• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زوال ہمہ گیر ہوتا ہے، ایک سیلِ تُند رو جو کوہ و بیاباں پہ پھیل جاتا ہے، آگے پیچھے، ایک ایک کر کے سب کچھ ڈوب جاتا ہے، کواڑ بھیڑ لینے سے سیلاب ٹلا نہیں کرتا، زوال درزوں سے اندر آ جاتا ہے، تریڑوں کو شگاف بناتا ہوا، جھریوں کو پھاڑتا ہوا۔ کچھ ایسا ہی منظر ہم اپنے درمیان دیکھ رہے ہیں۔ شہزاد احمد نے کہا تھا ’بہا کر لے گیا سیلاب سب کچھ، فقط آنکھوں کی ویرانی بچی ہے‘۔ کہاں سے آیا ہے یہ سیلاب؟ ٹوئن بی فرماتے ہیں تہذیبوں کو کوئی قتل نہیں کرتا، تہذیبیں خود کُشی کرتی ہیں۔ ہمارا بھی یہی معاملہ ہے، اگر ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارے خلاف کون سازش کر رہا ہے تو ہمیں بےنقاب ہو کر آئینہ دیکھنا ہوگا، سازش کا مرکزی کردار پکڑا جائے گا، پوری سازش پکڑی جائے گی۔

اگر آپ کسی شخص کی اندھی عقیدت میں مبتلا ہیں تو میں آپ ہی سے مخاطب ہوں، بےبصارت وابستگی کا معنی یہ ہوتا ہے کہ آپ کا ضمیر اچھائی اور بُرائی کا فیصلہ اُس شخص کی جنبشِ ابرو کے تحت کرتا ہے، مذاہب کی اساس تو یہی قابلِ فہم عقیدت و وابستگی ہے لیکن سیاست میں کسی شخص کو اس مسند پر سرفراز کر دینا اپنے ضمیر کو گروی رکھنا ہے، معصوم عنِ الخطا تو پیغمبر ہوتے ہیں اور اب تو پیمبر بھی نہیں آتے۔ بازارِ سیاست میں تو ہمیشہ سے آپ کے، میرے جیسے لوگ آتے ہیں یعنی خوبیوں اور خامیوں کا مرقع، اگرآپ کو لگتا ہے کہ ایک سیاست دان بہ طور حکم ران آپ کی ذاتی اور اجتماعی زندگی پر زیادہ مثبت اثرات ڈال سکتا ہے تو آپ انتخابات میں اسے دوسرے سیاست دانوں پرترجیح دیتے ہیں۔بس، اس سے زیادہ کچھ نہیں، اب اس میں اندھی عقیدت، اندھی وابستگی، اندھی تقلید کہاں سے آ گئی؟

مثلاً، نواز شریف کے حامیوں کو پوچھنا چاہئے تھا کہ میاں صاحب آپ کالا کوٹ پہن کر میمو گیٹ کے موقع پر عدالت کیا لینے گئے تھے؟زرداری صاحب سے جیالوں کو ضرور استفسار کرنا چاہئے تھا کہ آپ نے کس ذہنی حالت میں یہ فرمایا تھا کہ ’معاہدہ کوئی حدیث تو نہیں ہوتی‘۔ بلکہ آج کے دن بھی باپ وزیرِ اعظم اور بیٹا وزیرِ اعلیٰ پر لیگی دوستوں کو سوال اٹھانا چاہیے۔ یاد رکھیے کہ سیاست دان پر سب سے بڑا دبائو اس کے مخالفین کی رائے کا نہیں بلکہ اس کے حامیوں کی آراکا ہوتا ہے، آپ چاہیں تو ان ’خدائوں‘ کو انسان بنا سکتے ہیں۔

آپ اگریہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان جوہری طور پر غلطی کرنے کا اہل ہی نہیں ہے توآپ خود غلطی پر ہیں، اگر آپ توشہ خانہ کے تحائف کے حوالے سے عمران خان کے رویے کا دفاع کر رہے ہیں توآپ غلطی پر ہیں، آپ تحائف کی خرید و فروخت پر عمران خان پہ تنقید کرنے کے باوجود سیاسی طور پران کا ساتھ دے سکتے ہیں، ایک آدھ غلطی سے درگزر بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ سیاسی وابستگی کا چنائو بہت سے عوامل دیکھ کر، حریفوں سے موازنے کے بعد کیا جا تا ہے، لیکن اگر آپ بہ ضد ہیں کہ عمران خان نے غیر ملکی سربراہان سے بہ طور وزیرِ اعظم پاکستان جو تحائف وصول کئے انہیں بازار میں بیچ کر شخصی غیرت اور قومی حمیت کا علم بلند کیا ہے تویقین مانیے آپ کو تھراپی کی ضرورت ہے۔

