رمیثہ نوین محسن
عِلم، عظمت ِانسانی کا سبب اور ایک ایسی شمع ہے، جس کی بدولت انسان کو دیگر مخلوقات پر فوقیت اور برتری حاصل ہے۔ انسانی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پتا چلتا ہے کہ قوموں نے علم کی بدولت ہی ترقی حاصل کی۔ علوم میں ہر طرح کے علم شامل ہوتے ہیں اور ہر ایک کی اپنی اہمیت ہے، لیکن انسان اپنی عملی زندگی کو بہتر اور آسان بنانے کے لیے جن علوم کا سہارا لیتا ہے، اُن میں معاشرتی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم زیادہ معاون و مددگارثابت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن قوموں نے سائنسی علوم پر انحصار کیا، ترقی و کام رانی اُن کا مقدر ٹھہری۔
تاریخِ انسانی کا وہ زمانہ کہ جب دنیا تہذیبی لحاظ سے ترقی یافتہ تو دُور کی بات، علم سے بھی نا بلد تھی، تواُس وقت بھی مسلمان تہذیبی اور علمی اعتبار سے اس قدر ترقی یافتہ تھے کہ کوئی قوم اُن کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اُس دور میں مسلمانوں کو دوسری قوموں کے مقابلے میں جو عظمت و برتری حاصل ہوئی، وہ مسلمان مفکّرین، علماء اور سائنس دانوں ہی کی وجہ سے ہوئی۔ علمِ انسانی کی تاریخ میں سائنسی علوم عالمی سطح پر سب سے پہلے مسلمانوں ہی نے نہ صرف متعارف کروائے، بلکہ سائنسی نظریات اور تجربات کے ذریعے انسانی معاشروں کو اس کے فوائد سے روشناس بھی کروایا۔
دوسری صدی عیسوی تک پوری دنیا میں علمی، سائنسی اور فکری حوالے سے کوئی اہم شخصیت پیدا نہ ہوئی تھی، ایسے میں علمی میدان میں چھائی تاریکی میں روشن ہونے والی پہلی شمع جابر بن حیان ہی کی تھی، جن کی آمد کے بعدگیارہویں صدی تک مسلمان سائنس دانوں اور مفکّرین کا دنیا بھر میں غلبہ رہا۔ یہ مسلمان مفکرین اور سائنس دان ہی تھے، جنھوں نے عالمی سطح پر علم و آگہی اور ترقی کی بنیاد رکھی، نئے نئے سائنسی علوم متعارف کروائے۔ ان ہی مسلم سائنس دانوں کی تحقیق و تجربے کی روشنی میں طبّی سائنس اور طبیعاتی علوم فروغ پائے، خاص طور پر علمِ کیمیا میں تو مسلمانوں نے انقلاب ہی برپا کردیا۔
علمِ کیمیا، سائنسی علوم میں اپنی خاص اہمیت رکھتا ہے، نام وَر مسلمان سائنس دان اور انسانی تاریخ کے پہلے باضابطہ کیمیا دان، جابر بن حیان کی کوششوں کی وجہ سے ایک باقاعدہ علم کے طور پر متعارف ہوا اور اُن کی محنت، قابلیت، دل چسپی اور تجربات کی وجہ سے علمِ کیمیا نے ایک باقاعدہ اور ترقی یافتہ جدید علم کی حیثیت حاصل کی۔ وہ اوّلین دور کے عربی زبان اور علمِ کیمیا کے ممتاز ماہرین میں سے تھے۔ ’’الکیمیا ‘‘اگرچہ عربی زبان کا لفظ ہے، تاہم دل چسپ امر یہ ہے کہ مغرب نے یہ علم براہِ راست عربوں سے سیکھا۔ جابر بن حیان عربی علمِ کیمیا کے باوا آدم اور زمانہ ٔ وسطی کے عظیم ترین کیمیا دان شمار کیے جاتے ہیں۔ مشہور مؤ رخ، جارج سارئن کے مطابق،’’ سائنس کی تاریخ میں جابر بن حیان ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے اور اُن کے کارنامے، اُن کی عظمت کا سبب ہیں۔ وہ دنیائے اسلام کے مشہور ترین کیمیا دان تھے، جو کیمیاوی رموزاور حقائق کا وسیع تجرباتی علم رکھتے تھے ۔‘‘
جابر بن حیان کا پورا نام ابو موسیٰ جابر ابنِ حیان تھا، تاہم صوفی کے لقب سےبھی پُکارے جاتے تھے، جب کہ مغربی دنیا میں جیبر(Geber) کے نام سے مشہور تھے۔ وہ برمکی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ جب اس خاندان کو ہارون الرشید کے زمانے میں عروج حاصل ہوا، تو انھیں وزارت کے منصب پر فائز کردیا گیا۔ کچھ عرصے بعد جب برمکی خاندان کا زوال ہوا، تو لامحالہ اس کا اثر اُن پر بھی پڑا اور تبدیلیِ حکومت کے نتیجے میں انھیں کوفہ میں قید کردیا گیا، جہاں اسیری کے دوران 806ء میں اُن کا انتقال ہوا۔ جابر بن حیان کے والد ایک عطّار تھے، وہ مختلف خوشبو ئیں اورعطر بنا کر فروخت کرتے تھے۔ یہیں سے انھیں علمِ کیمیا سے دل چسپی پیدا ہوئی۔
اگرچہ انھیں طب وحکمت سے بھی دل چسپی تھی، جسے پیشے کے طور پر اختیار کرلیا تھا، لیکن بعد میں علمِ کیمیا ہی کے ہوکر رہ گئے۔ علمِ کیمیا سے اُن کی لگن اور دل چسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ رات دن اس کے مطالعے اور تحقیق میں مصروف رہتے، جو کچھ پڑھتے یا تحقیق کرتے اُسے کتابی شکل میں محفوظ کرلیتے، اس طرح رفتہ رفتہ اُنھوں نے ایک سو سے زائد کتب تخلیق کر ڈالیں۔ اُن میں سے22 کتب علمِ کیمیا سے متعلق ہیں۔ اُن کی مشہور کتاب ’’الکیمیا‘‘ کا لاطینی سمیت متعدد یورپی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ جب کہ اُن کے ستّر لیکچرز پر مبنی کتاب ’’السبعین‘‘ کا لاطینی زبان میں ترجمہ جیراڈ آف کرپھونا نے کیا۔
علاوہ ازیں، جدید کیمسٹری کی ترقی کے حوالے سے بھی اُن کی تصانیف کا ایک بڑا حصّہ کیمیا سے متعلق ہے، جس میں ان کے وضع کردہ بہت سے الفاظ اور اصطلاحات مختلف یورپی زبانوں میں اب تک رائج اور جدید کیمسٹری کا حصّہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی مصنّفین جابر کو کیمیاوی مرکّبات کا موجد اور خالق قرار دیتے ہیں۔ فرانس کے معروف ماہرطبعیات، لیبان ((Le.Bonجابر بن حیان کے بارے میں لکھتے ہیں، ’’جابر بن حیان وہ پہلے ماہر کیمیا ہیں، جنھوں نے عملِ تقطیراور تدویتِ تحویل کو بیان کیا۔ ‘‘جابر نے اپنی کیمیا کی کتب میں فولاد بنانے، چمڑے کو رنگنے، دھاتوں کو مصفّی کرنے، خضاب تیار کرنے، موم جامہ بنانے (یعنی وہ کپڑا جس پر پانی اور دیگر رطوبات کا اثر نہ ہو)، لوہے کو زنگ سے بچانے کے لیے اس پر وارنش کرنے اور اس قسم کی بیسیوں مفید اشیاء بنانے کے طریقے بیان کیے۔
ان اشیاء کی تیاری موجودہ زمانے میں بھی کافی مشکل سمجھی جاتی ہے اور اسے سر انجام دینے کے لیے فنی مہارت بھی درکار ہوتی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ایسے زمانے میں جب کیمیا کا علم موجود ہ زمانے کی بہ نسبت کافی محدود تھا، جابر کا ان تمام کار آمد اشیاء کا تیار کر لینا صنعتی کیمیا میں ان کے اعلیٰ علم اور بے مثل فنی مہارت کی کتنی بڑی دلیل ہے۔ ایک جگہ وہ خود لکھتے ہیں، ’’کیمیا میں سب سے ضروری شے تجربہ ہے، جو شخص اپنے علم کی بنیاد تجربے پر نہیں رکھتا، وہ ہمیشہ غلطی کرتا ہے۔ پس، اگر تم کیمیا کا صحیح علم حاصل کرنا چاہتے ہو، تو تجربوں پر انحصار کرو اور صرف اسی علم کو صحیح جانو، جو تجربے سے ثابت ہوجائے۔ ایک کیمیا داں کی عظمت اس بات میں نہیں ہے کہ اس نے کیا کچھ پڑھا ہے، بلکہ اس میں ہے کہ اس نے کیا کچھ تجربے کے ذریعے ثابت کیا ہے ۔‘‘
آلاتِ کیمیا میں ’’قرع انبیق‘‘ (Distillation Apparatus) جابر کی خاص ایجاد ہے، جس سے کشید کرنے، عرق، سَت یا جوہر نکالنے کا کام لیا جاتا ہے۔ یہ آلہ الگ الگ برتنوں پر مشتمل ہوتا تھا، جن میں سے ایک کو’’قرع‘‘ اور دوسرے کو’’ انبیق‘‘ کہتے تھے۔ ’’قرع‘‘ صراحی کی شکل کا ،جب کہ’’ انبیق‘‘ بھبکے کی شکل کا ہوتا تھا، جس کے پہلو میں ایک لمبی نالی لگی ہوتی تھی۔’’ قرع‘‘ اور ’’انبیق‘‘ دونوں عمدہ چکنی مٹّی کے بنائے جاتے تھے اور انہیں خاص طریقوں سے پکایا جاتا تھا۔ یہ آج بھی مستعمل ہے۔ اس آلے کے ذریعے عرق کشید کرکے جڑی بوٹیوں کے لطیف اجزاء حاصل ہوتے ہیں اور ان کے اثرات بھی محفوظ رہتے ہیں۔
قرع انبیق کی مدد سے جابر نے اپنے پہلے قابلِ ذکر تجربے میں پھٹکری (Alum) ہیراکسیس (Ferrous Sulphate) اور قلمی شورے (Nitre) کو گرم کر کے شورے کا تیزاب بنایا، جب کہ دوسرے تجربے میں تین اشیاء میں سے قلمی شورے کو خارج کردیا اور صرف پھٹکری اور ہیرا کسیس کو حرارت پہنچا کر ہراکسیس کا تیل حاصل کیا، جسے موجودہ زمانے میں گندھک کا تیزاب (سلفیورک ایسڈ) کہتے ہیں۔ مگر اپنے تیسرے کام یاب تجربے میں انہوں نے ان اشیا یعنی پھٹکری، ہیرا کسیس اور قلمی شورے میں ایک چوتھی چیز نو شادرکا اضافہ کیا اور ان چاروں اشیاء کو ’’قرع انبیق‘‘ میں حرارت پہنچا کر ایک نیا تیزاب حاصل کیا، جس کا نام ماء الملوک (Aqua Regina) رکھا۔لفظ ’’نوشادر‘‘ کا اضافہ عربی زبان میں پہلی بار جابر کی کتابوں میں دیکھا گیا۔ ان کے اس ایجاد کے بعد ہی سے کشید کا عمل، یعنی عرق نکالنے، سَت یا جوہر بنانے کا کام آسان ہوا۔
تاہم، اگر ان کے علم کے بنیادی اصول کی بات کی جائے، تو وہ بلاشبہ میزان ( توازن) ہے ۔ انھوں نے میزان کے بہت سے طریقے دریافت کیے۔ دراصل، میزان کے دو مختلف عناصر وزن کے لحاظ سے خاص نسبت رکھتے ہیں۔ جس سے دو عناصر مل کر نیا مرکّب تیار کرتے ہیں۔ اس مرکّب کی خاصیت اپنے اصل عناصر سے بالکل مختلف ہوتی ہے اور مرکّب کو چاہے کسی بھی طبعی شکل پر رکھا جائے، اس میں دونوں عناصر کے اجزا ہمیشہ اسی نسبت سے موجود ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے جابر کا خیال تھا کہ تانبے اور لوہے کو کچھ کیمیاوی اجزاء کی آمیزش سے سونے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ وہ کیمیا کے تمام تجرباتی عمل مثلاً حل کرنا، فلٹر کرنا، کشید کرنا، عملِ تصعید سے اشیاء کا جوہر اڑانا اور قلمائو کے ذریعے اشیاء کی قلمیں وغیرہ بنانے کے عمل سے واقف تھے۔ یہی وجہ ہےکہ کیمیاوی اجزاء کی آمیزش سے سونا بنانےکی کوشش اور تجربے میں انھیں خاطر خواہ کام یابی ہوئی اور انھوں نے بڑی مقدار میں سونا تیار بھی کیا۔ ان کے انتقال کے دو سو سال بعدجب شہرِکوفہ کی ایک سڑک تعمیر کرنے کے سلسلے میں ان کے تجربہ گاہ کی کھدائی کی گئی، تو بڑی مقدار میں سونا برآمد بھی ہوا۔
جابر نے دھاتوں کی تین قسمیں بیان کی ہیں،1۔اسپرٹ (sprit) یعنی وہ اشیاء جو گرم کرنے پر اُڑ جائیں، مثلاً کافور، آرسینک، نوشادر۔ 2۔دھاتیں، مثلاً سونا، چاندی، سکّہ، تانبا اور لوہا۔ 3۔وہ اشیاء جنھیں ٹھوس حالت سے سفوف میں تبدیل کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ اُن کی اہم دریافت شورے کا تیزاب اور اس سے تیار کیا ہوا ایک اور تیز ایسڈ بھی ہے، جو سونے سے ملاوٹیں دُور کرتا ہے۔ دھاتوں کے متعلق جابر کا نظریہ تھا کہ تمام دھاتیں گندھک (Sulpher) اور پارے (Mercury) سے بنی ہیں۔ جب دونوں اشیاء خاص حالت میں ایک دوسرے کے ساتھ کیمیاوی طور پر ملتی ہیں، تو سونا بنتا ہے، لیکن جب ناقص طور پر ملتی ہیں، تو دیگر کثافتوں کی موجودگی اور اُن کی مقدار کی کمی بیشی سے دوسری دھاتوں مثلاً چاندی، تانبے اور لوہے وغیرہ میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
عملِ تکلس، جس سے عام طور پر کُشتہ بنانا مراد ہوتی ہے، اس میں ایک دھات کو گرم کرکے آکسائڈ تیار کیا جاتا ہے۔ جابربن حیان اس عمل سے واقف تھے، انھوں نے اپنی ایک کتاب میں دھاتوں کے مرکّبات یعنی کُشتہ بنانے کے عمل کو وضاحت سے بیان کیا ہے۔ ان کی کئی تصانیف میں فولاد تیار کرنے، چمڑا رنگنے، واٹر پروف کپڑے پر وارنش، لوہے کو زنگ سے محفوظ رکھنے، شیشہ سازی میں مینگنیزڈی آکسائڈ ((Manganese dioxide کے استعمال اور دھاتوں کو آلائشوں سے پاک کرنے کے طریقے ملتے ہیں۔ سائٹرک ایسڈ، ست، ایسٹک ایسڈ یعنی سرکہ اور ٹارٹرک ایسڈ، جابر بن حیان ہی نے تیار کیے تھے۔
معدنی نمک کی دریافت بھی اُن ہی کا کارنامہ ہے۔ مزید برآں، انھوں نے اپنی تصانیف میں بہت سے کیمیاوی مرکّبات کی تشریح بھی کی، جن میں سلفائڈ، پارہ اور آرسینک آکسائڈ شامل ہیں،جب کہ وہ خالص گندھک کے تیزاب، توتیا پھٹکری بنانے کے طریقوں سے بھی پوری طرح واقف تھے۔ یہی نہیں، وہ گندھک کا تیزاب اور نائٹرک ایسڈ بنانے اور سونے اور چاندی کو تیزاب سے حل کرنا بھی جانتے تھے۔ انھیں تبخیر، تعقید، تقطیر، کشید، قلم پذیری اور پگھلانے کے طریقوں میںبھی خاصی بہتری لانے کا اعزاز حاصل ہے۔
جابر بن حیان نے علمِ کیمیا میں ارسطو کے بیش تر نظریات میں ترمیم اور تصحیح بھی کی۔ ان کے نظریات میں اٹھارہویں صدی عیسوی تک یاجدید کیمسٹری کی ابتدا تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ المختصر، جابر بن حیان کے کارناموں کا صحیح اندازہ اُسی وقت لگایا جا سکتا ہے، جب ان کی تمام تحقیقات آج کی دنیا میں دوبارہ منظرِ عام پر لائی جائیں اور اُن سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بدقسمتی سے مغرب کے قابل متشرقین مثلاً پاکرائوس، رسکا، ہومہ یارڈ اور اسٹیلسپتن کی قابلِ داد کاوشوں کے باوجود فن کیمیا کے باوا آدم جابر بن حیان کی چند تصانیف انگریزی میں تو ملتی ہیں، لیکن اردو زبان میں چند مقالات کے سوا کوئی مستقل تصنیف اس عظیم کیمیا داں پر موجود نہیں۔ تاہم، اپنی زندگی بھر کی جستجو، محنت اور تجربات سے انھوں نے علم ِسائنس خاص طور پر کیمیا میں جو کارنامے انجام دیے، وہ رہتی دنیا تک ایک عظیم سائنس دان کے طور پر ان کے نام کو زندہ رکھیں گے۔
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار
برائے صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘
٭مجبوری (نرجس مختار، خیرپور میرس، سندھ)٭ناقابلِ فراموش واقعہ (کومل جاوید، کے ڈی اے گیٹ، محمود آباد نمبر 2، کراچی)٭ ویلنٹائن ڈے+خدا کی قسم (ظہیر ا نجم تبسّم ، جی پی او، خوشاب)٭ میری نانی جب انڈیا میں رہتی تھیں (مسز خالدہ خان، کراچی)٭پاسبان (سیّدہ شاہدہ شاہ، جہلم شہر)٭جس نے ایک درخت لگایا (محمد یوسف خان عباسی، ضلع باغ، آزاد کشمیر)٭خوش نصیبوں کی بدنصیبی (جمیل احمد اعوان، سبزہ زار اسکیم، لاہور)٭ میری زندگی کے نشیب و فراز (ارشد مبین احمد، فریئر روڈ، صدر، کراچی)۔
برائے صفحہ ’’متفرق‘‘
٭اندھیری رات کا مسافر (رضی الدین سیّد، کراچی)٭خپلو، لداخ روڈ پر سفر کی رُوداد (قیصر عباس صابر)٭سندھ کے کالج اساتذہ کے ترقیوں کے مسائل + تعلیم ہی ایک مہذّب معاشرہ بناتی ہے (ڈاکٹر ظفر فاروقی، کراچی)٭لیلتہ الجائزہ اور عیدالفطر(محمّد ریاض علیمی، نئی کراچی،کراچی)٭ماہِ رمضان کی معصوم یادیں، باتیں (رئیس صدیقی، بھوپال، بھارت)٭سندھ مدرستہ الاسلام یونی ورسٹی اور ڈیجیٹل دنیا کی ضروریات (انور)٭حقیقی عید (دانیال حسن چغتائی، کہروڑ پکا، لودھراں)۔
برائے صفحہ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘
٭ شفیق باپ (سیّد عارف نوناری، لاہور)٭ مثالی شریکِ حیات(محمّد عبدالنعیم، فیڈرل بی ایریا، کراچی)٭ پیاری امّی، نثری نظم (ڈاکٹر شاہینہ نجیب کھوسہ (فرید آباد کالونی، ڈیرہ غازی خان)۔