللہ تعالیٰ اس میں ضرور ہمیں کام یاب فرمائے گا۔ (سیّد سلیمان ندوی ؒ / سیرت النّبیؐ 5 / 261)۔

اسی طرح بعض لوگ محنت و مشقّت، معاشی جدّوجہد اور حصولِ رزق کے لیے کام کاج سے بچنے کے لیے اس حدیث کا سہارا لیتے ہیں،جس میں حضورِ اکرمﷺ نے فرمایا۔ (ترجمہ)’’اگر تم اللہ پر بھروسا کرو، تو وہ پرندوں کی طرح تمہیں رزق عطا کرے گا، تم پرندوں کو دیکھتے ہو کہ وہ صبح خالی پیٹ گھونسلوں سے نکلتے ہیں، لیکن شام کو آسودہ ہوکر واپس لوٹتے ہیں۔‘‘(ترمذی / کتاب الزّہد، باب فی التوکّل علی اللہ۔ابنِ ماجہ / السنن، کتاب الزّہد، باب التوکّل و الیقین)۔ 

علاّمہ یوسف قرضاوی اس حدیث کے حوالے سے لکھتے ہیں۔’’توکّل کا غلط مفہوم سمجھنے والے، ان لوگوں کی دانست میں حدیث کا یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اللہ پر توکّل کیا جائے، تو روزی خود بخود مل جاتی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث، ان کے مفروضے کو غلط ثابت کرتی ہے اور حصولِ رزق کے لیے جدّوجہد کرنے کی صاف طور پر دعوت دیتی ہے، اس لیے کہ حدیث یہ بتاتی ہے کہ پرندوں کا شکم سیر واپس لوٹنا،اُسی وقت ممکن ہے، جب کہ وہ رزق کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں اور دن بھر اس کی فکر میں سرگرداں رہتے ہیں۔ 

گویا پرندوں کی یہ بھاگ دوڑ، مسلسل محنت اور کوشش اُن کے لیے حصولِ رزق کا سبب ہے۔‘‘ قرآنِ کریم میں ارشادِ ربّانی ہے۔ ’’اورکام (یا لڑائی) میں ان سے مشورہ لے لو، پھر جب پختہ ارادہ کرلو تو اللہ پر بھروسا رکھو، (توکّل کرو) بے شک، اللہ (توکّل کرنے والوں) بھروسا کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے، اگر اللہ تمہارا مددگار ہو تو کوئی تم پر غالب نہ آسکے گا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو پھر کون ہے، جو اُس کے بعد تمہاری مدد کر سکے اور اللہ ہی پر چاہیے کہ ایمان والے بھروسا رکھیں۔‘‘ (سُورۂ آلِ عمران / 159، 160)۔

ان آیات سے توکّل کی حقیقت پوری طرح واضح ہو گئی کہ ’’توکّل‘‘ بے دست و پائی اور ترکِ عمل کا نام نہیں، بلکہ توکّل یہ ہے کہ پورے عزم و ارادے اور مستعدی سے کام کو انجام دینے کے ساتھ اثر اور نتیجے کو اللہ کے بھروسے پر چھوڑ دیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ اللہ مددگار ہے، تو کوئی ہمیں ناکام نہیں کر سکتا اور وہی نہ چاہے تو کسی کی کوشش و مدد کارآمد نہیں ہوسکتی۔اس لیے ہر بندۂ مومن پر فرض ہے کہ وہ اپنے کام کے ضمن میں اللہ پر بھروسا رکھے۔ 

بہ الفاظِ دیگر اسلام میں توکّل کا مفہوم اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان حصولِ رزق اورکسبِ حلال کے لیے تمام ممکنہ وسائل اور مادّی اسباب و ذرائع اختیار کرے،تمام تدابیر اپنائے اور اللہ تعالیٰ سے حُسنِ عاقبت اور حُسنِ معاملہ کی اُمید رکھے۔ توکّل کے یہ معنیٰ نہیں کہ انسان سُستی، کاہلی اور بے کاری پر کمر باندھ لے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے۔ روزگار کی تلاش اور کسبِ معاش کے لیے محنت، جدّوجہد اور سعی و عمل سے کنارہ کش ہو جائے۔ بے دست و پا ہوکر بیٹھ جائے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ جو کچھ ہوگا، عالمِ غیب سے ہوگا، رزق کے حصول کے لیے تدابیر اور وسائل و ذرائع اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

یہ عمل اور یہ سوچ اسلامی تعلیمات کے قطعی منافی اور اسلام کی حقیقی رُوح کے خلاف ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بھی غربت وافلاس، بے روزگاری اور معاشی بدحالی کی دیگر وجوہ کے علاوہ ایک بڑی وجہ تعلیم یافتہ اور ہُنر مند نوجوان طبقے کی سُستی، کاہلی، محنت و مشقّت سے جی چُرانا اور معاشی جدّوجہد سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہے۔ ورنہ اسلام کا نظریۂ محنت تو ہمہ وقت یہ تعلیم دیتا ہے کہ ؎اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے.....پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔

عہدِ نبویؐ کا واقعہ ہے کہ ایک بدوی نے اپنی اونٹنی مسجدِ نبویؐ کے دروازے پر کُھلی چھوڑدی اور اپنی دانست کے مطابق اللہ پر توکّل کرنا چاہا، تو حضور اکرمﷺ نے فرمایا۔ ’’اعقلھا و توکّل‘‘ (پہلے) اُسے باندھ دو، پھر اللہ پر (توکّل) بھروسا کرو۔(ترمذی / باب حدیث / اعقلھا و توکّل)۔ اس حوالے سے ہمیں ’’تاریخِ تصوّف‘‘ میں ایک حکایت ملتی ہے، جو محنت کی عظمت اور توکّل کی حقیقت سمجھنے کے لیے ایک فکر انگیز اور روشن مثال ہے۔ 

روایت کے مطابق حضرت شقیق بلخیؒ شعبہ تجارت سے وابستہ تھے، وہ ایک موقعے پر تجارت کی غرض سے سفر پر نکلنے سے پہلے اپنے دوست مشہور صُوفی بزرگ حضرت ابراہیم بن ادھم ؒ سے ملنے گئے،اُن کا خیال تھا کہ ممکن ہے، سفر میں مہینوں لگیں۔ پھر نہ جانے کب ملاقات ہو، لیکن توقع کے برخلاف چند روز ہی گزرے تھے کہ شقیق بلخیؒ تجارتی سفر سے واپس آگئے، اگلے روز حضرت ابراہیم بن ادھم ؒ نے اُنہیں مسجد میں دیکھا، تو حیرت سے کہا۔ ’’کیوں شقیق، اتنی جلدی واپس لوٹ آئے؟‘‘ شقیق بلخی ؒ نے جواب دیا۔ ’’کیا عرض کروں،راستے میں، مَیں نے ایک حیرت انگیز منظر دیکھا اور وہیں سے اُلٹے پاؤں واپس لوٹ آیا۔ 

ہُوا یُوں کہ میں نے نسبتاً ایک غیر آباد جگہ، تھکن دور کرنے کے لیے پڑاؤ ڈالا، جہاں ایک پرندے کو دیکھا، جو بینائی اور قوّتِ بازو سے یک سر محروم تھا، معاً مجھے یہ خیال آیا کہ ایسی دور افتادہ جگہ اور مقام پر بھلا اس بے چارے پرندے کی گزر بسر کیسے ہوتی ہوگی؟مَیں ابھی اسی سوچ میں مستغرق تھا کہ میں نے ایک دوسرے پرندے کو دیکھا، جس کی چونچ میں کوئی چیز دبی ہوئی تھی۔ 

اُس نے آتے ہی وہ چیز اس معذور پرندے کے آگے ڈالی اور چلا گیا،اس طرح اس پرندے نے کئی پھیرے کیے اور بالآخر معذور پرندے کا پیٹ بھر گیا، یہ دیکھ کر مَیں نے سوچا، سُبحان اللہ۔ اللہ جب ایسی دُور افتادہ جگہ اور ایسی حالت میں رزق پہنچا سکتا ہے، تو مجھے اس طرح قریہ قریہ گھومنے اور بھٹکنے کی کیا ضرورت ہے؟چناں چہ مَیں نے اپنا تجارتی سفرختم کیا اور گھر کی راہ لی۔‘‘

یہ سُن کر حضرت ابراہیم بن ادھمؒ نے کہا۔ ’’شقیق،تمہارے اس طرح سوچنے پر مجھے سخت افسوس ہُوا، آخر تم نے اُس اپاہج پرندے کی طرح بننا کیوں پسند کیا،جس کی زندگی دوسروں کے ٹکڑوں پر کٹ رہی ہے، تم نے یہ کیوں نہ چاہا کہ تمہاری مثال اُس پرندے کی سی ہو، جو اپنا پیٹ بھی پالتا ہے اور دوسروں کا پیٹ پالنے کے لیے بھی کوشاں رہتا ہے، کیا تم (یہ فرمانِ نبیؐ) بُھول گئے کہ ’’اُوپر والا ہاتھ (دینے والا ہاتھ) نیچے والے (لینے والے) ہاتھ سے بدرجہا بہتر ہے۔‘‘ حضرت شقیق بلخی ؒ نے یہ سُنا، تو بے اختیار اپنی جگہ سے اُٹھے، حضرت ابراہیم بن ادھمؒ کا ہاتھ چُوما اور کہا۔ ’’اے ابو اسحاق! آپ نے میری آنکھیں کھول دیں۔‘‘ اور پھر اگلے دن سے حصولِ رزق کے لیے دوبارہ تجارت شروع کردی۔

ان تعلیمات سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ’’توکّل‘‘ ترکِ عمل اور ترکِ تدبیر کا نام نہیں، بلکہ عملِ پیہم، جُہدِ مسلسل اور تدابیر اختیار کرنے کے بعد حصولِ رزق اور تلاشِ معاش کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لاکر ’’توکّل‘‘ کرنا، درحقیقت توکّل ہے۔