عمران خان اور ان کی اہلیہ کو ان پونے چار برسوں میں 112تحائف ملے اور انہوں نے سب کے سب تحفے اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا، ان میں مہنگی گھڑیوں سے لے کر ہیرے کے زیورات تک بہت کچھ شامل تھا، ان اشیاء کی قیمت 14کروڑ سے زیادہ (مارکیٹ سے بہت کم) لگائی گئی اور پھرچار کروڑ سے کچھ کم رقم ادا کر کے ان کی ملکیت حاصل کی گئی۔ یہاں تک کے قصے میں اخلاقی سقم تو ڈھونڈے جا سکتے ہیں لیکن شاید کوئی غیر قانونی بات تلاش نہیں کی جا سکتی (ویسے یاد رہے کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری پر مارکیٹ ویلیو سے کم قیمت پر گاڑیاں خریدنے کے الزام پر توشہ خانہ ریفرنس بنایا گیا تھا)۔ اب خان صاحب کا قصہ آگے سنیے۔ مرد و خاتونِ اول نے تین سال تک یہ تحائف ٹیکس کے اداروں سے چھپائے، کچھ تحائف جن میں انتہائی مہنگی گاڑیاں اور سونے کی ایک رائفل شامل ہے، آج تک ڈکلیئر نہیں کئے۔ چلیے، حُبِ عمران میں ہم یہ سب بھی در گزر کر دیتے ہیں لیکن آئیے اب اس سارے قضیے کے سب سے دل خراش پہلو کی طرف۔

سابق وزیرِاعظم کو 18ستمبر 2018کو ایک ساڑھے آٹھ کروڑ کی گھڑی تحفے میں ملی، جو انہوں نے 20فیصد رقم ادا کر کے رکھ لی، کسی نشانی یا قومی تفاخر یا گھڑیوں کے کلکٹر کے طور پر نہیں، بلکہ ایک کاروباری مقصد کے تحت، منافع کمانے کے لیے،اور پھر آپ نے وہ گھڑی بیچ کر منافع کما بھی لیا، لیکن اس مرتبہ ستارالعیوب نے آپ کا پردہ رکھنا مناسب نہ سمجھا اور تحفہ دینے والے کو بھی آپ کی اس حرکت کا علم ہو گیا۔ آپ نے بہت گھاٹے کا سودا کیا، آپ نے اپنی خودداری کو آگ لگا دی، آپ نے قومی غیرت کا جنازہ نکال دیا، آپ نے ہم سب کو ایک عالم میں رسوا کر دیا، آپ صرف پی ٹی آئی کے وزیراعظم تو نہیں تھے، آپ تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیرِاعظم تھے، آپ نے 22کروڑ لوگوں کو شرمندہ کروا دیا۔ سیاست تو چلتی رہتی ہے، سیاست دانوں پر الزام تو لگتے رہتے ہیں، لیکن ایسا الزام تو کبھی ان پر بھی نہیں لگا جنہیں آپ ’چور‘ کہتے ہیں، پاکستان کے 23وزرائے اعظم میں سے کسی ایک پر بھی اس نوع کی تحفہ فروشی کا الزام نہیں لگا۔ یہ آپ نے بہت بُرا کیا خان صاحب، یہ آپ نے بہت بُرا کیا!

یہ ایک ناقابلِ دفاع حرکت ہے، لیکن عمران خان اس کا بھی جواز پیش کر رہے ہیں، فرماتے ہیں کہ فوجیوں کو بھی سستے پلاٹ ملتے ہیں جو وہ مہنگے داموں بیچ دیتے ہیں۔خان صاحب کوئی خدا کا خوف کریں، فوجیوں کو پلاٹ کوئی دوسرا ملک دیتا ہے؟ ان کے پلاٹ بیچنے سے کیا ہمیں عالمی رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ حد ہو گئی!

تو میں کہہ یہ رہا تھا کہ بےشک عمران خان کے مداحین اپنے کپتان کے ساتھ کھڑے ہوں، یہ ان کا جمہوری حق ہے، مگر اس حرکت کا دفاع نہ کیجیے کیوں کہ یہ فقط ایک گھڑی فروشی کا واقعہ نہیں ہے، یہ ایک قومی سانحہ ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین