اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق دنیا بَھر میں ہر سال تقریباً 13 سے 14 کروڑ بچّے پیدا ہوتے ہیں اور یہ تعداد روزانہ تقریباً تین لاکھ 85 ہزار بنتی ہے۔ پاکستان کا ذکر کریں، تو یہاں ہر سال 40 سے 55 لاکھ بچّوں کی پیدائش ہوتی ہے۔ یونیسیف کی 2015 ء کی رپورٹ55 لاکھ بچّے سالانہ، یعنی یومیہ14 ہزار900 کی خبر دیتی ہے۔ عام طور پر پاکستان میں شرحِ پیدائش ایک ہزار افراد پر 25 سے 27کے قریب ہے۔
یہ اعداد و شمار ہر سال اور مختلف ذرائع کے مطابق تھوڑے بہت مختلف ہو سکتے ہیں۔ اِس کثیر تعداد میں متولّد بچّوں کی پہلی اور فوری ضرورت خوراک کی فراہمی ہے۔ اِس ضمن میں ڈبلیو ایچ او اور یونیسیف سمیت دنیا بَھر کی صحت کی تنظیمیں ماں کے دودھ کو بہترین اور مثالی غذا ہونے کی بنا پر پہلی ترجیح قرار دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال یکم سے 7اگست تک ’’رضاعت کا عالمی ہفتہ‘‘ منایا جاتا ہے۔
بریسٹ فیڈنگ ایک قدرتی طریقہ ہے، جس کے ذریعے ماں اپنے بچّے کو وہ تمام غذائی اجزاء، وٹامنز، منرلز اور اینٹی باڈیز فراہم کرتی ہے، جو اُس کی بہترین نشوونما کر کے بیماریوں سے تحفّظ دیتے ہیں۔ خصوصی یا’’ ایکس کلوسیو بریسٹ فیڈنگ‘‘ کے معنی پیدائش سے لے کر ابتدائی چھے مہینوں تک بچّے کو صرف ماں کا دودھ دینا ہے۔ اس کے بعد دو سال یا اِس سے کچھ زیادہ عرصے تک اضافی ٹھوس خوراک کے ساتھ ماں کے دودھ کی سفارش کی جاتی ہے۔
یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ماں کے دودھ میں موجود غذائی اجزاء جیسے پروٹین، کاربو ہائیڈریٹ، فیٹس، وٹامنز اور منرلز بہترین تناسب میں موجود ہوتے ہیں۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ بچّے کی بڑھتی عُمر کی ضرورت کے مطابق دودھ کی ساخت بدلتی رہتی ہے۔ ہرچند کہ یہ ابھی حتمی نہیں، مگر کچھ اسٹڈیز سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بیٹا یا بیٹی کو دودھ پلانے والی ماں کے دودھ میں معمولی فرق ہوسکتا ہے، یعنی دودھ بچّے کی جنس کے مطابق تبدیل ہو سکتا ہے۔
بیٹے کو پلایا جانے والا دودھ زیادہ پروٹین اور چکنائی کا حامل ہو سکتا ہے، جو لڑکوں کی ابتدائی میٹابولک ضروریات اور لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ اوسط شرحِ نمو میں مددگار ہوتا ہے، جب کہ لڑکیوں کو پلائے جانے والے دودھ میں مدافعت کے لیے اینٹی باڈیز ہونے کے کچھ شواہد ملے ہیں۔ یہ بات سمجھی جا رہی ہے کہ ماں کا دودھ بچّے کی انفرادی ضرورت کے مطابق ہوتا ہے اور دودھ کی ساخت پر جینیاتی یا ماحولیاتی عوامل کے ساتھ، ماں کی اپنی صحت اور خوراک بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
ماں کے دودھ سے بچّوں کو حاصل ہونے والے فوائد پر نظر ڈالیں، تو یہ نہ صرف غذائی ضروریات پورا کرتا ہے، بلکہ اس میں موجود اینٹی باڈیز، مدافعتی نظام کی مضبوطی کی بھی ضامن ہیں۔ یہ بچّوں کو مختلف انفیکشنز، الرجی، اسہال، سانس کے مسائل، نمونیا اور کان کے انفیکشن سے بچاتا ہے۔ آسانی سے ہضم ہو جانے والا ماں کا دودھ، بچّوں میں قبض اور گیس کے مسائل کو بھی کم کرتا ہے۔
تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ان بچّوں کی ذہانت یعنی آئی کیو ڈبّے کا دودھ پینے والے بچّوں سے بہتر ہوتا ہے اور انہیں اپنی زندگی میں موٹاپے، ذیابطیس اور کچھ طرح کے کینسرز کا کم خطرہ ہوتا ہے۔ یہ بچّوں میں SIDS’’ سڈن انفنٹ ڈیتھ سینڈروم‘‘ کے امکانات کو بھی کم کرتا ہے۔ ماؤں کے حوالے سے بات کریں، تو دودھ پلانے سے ایک ہارمون، اکسیٹوسن(Oxytoin) خارج ہوتا ہے، جو جسم کو زچگی کے بعد واپس اصلی حالت میں لانے اور خون کا بہاؤ کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
دودھ پلانا نہ صرف وزن کم کرنے میں معاون ہوتا ہے، بلکہ یہ چھاتی اور رحم کے کینسرز کے علاوہ ٹائپ ٹو ذیابطیس کے خطرے کو بھی کم کرتا ہے اور بعد کی زندگی میں اوسٹیو پراسس، یعنی ہڈیوں کی کم زوری اور ان کے ٹوٹنے کے عمل کو بھی روکتا ہے۔ یہ عمل کسی حد تک حمل میں قدرتی وقفے کا بھی باعث ہے۔ طبّی حوالے سے مثبت اثرات کے ساتھ اپنے بچّوں کو دودھ پلانا ماؤں کی جذباتی اور نفسیاتی مدد بھی کرتا ہے۔
اس سے ماں اور بچّے کا تعلق استوار ہوتا ہے اور محبّت مزید گہری ہوتی ہے۔ ٹینشن اور ڈیپریشن ختم ہونے سے مزاج میں بہتری آتی ہے۔ نیز، طمانیت اور سکون حاصل ہوتا ہے۔ خوشی اور کام یابی کے احساس کے ساتھ خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، مناسب درجۂ حرارت پر ہمہ وقت مہیا رہنے والا دودھ سہولت اور بچت بھی ہے۔ یہ فیڈرز، یعنی دودھ کی بوتلوں کو دھونے اور اُبالنے کی محنت سے چھٹکارے کے ساتھ، منہگے فارمولا دودھ سے معاشی طور پر زیر بار ہونے سے بھی بچاتا ہے۔
یونیسف کے اعداد و شمار کے مطابق، دنیا بَھر میں پیدائش کے بعد پہلے چھے ماہ تک48 فی صد مائیں اپنے بچّوں کو دودھ پلاتی ہیں، جب کہ صرف46فی صد بچّے ہی ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں، جو پیدائش کے پہلے گھنٹے میں ماں کے دودھ سے فیض یاب ہو پاتے ہیں۔ اِس ضمن میں مفادِ عامّہ کے لیے یہ وضاحت ضروری ہے کہ ماں کا پہلا دودھ’’کولوسٹرم‘‘ جو’’مائع سونا‘‘ کہلاتا ہے، غیر محفوظ نہیں ہے، بلکہ بچّوں کے مدافعتی نظام کے لیے بہت اہم ہے۔
مختلف خطّوں میں’’ ایکس کلوسیو بریسٹ فیڈنگ‘‘ کی شرح میں بہت تفاوت پایا جاتا ہے۔ یہ شرح جنوبی ایشیا میں60 فی صد، بعض افریقی ممالک میں55 فی صد ہے، تو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ میں بھی تناسب زیادہ ہے، جب کہ شمالی امریکا، کینیڈا، یورپ، مِڈل ایسٹ، شمالی افریقا اور چین میں یہ شرح کافی کم ہے۔ مغربی ممالک میں یہ تناسب 37 فی صد تک ہو سکتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق امریکا میں 21 فی صد نوزائیدہ بچّے ماں کا دودھ نہیں پی پاتے۔ مستحکم معیشت والے ممالک کے2.6 ملین بچّوں میں سے ایک تہائی ایسی ہی صُورتِ حال کا شکار ہے۔ دنیا بَھر میں شہروں کے مقابلے میں دیہات میں خواتین میں بچّوں کو دودھ پلانے کا رجحان زیادہ ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے 2025 ء تک پہلے چھے ماہ میں دودھ پلانے کی شرح 50 فی صد تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا تھا۔
خاندان اور کمیونٹی کے تعاون ہی سے ماں لمبے عرصے تک بچّے کو دودھ پلا سکتی ہے، ساتھ ہی ثقافتی اور معاشرتی رویّے بھی اہم ہیں، کیوں کہ اردگرد کا ماحول اور اِس سلسلے میں دوسری خواتین کا طرزِ عمل بھی عورت کی ذہن سازی کرتا ہے۔ صحتِ عامّہ کا بہتر نظام، ڈاکٹر کی توجّہ اور صحت کے عملے کی جانب سے بروقت، درست معلومات کی فراہمی بھی ضروری ہے۔
علاوہ ازیں، ملازمت پیشہ خواتین کے لیے حکومتی پالیسیز جیسے تن خواہ کے ساتھ زچگی کی چُھٹیاں، کام کی جگہ پر دودھ پلانے کے وقفے اور ڈے کیئر سینٹر کی سہولت کا مہیا ہونا، خواتین کے دودھ پلانے کے فیصلے کو مضبوط کرتا ہے۔نیز، فارمولا دودھ کی تشہیر پر مناسب پابندی جیسے اقدامات عورت کے لیے بچّے کو اپنا دودھ پلانے کی ترغیب بن جاتے ہیں۔
اِس کے برعکس، جو اسباب بچّے کو دودھ پلانے کی شرح میں کمی کا باعث ہیں، اُن میں دودھ پلانے کے فوائد سے ناواقفیت کے ساتھ طبّی عملے کا ماؤں کی رہنمائی کے لیے تربیت یافتہ نہ ہونا بڑی وجہ ہے۔ بعض گھرانوں میں خواتین اس دباؤ کا شکار ہو جاتی ہیں کہ دودھ کی پیداوار کم ہے اور دل برداشتہ ہو کر کوشش چھوڑ دیتی ہیں۔ ایسے میں ڈبّے کے دودھ کے مبالغہ آمیز اشتہارات اسے جدید اور آسان حل کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو والدین کو پُرکشش لگتے ہیں۔
کہیں عوامی مقامات پر دودھ پلانے میں جھجک اور اِس کے لیے درکار سہولتوں کا فقدان بھی ماؤں کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔ کچھ صُورتوں میں عورت کی صحت کے مسائل اور مخصوص ادویہ کا استعمال بھی بچّے کو دودھ پلانے میں مانع ہو سکتا ہے۔ چھوٹے بچّے کے ساتھ ٹائم مینجمنٹ دشوار ہو جاتی ہے اور اندازے سے زیادہ غیر متوقّع وقت بچّے کو دینا پڑ جاتا ہے، جس سے دیگر کاموں کی انجام دہی مشکل محسوس ہوتی ہے۔
چھوٹے بچّے کی نگہہ داشت کے دَوران، کبھی دوسرے بچّے نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ یہ باتیں خواتین کے لیے ذہنی طور پر پریشان کُن ہوتی ہیں اور یوں نومولود کو اپنا دودھ پلانے کا عزم متزلزل ہونے لگتا ہے۔ دودھ پلانے والی مائیں زیادہ دیر تک بچّے سے دُور نہیں رہ سکتیں، اِس وجہ سے اُن کی سماجی زندگی اور دوسری مصروفیات خطرے میں پڑ جاتی ہیں اور بعض اوقات وہ خود کو الگ تھلگ یا معاشرے سے کٹا ہوا محسوس کرتی ہیں۔
ملازمت پیشہ خواتین کے لیے زچگی کی مختصر چھٹیاں، کام کی جگہوں پر بچّوں کے لیے مناسب انتظام نہ ہونا وغیرہ بہت سی وجوہ میں سے چند ہیں، جن کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی دباؤ کا شکار خاتون حوصلہ ہار دیتی ہے۔ پھر یہ کہ آپریشن کے ذریعے ولادت کے بعد ماں کا دودھ پلانا، قدرتی پیدائش کے مقابلے میں مشکل ہو سکتا ہے۔ اِس معاملے میں اقتصادیات دو متضاد صُورتوں میں ظاہر ہوتی ہے، کہیں منہگا فارمولا دودھ اسٹیٹس سمبل قرار پاتا ہے، تو کہیں مالی دباؤ کی وجہ سے جلد کام پر واپسی خواتین کو مجبور کرتی ہے کہ وہ بچّے کو ڈبّے کا دودھ پلائیں۔
دنیا بَھر میں بریسٹ فیڈنگ سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں اور پرانے خیالات رائج ہیں، جو نئی ماؤں کو بھی بے شمار سوالات، الجھنوں میں ڈالتے ہیں۔مثلاً
(1)معلومات کی کمی کی بناء پر دنیا بَھر کی مختلف ثقافتوں میں پیدائش کے فوراً بعد بچّے کا معدہ صاف کرنے کی غرض سے اُسے گُھٹّی( شہد، شہد مِلا پانی، شَکر کا پانی، سونف، زیرے یا جڑی بوٹیوں کی چائے، نمکین مائع، مکھن یا خالص پانی) دینے کا رجحان ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بچّے کی ہر طرح کی ضروریات قدرتی طور پر ماں کے دودھ سے پوری ہو جاتی ہیں، البتہ گُھٹّی یا کوئی دوسری چیز دینے سے نقصان دہ بیکٹیریا جسم میں جا سکتے ہیں۔
(2) یہ وہم اکثر ماؤں کو پریشان رکھتا ہے کہ اُن کا دودھ کافی نہیں ہے اور بچّے کی تشفّی نہیں ہوتی، جب ہی تو وہ بار بارروتا ہے۔ حقیقت میں دودھ کی اُتنی ہی پیداوار ہوتی ہے، جتنی طلب ہو، یعنی بچّہ جتنا دودھ پیے گا، اُتنا ہی بنے گا۔ بچّے کو دودھ تب پلائیں، جب وہ بھوک کی علامات ظاہر کرے۔
