• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چرچل سے ایک قول منسوب کیا جاتا ہے کہ ’جمہوریت کے خلاف بہترین دلائل جمع کرنے ہوں تو فقط پانچ منٹ کسی اوسط درجے کے ووٹر سے گفتگو کرکے دیکھ لیں۔ ‘بظاہر اِس بات میں بہت وزن ہے، خاص طور سے نام نہاد پڑھے لکھے بابو تو اِس دلیل کی بنیاد پر جمہوریت کو روزانہ گالیوں سے نوازتے ہیں کہ ہمارے جیسے ملکوں میں جاہل ووٹر بریانی کی ایک پلیٹ پر ووٹ بیچ آتے ہیں۔ اِس کلاس کا اپنے بارے میں خیال ہے کہ صرف انہی کا ووٹ گنا جانا چاہیے کیونکہ ان پڑھ لوگوں کواپنی جہالت کی وجہ سے اندازہ ہی نہیں ہوپاتا کہ کس طرح اُن کا ووٹ اِس ملک کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ اِس کلاس کی کلاس بعد میں لیں گے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی ان پڑھ اور پڑھے لکھے لوگوں کے سیاسی شعور میں کوئی فرق ہوتا ہے ؟کیا سیاہ چشمہ لگا کر، ہاتھ میں منرل واٹر کی بوتل پکڑ کر اور پسینے کو ٹشو پیپر سے پونچھ کر ’اوہ مائی گاڈ، اٹس سو ہاٹ‘ کہتا ہوا شخص اُس غریب آدمی کے مقابلے میں زیادہ با شعور ہے جودھوتی بنیان پہن کر اپنے کھیت میں ہل چلاتا ہے ؟

ایک امریکی لکھاری ہے، نام ہے برائن کیپلن، بنیادی طور پر معاشیات کا پروفیسرہے، اُس نے ایک کتاب لکھی ’The Myth of the Rational Voter‘۔اِس کتاب میں پروفیسر نے بڑی دلچسپ بات لکھی، اُس نے کہا کہ عام طور سے ہم سمجھتے ہیں کہ جمہوریت میں اگر لوگوں کی اکثریت کسی احمقانہ بات پر متفق ہوجائے تو اسے تسلیم کرناپڑتا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا، جب پورا معاشرہ کسی جمہوری عمل میں اپنے ووٹ کا استعمال کرتا ہے تو ہر قسم کے انتہا پسندانہ رجحانات کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ اِس کی مثال اُس نے یوں دی کہ فرض کریں کہ ایک گلاس میں مٹر کے دانے ہوں اور لوگوں سے پوچھا جائے کہ گلاس کا کتنے فیصد حصہ ان دانوں سے بھرا ہوا ہے تو کچھ لوگ یقیناً مبالغہ آرائی سے کام لے کر جواب دیں گے لیکن بالآخر جب تمام ’ووٹرز‘ کی رائے کو جمع کیا جائے گا تو لا محالہ نتیجہ حقیقت کے قریب ہی نکلے گا، وجہ اِس کی یہ ہوگی کہ انتہاپسندانہ رجحانات ایک دوسرے کو رَد کر دیں گے اور یوں ہمارے سامنے ایک ایسا جواب آ جائے گا جو لگ بھگ درست ہی ہوگا۔ اس مثال کو وہ انتخابات پر منطبق کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک اوسط درجے کا ووٹر سیاسی معاملات کی گہرائی میں پڑتال کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا مگر جب بڑے پیمانے کے انتخابی عمل میں متضاد رائے رکھنے والے لاکھوں کروڑوں لوگ ووٹ ڈالتے ہیں تو حتمی نتیجے میں وہ اجتماعی رائے عموماً درست ہی نکلتی ہے کیونکہ انتہاپسندانہ رجحان رکھنے والے اور کم فہم ووٹر ایک دوسرے کی نفی کر دیتے ہیں اور یوں معاشرے کی اجتماعی دانش سامنے آجاتی ہے جو کسی حد تک متوازن اور حقائق کے قریب تر ہوتی ہے۔پروفیسر نے اسے Miracle of Aggregationیعنی ’اکثریت کا معجزہ ‘ کہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دراصل یہی جمہوریت کی خوبصورتی ہے کہ کچھ لوگ اگرنا معقولیت کی بنا پر رائے دے بھی دیں تو فرق نہیں پڑتا کہ بالآخر اجتماعی دانش نے ہی غالب آنا ہوتاہے۔

لیکن بات اتنی سادہ بھی نہیں۔ اکثریت کا معجزہ یقیناً انتخابات میں کرشمہ دکھاتا ہے مگر یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب سوسائٹی میں مختلف الرائے لوگ موجود ہوں، معاشرے کی اکثریت اگرکسی تعصب کا شکار ہوکررائے قائم کرنا شروع کردے تو پھر اجتماعی دانش بھی درست نتیجہ نہیں دیتی۔ اگر گلاس میں موجود مٹر کے دانوں کی تعداد کو کسی پروپیگنڈا کے تحت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے اور لوگوں کی اکثریت اُس پروپیگنڈا کے زیر اثر ہو تو پھر سامنے نظر آنے والی حقیقت بھی تعصب کے پردے میں چھپ جاتی ہے۔ پروفیسر کپلن نے ایک اور پتے کی بات بھی کی۔ اُس نے کہا کہ عام طور سے یہ سمجھاجاتا ہے کہ ووٹر کو اپنے ذاتی مفاد سے بالا تر ہوکر سوچنا چاہیے اور پورے ملک کی عمومی صورتحال کو سامنے رکھ کر ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اپنے ووٹ کااستعمال کرنا چاہیے۔یہ ایک مغالطہ ہے۔ پروفیسر کا کہنا ہے کہ ووٹر کو خود غرض ہونا چاہیے، ووٹر اگر اپنے ذاتی فائدے کےلیے سوچے گا تو لا محالہ وہ زیادہ معلومات اکٹھی کرے گا جس کے نتیجے میں اُس کا فیصلہ زیادہ بہتر ہوگا اور یہ عمل جمہوریت کے لیے بھی سود مند ہوگا۔

ہم نے دراصل یہ فرض کر لیاہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک لوگ تعلیم یافتہ نہ ہوجائیں۔ یہ دلیل کھوکھلی ہے کیونکہ جو طبقہ یہ دلیل دیتا ہے وہ دراصل یہ سمجھتا ہے کہ اُس نے یہ طے کرنا ہے کہ آیا معاشرے کے عام آدمی میں وہ سیاسی شعور پیدا ہوا یا نہیں جس کی بنیاد پر اسے ووٹ دینے کا اہل قرار دیا جائے۔ یہ اِس ایلیٹ طبقے کا تکبر ہے۔دراصل یہ لوگ ملک کے اصل مجرم ہیں، اِن میں کروڑ پتی، ارب پتی لوگ شامل ہیں، ٹائی لگا کر ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ملازمت کرنے والے شامل ہیں اور وہ کلاس بھی ہے جو اِس ملک کی ناکامی کی براہ راست ذمہ دار ہے، اِن لوگوں کا ضمیر انہیں صبح شام ملامت کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طور سے ہم اِس ملک کی بربادی کے ذمہ دار ہیں، لہٰذا جب انہیں کوئی موقع ملتا ہے تو یہ اپنے ’ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر‘ کبھی مذہب کی آڑ لیتے ہیں، کبھی مہا محب وطن بننے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی جذباتی نعروں کے پیچھے چھپ کر خود کو دلاسہ دیتے ہیں کہ دیکھو میں تو اِس ملک میں انقلاب لانے والوں کے ساتھ کھڑا ہوں جبکہ اصل انقلاب خود اِن کے خلاف آنا چاہیے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ایک وقت کے کھانے کا بِل پچاس ہزار روپے ہے لہٰذا انہیں اِس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ ٹماٹر کتنے روپے کلو ہو گیا اور کوکنگ آئل کی قیمت میں کتنے گنا اضافہ ہوا۔ انہیں بس ایک نعرہ چاہیے تاکہ رات کوجب اِن کا ضمیر سوتے وقت اِن کی پیٹھ پر کوڑے برسائے تو یہ اُس نعرے کی آڑ میں اپنا دفاع کرکے سکون کی نیند سو سکیں۔ اصل مسئلہ جمہوریت نہیں، اِس کلاس کی بے خوابی ہے!

تازہ ترین