• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سقوطِ غرناطہ کے ساتھ ہی نئی عیسائی حکومت نے یہودیوں پر قیامت ڈھا دی
سقوطِ غرناطہ کے ساتھ ہی نئی عیسائی حکومت نے یہودیوں پر قیامت ڈھا دی

اندلس اور تُرک عثمانی، ماضی کی دو عظیم مسلم سلطنتیں گزری ہیں، جو اب زوال اور سقوط کے دو بڑے المیوں کی صُورت ہماری تاریخ کا حصّہ ہیں۔ ایک مسلم ہسپانیہ یا اندلس کی عظیم سلطنت اور دوسری عثمانی خلافت تھی۔ اندلس کی مسلم سلطنت 711عیسوی میں قائم ہوئی اور سات سو سال تک جاہ و جلال اور عظمت و کمال کے ساتھ قائم رہ کر،’’ ہر کمالے را زوال‘‘ کے فطری قاعدے کے مطابق، 1492عیسوی میں اپنے انجام کو پہنچی۔

نتیجتاً، اندلس سے مسلم اقتدار ہی کا نہیں، ایک لحاظ سے مسلمانوں کا بھی مکمل خاتمہ کر دیا گیا۔ لاکھوں مسلمان شہید ہوئے اور لاکھوں کو جبراً عیسائی بنا لیا گیا۔ مسلمان سلطنتوں کے عروج و زوال کا جو چکر دمشق میں اموی سلطنت کے زوال اور عباسی سلطنت کے آغاز سے شروع، اندلسی بھی اُسی چکر میں آ کر پِس گئے۔

عبدالرّحمٰن اوّل بھی اموی خاندان کا سپوت تھا۔ وہ عباسی جبر سے بھاگ کر اندلس پہنچا اور وہاں کے شہر، غرناطہ میں ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی۔اُس سلطنت نے عظیم تہذیب کو جنم دیا، شان دار تمدّن کے بے مثل آثار چھوڑے اور زبردست معاشی ترقّی کی مثال قائم کی۔

محمّد ہفتم، اندلس میں آخری بدنصیب خلیفہ یا بادشاہ تھا، جس کی شکست سے وہاں سے مسلم اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ اُس سلطنت نے تاب ناک تہذیب کے نادر نقوش، علوم و فنون، ثقافت و تمدّن، شعر و ادب، فلسفہ، طِب اور خاص طور پر فنِ تعمیر، زراعت اور سائنسی علوم کے اعلیٰ نمونوں کے مرکز، غرناطہ کی بنیاد رکھی تھی۔غرناطہ کے علاوہ قرطبہ اور طلیطلہ(Toledo) بھی بڑے تہذیبی مرکز تھے۔ 

غرناطہ کا قصرِ الحمراء اور قرطبہ کی مسجدِ قرطبہ کے آثار آج بھی مسلم عہدِ رفتہ کی شہادت دیتے ہیں۔ مسلم فنِ تعمیر کے نمونے محلّات، مساجد اور دیگر عمارتوں کی صُورت اندلس کے ہر بڑے شہر میں پائے جاتے تھے۔ ہر گھر کے صحن میں خُوب صُورت حمام اور فوّارے تھے۔ مسلم عہد میں عربی زبان و ادب، شاعری اور مذہبی علوم کے علاوہ فارسی، یونانی اور رومن زبان کی ترقّی پر بھی توجّہ دی گئی۔ 

ترقّی کے ان نقوش قائم کے قیام اور انہیں ثبت رکھنے پر مسلم حُکم رانوں نے پوری توجّہ مرکوز رکھی۔ سقوطِ غرناطہ کے وقت جب محمّد ہفتم(بوعبدیل)یہ تہذیبی گہوارا چھوڑ رہا تھا، تو اُس کی آنکھوں میں حسرت کے آنسو تھے، جس پر ماں نے یہ حالت دیکھ کر تاریخی جملہ کہا تھا کہ’’اگر مَردوں کی طرح مُلک اور شہر کا دفاع نہیں کر سکے، تو اب عورتوں کی طرح آنسو کیوں بہاتے ہو؟‘‘بہرکیف، ہمارا اصل موضوع یہ ہے کہ سات سو سال تک اپنی عظمت کی روشنی پھیلانے والی اِس سلطنت میں غیر مسلموں، خاص طور پر یہودیوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا گیا۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی و جمہوری حقوق کی پاس داری کے سب سے بڑے دعوے دار مُلک، امریکا کا صدر ٹرمپ جس مُلک پر چاہتا ہے، ٹیرف کے کوڑے برساتا ہے، جسے چاہتا ہے، قید میں ڈال دیتا ہے یا امریکا سے نکل جانے کا حکم دے دیتا ہے۔ اس کے برعکس، اندلس کی مسلم سلطنت میں غیر مسلموں، بالخصوص یہودیوں کے حقوق کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ آج ہم غزہ کا المیہ دیکھ رہے ہیں کہ وہاں مہذّب دنیا کی آنکھوں کے سامنے انتہائی بے رحمی اور سفّاکی سے فلسطینیوں کی نسل کُشی ہو رہی ہے۔

ہزاروں مَردوں اور عورتوں کے ساتھ معصوم بچّے قتل کیے جا رہے ہیں، جب کہ گولا بارود سے زندہ بچ جانے والوں کو بھوک کے عذاب سے مارا جا رہا ہے۔ غزہ میں وحشت و سفّاکی کا مظاہرہ کرنے والے یہودیوں ہی کے اجداد ہوں گے، جن کی اندلس میں ایک اندازے کے مطابق تین سے ساڑھے تین لاکھ کے قریب آبادی امن و آشتی اور جان و مال کے تحفّظ کے ساتھ خوش حالی کی زندگی گزار رہی تھی۔اُن کی آبادی کا تخمینہ مسلم اقتدار کے خاتمے کے بعد عیسائی حکومت میں اُن کے قتل، جلاوطنی، جبراً عیسائی بنائے جانے اور چُھپ چُھپا کر از خود مُلک چھوڑنے والوں کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے۔

مسلم سلطنت کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والی عیسائی حکومت نے دو لاکھ، پینتیس ہزار یہودیوں کو جلاوطن کر دیا تھا، پچاس ہزار سے زیادہ جبراً عیسائی بنائے گئے اور ہزاروں، جنہوں نے عیسائیت قبول کرنے سے انکار کیا، قتل کر دیئے گئے۔ اِسی طرح ہزاروں یہودی وہاں روا رکھے جانے والے ظلم وستم سے بچنے کے لیے چُھپ چُھپا کر تُرکی، یونان، جرمنی، فرانس اور شمالی افریقا کی طرف نکل گئے تھے۔

مسلم اقتدار میں شرعی اصطلاح میں وہ’’ذِمّی‘‘ تھے، لیکن حقیقت میں اُنہیں مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل تھے۔ اُنہیں مکمل مذہبی اور ثقافتی آزادی میسّر تھی۔اُن کی اکثریت سلطنت کے اہم مرکزی شہروں غرناطہ، قرطبہ اور طلیطلہ میں آباد تھی۔ نظامِ سلطنت میں اُن کی خدمات سے فائدہ اُٹھایا جاتا۔ حکومت میں کئی عُہدے اور ذمّے داریاں اُنہیں سونپی گئی تھیں۔ سرمائے کی کثرت تھی۔ تجارت و صنعت میں اُن کا برابر حصّہ تھا۔دولت کے انبار لگے تھے، جب کہ سائنس اور دیگر علوم میں اُن کی مہارت کو ریاست اپنا سرمایہ سمجھ کر استفادہ کرتی تھی۔

مسلم اقتدار کا خاتمہ ہوا، تو طاقت و اقتدار شاہ فرڈینینڈ، ملکہ ازابیلا اور پوپ الیگزینڈر ششم کے ہاتھ آیا۔مسلم حکومت کے خاتمے کے وقت یہ بدترین کردار تھے، جن کے دِلوں میں ہر اُس شخص سے شدید نفرت کھول رہی تھی، جو رومن کیتھولک عیسائی نہیں تھا۔مسلمانوں سے تو جنگ لڑ کر اُنہوں نے اقتدار چھینا تھا، اِس لیے اُن سے نفرت اور عداوت یہودیوں سے بھی بڑھ کر تھی۔

مسلمانوں کے سیکڑوں تہذیبی نقوش اندلس کے چپّے چپّے پر پھیلے ہوئے تھے، جو اُن کی سابقہ عظمت کے گواہ تھے۔ ان نقوش سے ملکہ اور بادشاہ چِڑتے تھے اور اُنھیں دیکھ دیکھ کر اُن کا تعصّب مزید بڑھتا گیا۔ چناں چہ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا اور اُنہیں یہودیوں ہی کی طرح زبردستی عیسائیت قبول کرنے پر بھی مجبور کیا گیا۔1492ء اور1610ء کے درمیان زبردستی اندلس سے نکالے جانے والے مسلمانوں کی تعداد تیس لاکھ سے زیادہ تھی۔

ملکہ اور بادشاہ نے ایک’’فرمانِ الحمرا‘‘جاری کیا تھا۔یہ فرمان کہتا تھا کہ غیر عیسائیوں کو قتل کیا جائے، اُن کی جائیدادیں چھین لی جائیں اور اُنہیں زبردستی عیسائی بنایا جائے یا مُلک چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔ اِس فرمان کے تحت مسلمانوں پر تو جو بیتی، سو بیتی، لیکن دو لاکھ یہودی بھی جبراً عیسائی بنائے گئے۔ 

چالیس ہزار سے ایک لاکھ تک یہودیوں کو مُلک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ چوں کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شمالی افریقا ہی سے اندلس منتقل ہوئی تھی، لہٰذا اب جانیں بچانے والے مسلمانوں کی اگلی منزل فطری طور پر مراکش اور شمالی افریقا کے دیگر علاقے ہی تھے۔دوسری طرف یہودیوں نے بھی ایسا ہی کیا۔

مؤرخین مراکش اور دیگر شمالی افریقی ممالک میں آکر آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد سے متعلق’’substantial influx ‘‘ یعنی ایک بڑی یا بھاری تعداد کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اِس لیے اندازہ یہی ہے کہ جو یہودی فرانس، جرمنی اور یورپی ممالک کی طرف نہیں بھاگ سکے تھے، وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ مراکش اور شمالی افریقا کے دیگر ممالک میں منتقل ہوگئے۔ بعید نہیں کہ آج مراکش، تیونس اور دیگر شمالی افریقی ممالک میں جو یہودی ہیں، اُنہی یہودیوں کی نسلوں سے ہوں، جو اندلس سے فرار ہو کر یہاں آباد ہوئے تھے۔ اِن مسلم ممالک میں بھی اُنہیں آزادی، تحفّظ اور ترقّی کے مواقع حاصل تھے۔

حضرت علیؓ سے منسوب ایک قول ہے کہ ’’کمینے پر احسان کر کے اُس کے شر سے بچو۔‘‘ یہ قول کسی ایک فرد پر بھی صادق آتا ہے اور پوری قوم پر بھی۔ قرآنِ مجید بتاتا ہے کہ بنی اسرائیل(یہودی)وہ قوم ہے، جس کی فطرت میں ایسا شر داخل ہے کہ اُس نے اپنے انبیائے کرامؑ کے احسانات کا بدلہ بھی اُنہیں جھٹلا کر، ستا کر، یہاں تک کہ اُن میں سے بعض کو قتل کر کے دیا۔

اندلس کی اموی اور تُرکی کی عثمانی سلطنت میں یہودیوں کو عزّت دی گئی، اُن کی حفاظت کی گئی، اُنہیں آزادی اور ترقّی کے مواقع دیئے گئے، لیکن اُنہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ عناد اور شر کا ثبوت دیا۔ اِن سلطنتوں کے خلاف سازشیں کیں اور اِنہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔یہ قوم ہمیشہ تخریب اور بگاڑ میں لگی رہی، جنگوں کے شعلے بھڑکاتی اور انسانیت کی تباہی کا سامان کرتی رہی۔

اس کے بڑوں کے اقوال میں ساری غیر یہودی اقوام کے لیے’’ Gentile‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔’’Protocols of the Elders of Zion ‘‘نامی کتاب پچھلی صدی کے آغاز میں روس سے منظرِ عام پر آئی تھی۔اردو سمیت دنیا کی بہت سی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے۔ ان پروٹوکولز میں Gentileکی تباہی و بربادی کا پورا منصوبہ ہے۔یہودیوں اور بہت سے عیسائی دانش وَروں نے اِن پروٹوکولز کو مسخ شدہ((Fabricatedقرار دیا۔

بیسویں صدی کے اوائل میں عیسائی دنیا میں’’یہود دوست ‘‘(Pro-Jews) رجحانات اِتنے قوی ہو چُکے تھے کہ خود یہودیوں سے بڑھ کر اُن کا دفاع کرنے والے بیسیوں عیسائی ادارے میدان میں آ چُکے تھے۔ اِسی لیے امریکا سمیت مغربی ممالک میں ہنری فورڈ کی چار جِلدوں میں کتاب’’ The International Jews‘‘ کو سامیت مخالف (Anti-Semitism) دستاویز ثابت کرنے والے درجنوں تھنک ٹینکس اور یونی ورسٹیز کے پروفیسرز اُٹھ کھڑے ہوئے، لیکن اِس کتاب میں مدلّل تجزیے کا جو اسلوب ہے، اُسے رَد نہیں کیا جا سکتا۔

اُنہوں نے لکھا کہ اِن ’’پروٹوکولز‘‘ کا انداز یہ نہیں کہ ہم غیر یہودی دنیا کے ساتھ یہ، یہ کچھ کریں گے، بلکہ ایسا اسلوب ہے، جس میں فخریہ انداز میں کام یابیوں کا ذکر ہے کہ اب تک ہم یہ اور یہ کام یابیاں حاصل کر چُکے ہیں۔ جن باتوں کو اُن کے بڑوں نے کام یابیاں قرار دیا، وہ غیر یہودی دنیا میں حقیقت کی صُورت نظر آتی ہیں۔ پروٹسٹینٹ عقیدہ ایجاد ہونے سے پہلے عیسائی دنیا میں شاعری، ادب، سماج اور معاشرت میں یہودیوں سے سخت نفرت رچی بسی تھی، لیکن پروٹسٹنٹ عقیدے نے عیسائیت کا مزاج بدل دیا۔ غور کیا جائے، تو اب پروٹسٹنٹ عیسائیت اور یہودیت میں عقیدے کا جو بہت کم فرق رہ گیا تھا، وہ کمی بھی عملی پالیسیز سے پوری کر دی گئی ہے۔

خیر،’’ Protocols of the Elders of Zion‘‘ کا ذکر ضمناً نکل آیا، ہمارا اصل موضوع اندلس میں مسلم حکومت ختم ہونے کے بعد عیسائیوں کا یہودیوں کے ساتھ بدترین سلوک تھا۔صرف اندلس ہی میں نہیں، بلکہ برطانوی استعمار کی نوآبادیوں میں بھی بدترین برتاؤ کے ستائے ہوئے یہودی کسی پناہ گاہ کی تلاش میں تھے۔ یہی وہ عرصہ تھا، جب یہودیوں نے کوئی نئی دنیا تلاش کرنی شروع کر دی تھی۔

تاریخ میں معروف ملّاح، کرسٹوفر کولمبس، جس نے امریکا دریافت کیا تھا، ایک ایسا یہودی تھا، جس نے یہودیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کی وجہ سے اپنا عقیدہ چُھپایا ہوا تھا۔ اِسی لیے اندلس کی ملکہ ازابیلا نے اُسے اُس کے بحری سفر کے لیے سرمایہ اور سہولتیں فراہم کی تھیں۔ کولمبس کے امریکا دریافت کرنے کے بعد جہاں یورپی اقوام میں ولندیزیوں اور انگریزوں نے وہاں فی الفور نوآبادیاں قائم کرنی شروع کر دی تھیں، وہیں اندلس کے بے سروسامان یہودیوں میں سے بھی بہت سے وہاں پہنچ کر آباد ہوگئے تھے۔

امریکا کی جنگِ آزادی( (1775-1783کے وقت وہاں بہت مال دار یہودی موجود تھے، جنہوں نے برطانیہ کے خلاف جنگِ آزادی میں اپنا سرمایہ لگایا۔امریکی جنگِ آزادی میں مالی مدد کرنے والے یہودیوں میں ہیم سلومن (Haym Salomon)، مارڈیکائی شیفٹل (Mordicai Sheftall) اور فرانسس سلواڈر(Francis Salvador)جیسے سرمایہ دار خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ آخرالذکر اِسی امریکی جنگِ آزادی میں مارا گیا تھا۔ وہی اوّلین یہودی تھے، جن کی وجہ سے امریکا پر یہودی گرفت قائم ہوئی، جو وقت کے ساتھ سخت سے سخت تر ہوتی گئی۔ 

صدر ڈیموکریٹ ہو یا ری پبلکن، امریکا کی پالیسیز طاقت وَر یہودی لابیز ہی کے ایما پر بنتی ہیں۔ غزہ اور فلسطین میں ہونے والے مظالم کا آغاز رومن کیتھولک ڈیموکریٹ صدر، جوبائیڈن کی نگرانی اور عملی مدد سے ہوا تھا اور اس کی انتہا ایونجیکل(Evangelical )عیسائی عقیدے کے ری پبلکن صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کی نگرانی میں ہو رہی ہے۔ (مضمون نگار، لگ بھگ 40 برس تک شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ معروف مذہبی اسکالر اور کئی کتب کے مصنّف ہیں)