• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیرونی طلبہ پر امریکی یونی ورسٹیز کے دروازے بند ؟

امریکا کی ممتاز اور عالمی شہرت یافتہ، کولمبیا یونی ورسٹی نے بیرونِ مُلک سے تعلق رکھنے والے درجنوں طلبا و طالبات کو سخت سزائیں سُنائی ہیں، جن میں یونی ورسٹی سے بے دخلی، ڈگریر کی منسوخی، کورسز سے معطّلی اور دیگر سزائیں شامل ہیں۔ یہ طلبہ ڈی پورٹ کے خطرے سے دوچار ہیں یا پھر اُنہیں عدالتوں کا رُخ کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ وہ طلبہ ہیں، جنہوں نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاجی جلوسوں میں حصّہ لیا یا پھر سوشل میڈیا پر پوسٹس کیں۔

کہا گیا کہ اِن طلبہ نے بطور احتجاج کلاسز کا بائیکاٹ کیا اور دیگر طلبہ کو بھی احتجاج میں حصّہ لینے پر اُکسایا۔یہ اسٹوڈنٹس ایکٹیوسٹ گروپ ہے، جس نے یونی ورسٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل سے تمام مالیاتی رابطے منقطع کرلے۔ یونی ورسٹی کے مطابق، یہ 80 طلبہ کا ایک گروپ ہے، جو یا تو ادارے سے نکال دیئے گئے ہیں یا پھر ان کا تعلیمی کیریئر معطّل کردیا گیا ہے، جس کی میعاد کم ازکم تین سال ہے۔

اب اُن کے پاس صرف یہی راستہ ہے کہ وہ یونی ورسٹی کے اِس اقدام کے خلاف عدالت میں اپیل کریں، جس کا سلسلہ سپریم کورٹ تک جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر یونی ورسٹی انتظامیہ نے یہ انتہائی قدم کیوں اُٹھایا؟ دراصل یہ سب ایک حکومتی حکم کی وجہ سے کیا گیا۔ 

دوسرے الفاظ میں، اِس اقدام میں امریکی حکومت پوری طرح حصّے دار ہے۔یونی ورسٹی کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ یہ سزائیں سال 2024ء کے مئی میں لائبریری اور یونی ورسٹی کے اندر احتجاجی کیمپ لگا کر تعلیمی سرگرمیاں معطّل کرنے پر دی گئی ہیں۔

بیان کے مطابق، یونی ورسٹی کی تعلیمی سرگرمیوں کو احتجاج کے ذریعے بند کرنا خلافِ قانون ہے، جس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ یہ امریکا کی واحد یونی ورسٹی نہیں، جسے اِس قسم کے اقدام کرنے پڑے۔ اِس فہرست میں عالمی شہرت یافتہ ہارورڈ یونی ورسٹی بھی شامل ہے، جو اِن دنوں حکومتی احکامات کے خلاف عدالت میں ہے۔ یاد رہے، ہارورڈ یونی ورسٹی دنیا کا امیرترین، خود مختار تعلیمی ادارہ ہے، جب کہ دیگر بہت سی یونی ورسٹیز، جو حکومتی امداد کی محتاج ہیں، دباؤ کے تحت طلبا و طالبات کو سزائیں دے رہی ہیں۔

امریکا میں ایسا کیا ہوا کہ یونی ورسٹیز کے ایسے کیمپس میں، جہاں احتجاج ،تعلیمی سرگرمیوں کا حصّہ سمجھے جاتے ہیں اور جن پر ماضی میں امریکا کی دنیا میں مثالیں بھی دی جاتی تھیں کہ دیکھو، یہ ہے اظہارِ رائے کی آزادی، جسے امریکا لیڈ کرتا ہے اور یہ طلبہ کی سیاسی تربیت کا حصّہ ہے، احتجاج ممنوع قرار پایا ہے۔ یہ پابندیاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اُس اہم ترین پالیسی کا حصّہ ہیں، جو اُنہوں نے اقتدار میں آتے ہی ابتدائی حُکم ناموں کے ذریعے نافذ کیں۔

اِس پابندی کا تعلق غیر مُلکی تارکینِ وطن سے بھی ہے، جن میں پہلے صرف غیر قانونی تارکینِ وطن شامل تھے، مگر اب اس میں گرین کارڈ ہولڈرز بھی شامل ہوگئے ہیں۔ اگر اُنہوں نے بھی کسی ایسی سرگرمی میں حصّہ لیا، جسے حکومت اور امریکا مخالف سمجھا جاتا ہو، تو پھر وہ بھی کارروائی کے لیے تیار رہیں۔ یاد رہے، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی وکٹری اسپیچ میں کہا تھا کہ غیر قانونی تارکینِ وطن کو امریکا سے اِس تعداد میں نکالا جائے گا، جو ایک تاریخی ریکارڈ ہوگا۔

اِس مقصد کے لیے ایک باقاعدہ وزارت قائم کی گئی، جس نے بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ کی۔ایسے تارکینِ وطن بھی، جو اپنے بیوی، بچّوں کے ساتھ تیس سال سے بھی زاید عرصے سے امریکا میں رہ رہے تھے، ڈی پورٹ کردیئے گئے کہ اُن کے کاغذات درست نہیں تھے۔ پھر یہ کہ ڈی پورٹ کرنے کا طریقۂ کار بھی خاصا تکلیف دہ ہے۔ پولیس گھر، بازار یا راستوں سے تارکینِ وطن کو پکڑتی ہے اور پھر اُنہیں خصوصی مراکز بھیج دیا جاتا ہے، جہاں سے جہاز میں بٹھا کر آبائی مُلک روانہ کردیا جاتا ہے۔ 

اِسی ڈی پورٹیشن قانون کے تحت یونی ورسٹیز کے طلبہ کے خلاف بھی کارروائیاں شروع کی گئیں۔کولمبیا اور ہارورڈ جیسی یونی ورسٹیز کو وارننگ نوٹسز جاری کیے گئے، جہاں بڑی تعداد میں بین الاقوامی طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں، کیوں کہ ان کی ڈگریز عالمی سند رکھتی ہیں۔ اِن یونی ورسٹیز کو کہا گیا کہ اگر ان کے طلبہ نے کسی بھی قسم کی ریاست مخالف سرگرمی میں حصّہ لیا، تو ان کی فیڈرل فنڈنگ روک دی جائے گی۔اِس ضمن میں یہود مخالف سرگرمیاں بھی جرم قرار دی گئی ہیں۔

امریکا کی ہر حکومت کی اسرائیل سے متعلق ایک ہی پالیسی رہی ہے اور وہ یہ کہ اسرائیل اس کا مشرقِ وسطیٰ میں سب سے اہم اور قریبی اتحادی ہے۔ امریکا، اسرائیل کو مالیاتی، سیاسی، فوجی اور سفارتی امداد فراہم کرتا ہے، بلکہ حالیہ بارہ روزہ ایران، اسرائیل جنگ میں تو صدر ٹرمپ نے ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پر دنیا کے سب سے طاقت وَر، 13ٹن وزنی بم بھی گرائے۔ اِس سے واضح ہوتا ہے کہ امریکا، اسرائیل کی مدد میں کہاں تک جاسکتا ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ جوبائیڈن وہ پہلے عالمی لیڈر تھے، جو حماس کے اکتوبر حملے کے بعد اسرائیل سے یک جہتی کے لیے تل ابیب پہنچے تھے۔ امریکی سیاست کا یہ خاصّہ رہا کہ اگر وہ کسی کے خلاف جنگ کرتا ہے، تب بھی اپنے ہاں عام لوگوں کو امریکی پالیسی کے خلاف پُرامن احتجاج اور میڈیا پر کُھلے مباحثوں کی اجازت دیتا ہے۔ جب کہ چین، روس اور بہت سے دوسرے ممالک کو دیکھا جائے، تو وہاں اِس قسم کی کوئی روایت نہیں ہے۔

حکومت نے جو پالیسی دے دی، کسی کو پسند ہو، نہ ہو، بس سب سر جُھکا کر اُسے قبول کرلیتے ہیں۔ اِس ضمن میں حکومت مخالف چھوٹی سی سرگرمی بھی برداشت نہیں کی جاتی اور ایسا کرنے والوں کے لیے سخت ترین سزائیں رکھی گئی ہیں۔ کس کو کب، کیا سزا دی، کسی کو اِس کا بھی علم نہیں ہوپاتا۔ لیکن امریکا، مغربی جمہوریت کا حصّہ ہے، جہاں اظہارِ رائے کو بنیادی حق سمجھا جاتا ہے،گو اِس پر قانونی بحث ہو رہی ہے کہ یہ حق وہاں کے شہریوں کو حاصل ہے یا بیرونِ مُلک سے آنے والے طلبہ اور تارکینِ وطن بھی یہ حق استعمال کرسکتے ہیں۔

امریکی آئین کا پہلا آرٹیکل آزادیٔ رائے کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ ہمارے ہاں اِس آرٹیکل سے متاثر ہوکر لبرل خیالات رکھنے والے یا جو کسی تنظیم کے مقاصد بڑھانا چاہتے ہیں، احتجاج کے حق کا دعویٰ کرتے ہیں، جس میں طویل دھرنے، سڑکیں بند کرنا اور شہری زندگی معطّل کرنا بھی شامل ہے۔ یعنی مخالف خیالات رکھنے والوں یا نیوٹرل شہریوں کی کوئی وقعت نہیں۔ عدلیہ بھی اسے مقدّم سمجھتی ہے اور اکثر احتجاج کرنے والوں کو ضمانتیں دے کر داد وصول کرتی ہے۔

یاد رہے، نہ تو یہ مسلم دنیا کی روایت ہے اور نہ ہی بڑی طاقتوں کے ہاں اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔ دُور کیوں جائیں، ہمارے پڑوسی مُلک ایران میں سمری ٹرائل پر سالوں کی، بلکہ موت تک کی سزائیں دی گئیں اور یہی حال مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کا ہے۔ امریکا میں مجسمۂ آزادی کے زیرِ سایہ ماضی میں ہرقسم کا احتجاج گوارا کر لیا جاتا تھا، لیکن اگر وہاں کے اور مغربی ممالک کے احتجاجی مظاہرے دیکھے جائیں، تو وہ ہمارے ہاں ہونے والے احتجاج سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔

وہ لوگ احتجاجی پلے کارڈز اُٹھا کر سڑک کے مخصوص حصّے پر چلتے ہیں۔حکومت کے مختص کردہ مقام پر، متعیّن وقت کے لیے بیٹھتے ہیں۔ کسی قسم کے شہری عمل میں مداخلت نہیں کرتے اور چند گھنٹوں بعد شرافت سے خود چلتے بنتے ہیں۔ طویل دھرنوں، طاقت کے استعمال اور اسلحے کی نمائش سے متعلق تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ 

سڑکوں کی بندش یا ٹریفک میں خلل کی سزائیں کافی سخت ہیں۔ میڈیا بھی احتجاج کو احتیاط سے رپورٹ کرتا ہے، ہماری طرح نہیں کہ دھرنے کا ساتواں دن ہے، دسواں دن ہے، لاکھ تھے، دس لاکھ تھے۔ وہاں اگر احتجاج کرنے والوں کے حقوق کا تحفّظ کیا جاتا ہے، تو عام شہری کی آزادی اس سے بھی برتر مانی جاتی ہے۔

امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ، مارکو روبیو نے بار بار ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے پالیسی بیان دیا کہ اب حکومتی پالیسی سے اختلاف رکھنے والے کسی بھی غیر مُلکی تارکینِ وطن کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اُنہوں نے غیر مُلکی طلبہ سے متعلق کہا کہ اگر اُنہیں امریکی پالیسی سے اختلاف ہے، تو پھر یہ سرزمین اُنہیں ناپسندیدہ اور ناقابلِ برداشت سمجھتی ہے، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ وہ یہاں نہ آئیں۔

یونی ورسٹیز کو فیڈرل گورنمنٹ کی طرف سے کہا گیا کہ جو کوئی حکومتی پالیسی کے خلاف احتجاج کرے، تعلیمی عمل میں خلل ڈالے، جلسے جلوسوں میں حصّہ لے یا سوشل میڈیا پر حکومت کے خلاف پوسٹس کرے، اُسے یونی ورسٹی سے نکال دیا جائے اور اُس کی ڈگری ضبط کرلی جائے۔ 

اگر یونی ورسٹیز نے اِن احکامات کی پابندی نہیں کہ تو اُن کی وفاقی امداد روک دی جائے گی۔ یاد رہے کہ امریکا میں یونی ورسٹی تعلیم’’ اسٹیٹ سبجیکٹ‘‘ ہے اور گرانٹس کے بغیر بڑے ریسرچ پروگرامز ممکن نہیں۔ یہ فیڈرل گرانٹ اربوں ڈالرز میں ہوتی ہے۔ تقریباً ہر یونی ورسٹی حکومتی احکامات کے تحت ضروری اقدامات کر رہی ہے۔

بین الاقوامی اور غیر مُلکی طلبہ کو بتا دیا گیا ہے کہ اب اظہارِ رائے کی آزادی یا انسانی حقوق کے نام پر وہ کسی بھی سیاسی سرگرمی کا عملی حصّہ تو کیا، سوشل میڈیا پر بھی اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرسکیں گے۔ اب امریکی ویزے کے حصول کے لیے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی بھی جانچ پڑتال ہوگی اور کسی بھی امریکی پالیسی سے اختلاف نااہلی کا سبب بن سکتا ہے۔ 

اوورسیز پاکستانیوں کو پہلے ہی بتایا تھا کہ امریکا اور قوم پرست مغربی ممالک میں اُن کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور سرگرمیوں کی نگرانی ہوتی ہے، اِس لیے وہ دیکھ بھال کر چلیں۔جس کام کے لیے گئے ہیں، وہی کریں۔ تعلیم حاصل کرنے گئے ہیں، تو اُسی پر توجّہ دیں، وگرنہ غیر معمولی محنت اور اچھی زندگی کے خواب بکھر جائیں گے۔پھر ایسے طلبہ کے والدین پر کیا گزرے گی، جنہوں نے پائی پائی جمع کرکے اُنہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ مُلک بھیجا۔

ٹرمپ کو اِس امر سے بھی اپنی ڈی پورٹیشن پالیسی پر مضبوط سہارا ملا کہ ماتحت عدالتوں نے اُن کے خلاف جو فیصلے دیئے تھے، وہ سپریم کورٹ نے ختم کردیئے اور صدر ٹرمپ کو اپنی پالیسیز پر عمل درآمد جاری رکھنے کی اجازت دے دی، جن کا اُنہوں نے عوام سے وعدہ کیا تھا اور جنہیں وہ قومی سلامتی کے ضمن میں بہتر سمجھتے ہیں۔ سب کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ امریکا اِس وقت ٹرمپ کا مُلک ہے، جو ایک قوم پرست اور انتہائی طاقت وَر صدر ہیں۔ 

کچھ بھی لکھتے رہیں، کیسے ہی تجزیے کیوں نہ کریں، مگر ٹرمپ جسے امریکا سے نکالنا چاہیں گے، نکال باہر کریں گے۔ اِن حالات میں بہتر یہی ہے کہ باقی ممالک بھی اپنے مفادات دیکھیں، جیسے کینیڈا، جاپان، یورپ، چین اور روس کر رہے ہیں۔سب ممالک ٹرمپ سے بات چیت اور سمجھوتوں پر مجبور ہیں۔ امریکا کا پڑوسی مُلک کینیڈا بھی، جہاں امریکی نسل ہی کے لوگ بستے ہیں، جُھک گیا۔ امریکی یونی ورسٹیز میں جو کچھ ہو رہا ہے یا جو کچھ ہونے جارہا ہے، اِس کے لیے ابھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس ساڑھے تین سال ہیں، تو اب یہ طلباء و طالبات کو فیصلہ کرنا ہے کہ اُنہیں اعلیٰ تعلیم چاہیے یا سیاست۔