(3)کچھ افراد خیال کرتے ہیں کہ روزمرّہ کی معمولی طبیعت کی خرابی، جیسے نزلہ، زکام یا بخار میں دودھ پلانا بچّے کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، حالاں کہ صحت کی اِس نوعیت کی ناسازی کے دودھ پر منفی اثرات مرتّب نہیں ہوتے اور ماں، بچّے کو دودھ پلا سکتی ہے۔
(4)کچھ مائیں ابتدائی چند دنوں کے تکلیف دہ تجربے سے گھبرا جاتی ہیں۔اصل میں دودھ پلانا غیر آرام دہ یا پریشان کُن نہیں ہے۔ بچّے دودھ پینے کے فطری رجحان کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، تو تھوڑی سی مشق یا عملی مدد سے مائیں بچّے کی درست پوزیشن اور اٹیچمنٹ سیکھ لیتی ہیں، جو دودھ پلانے کو آسان بنا دیتا ہے۔
(5)بعض افراد لاعلمی کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ دودھ صرف ابتدائی کچھ ماہ تک ہی کے لیے مؤثر ہے، جب کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ دو سال یا اُس سے بھی کچھ زیادہ عرصے تک بچّے کے لیے فائدہ مند ہے۔
(6)غلط طور پر سمجھا جاتا ہے کہ بریسٹ کے سائز سے دودھ کی مقدار پر فرق پڑتا ہے۔ درحقیقت، دودھ کی پیداوار کا کام غدود سرانجام دیتے ہیں۔
(7)عام گمان کے برعکس، بریسٹ فیڈنگ سے جسم خراب نہیں ہوتا، جسم میں آنے والے بدلاؤ کا تعلق جِلد کی لچک، جینیات، حمل کے دَوران ہارمونز کی تبدیلیوں اور وزن کی کمی بیشی سے ہے۔
(8)یہ قیاس غلط ہے کہ نوزائیدہ بچّوں کو گرمیوں میں اضافی پانی کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ سچ یہ ہے کہ گرم موسم میں بچّوں کو اضافی پانی پلانا ضروری نہیں، کیوں کہ دودھ 90فی صد پانی پر مشتمل ہوتا ہے اور بچّے کے جسم کو مطلوبہ ہائیڈریشن باآسانی فراہم کر دیتا ہے۔
(9)عوام کی اکثریت خیال کرتی ہے کہ ماں کو کچھ مخصوص غذاؤں سے پرہیز کرنا چاہیے اور کچھ کو بطورِ خاص اپنی غذا میں شامل کرنا چاہیے۔
درحقیقت، رضاعت کے عرصے میں ماں کو اپنی ضرورت کے مطابق مناسب مقدار میں متوازن غذا استعمال کرنی چاہیے۔ یعنی سب کچھ، مگر اعتدال کے ساتھ کھانا چاہیے، البتہ ماہرین شراب نوشی اور کیفین(کافی، چائے، کولڈ ڈرنکس، انرجی ڈرنکس) کے زیادہ استعمال سے خبردار کرتے ہیں۔
زچگی کے طویل مراحل کے بعد فوراً چھوٹے بچّے کی دیکھ بھال اور راتوں کو جاگ کر دودھ پلانے کی وجہ سے خواتین کو آرام میسّر نہیں آ پاتا اور وہ تھکاوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں، ایسے میں اُن کی تقویت اور دودھ پلانے میں ثابت قدمی کے لیے اعانت ضروری ہے۔ خواتین کو دودھ پلانے کے صحیح طریقے اور تیکنیکس سے متعلق ہدایات دینا مستند طبّی عملے کی ذمّے داری ہے اور دودھ کی کمی، بریسٹس میں سُوجن یا درد جیسے عام اور قابلِ حل مسائل کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
دودھ پلانے والی خواتین کی صحت اور خوراک پر خصوصی توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں خواتین کی آگاہی، اُنہیں درست اور بنیادی معلومات کی فراہمی کے ساتھ، خاندان کی حمایت اور معاونت بے حد ضروری ہے۔ تجربہ کار بزرگ خواتین ہمّت افزائی اور مناسب مشوروں سے نئی ماؤں کے اِس مرحلے کو آسان بنا سکتی ہیں۔ نیز، خاندان کے افراد، خصوصاً شوہر کی مدد اور دل جُوئی سے خواتین میں جذبہ پیدا کر کے ایک صحت مند نسل اور خوش حال معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