• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس دنیا میں آباد انسانوں کی اکثریت کسی نہ کسی انداز میں خدا پہ ایمان رکھتی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جانداروں کی تین قسمیں ہوتی ہیں ۔ 1۔ انسان ۔2۔ جانور ۔3۔پودے ۔ سائنس مگر یہ کہتی ہے کہ زندہ چیزوں کی صرف دو قسمیں ہیں ۔ جانور اور پودے ۔ حیاتیاتی یا سائنسی طور پر انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں ۔رفع حاجت کرتے اور اولاد پیدا کرتے ہوئے انسان ، بندر یابکری میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ موت آتی ہے تو دنیا کا بڑے سے بڑا سائنسدان اور شاعر اس بے بسی سے مرتا ہے ، جیسے کوئی بھی دوسراجانور مرتا ہے ۔ انسان کی تاریخ تین لاکھ سال پہ محیط ہے ۔فاسلز کی بنیاد رکھنے والا ارتقا کا علم مگر یہ بتاتا ہے کہ انسان صرف ایک طرح کا نہیں تھا بلکہ اسکی کئی قسمیں تھیں ۔ یہ ایسا ہی ہے ، جیسا کہ بلی، شیر، جیگواراور ٹائیگروغیرہ کی شکل میں چھوٹی اور بڑی بلیوں کی بہت سی قسمیں ہیں ۔لاکھوں سال پیچھے کا سفر کریں تو انکے آبائو اجداد مشترک نکلتے ہیں ۔

نظریہ ء ارتقا ہوا میں معلق نہیں تھا ۔ اس کی ایک بنیاد ہے ۔ اس علم کی بنیاد فاسلز ہیں ۔ فاسلز کسی جانور کی لاکھوں ، کروڑوں سال پرانی باقیات ہوتی ہیں ، جن پہ بہت سی کہانیاں درج ہوتی ہیں ۔ یہ فاسلز ہیروں سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں ۔قدیم ترین انسانی فاسلز تین لاکھ سال پرانے ہیں ۔ آج پاکستان کے کسی شہر سے ساڑھے تین لاکھ سال پرانے انسانی فاسلز دریافت ہو جائیں تو پوری دنیا سے سائنسدان اوران کی تنظیمیں ان پہ ٹوٹ پڑیں گی ، جیسے غربت کے مارے افریقی ممالک پہ ٹوٹتی رہی ہیں ۔ تین لاکھ سال میں سے قریب دو لاکھ تیس ہزار سال کا وقت انسان نے افریقہ میں گزارا ہے ۔وہیں سب سے زیادہ فاسلز ملے ہیں ۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ پاکستان میں جاری رانا ثناء اللہ اور شیخ رشید کی جنگ کب تمام ہوگی اورفاسلز پڑھنے والے کب پیدا ہوں گے ؟

فاسلز کا علم بتاتا ہے کہ ہومو سیپین یعنی انسان افریقہ میں پیدا ہوا ۔چھوٹی موٹی نقل مکانیاں ہوتی رہی ہیں، 70ہزار سال پہلے لیکن ایک بہت بڑی ہجرت ہوئی ۔اس وقت کئی اور انسانی اسپیشیز مختلف براعظموں میں آباد تھیں ۔ بلی، افریقی شیر، ٹائیگر اور جیگوار ہی کی طرح ۔ آپ نر شیر اور مادہ ٹائیگرکو ایک جگہ بند کر دیں تو مجبوراً وہ اولاد بھی پیدا کر لیں گے ۔

یہ سلسلہ آج سے ستر لاکھ سال پہلے شروع ہوا تھا۔ لاکھوں سال میں انسان کے دانت اور جبڑے چھوٹے ہونا شروع ہوئے ؛حتیٰ کہ اب عقل داڑھوں کیلئے جگہ ہی باقی نہیں رہی ۔اس دوران میں دماغ کا سائز بڑھتا رہا ۔چوالیس لاکھ سال قبل دو ٹانگوں پہ چلنے والے پہلے جانور منظر عام پر آئے ۔ ان کے قد چار فٹ تک تھے اور دماغ ساڑھے چار سوکیوبک سینٹی میٹر۔ جو لوگ پڑھنا چاہیں ، وہ Australopitheceneکے نام سے ریسرچ کر سکتے ہیں ۔ ان میں مشہور ترین ڈھانچہ’’لوسی ‘‘ کا ہے ۔ یہ ایک لڑکی کا ڈھانچہ تھا ، جو 1974ء میں ایتھوپیا سے دریافت ہوا ۔ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے معائنے سے معلوم ہوا کہ یہ 32لاکھ سال پرانے فاسلز ہیں ۔ ان میں کئی انسانی خصوصیات موجود تھیں لیکن دماغ چمپنزی سے ذرا سا ہی بڑا تھا۔ اس کے بہت بعد ہومو ہیبیلس (Homo Habilis)نظر آتا ہے ۔ پتھر کے اوزار استعمال کرنے والے کا دماغ چار پانچ سو سی سی سے بڑھ کر 640سی سی تک پہنچ چکا تھا۔ پھر ہومو اریکٹس ایک ناقابلِ فراموش انسان تھا۔ اس نے آگ استعمال کرنی سیکھ لی تھی ۔ اس کا دماغ ایک ہزار سی سی تھا۔آج ہمارے دماغ کا سائز 1350سی سی ہے۔آج کا انسان جسمانی طور پر بہت کمزور ہے، جسمانی کمزوری ہی کی قیمت پر شاید ہمیں دماغی قوت نصیب ہوئی ہے ۔جسمانی طور پر کمزور انسان مل کر آبادیاں بسانے اور کام کرنے پر مجبور تھا۔ ہماری ہڈیاں اور مسلز دونوں کمزور ہیں ۔ ہم سے پہلے والے فولاد کی طرح مضبوط تھے مگر کم ذہین۔ سب سے آخر میں جو انسان ختم ہوا، اسکا نام ہومو نی اینڈرتھل تھا۔ یہ یورپ میں آباد تھا۔ آج سے بیس ہزار سال پہلے دنیا سے اسکا خاتمہ ہوا۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ہومو سیپین اور نی اینڈرتھلز ایک ہی وقت میں دنیا میں موجود رہے ہیں ۔ جسمانی طور پر ہم نی اینڈرتھلز کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے تھے ۔ نی اینڈرتھل کے ڈی این اے کی تفصیلات شائع ہو چکی ہیں ۔پوری دنیا کے سائنسدان اس کا جائزہ لے چکے ہیں ۔ دنیا میں آج ایسے انسان بھی موجود ہیں ، جن کا ڈی این اے سات فیصد تک ماضی کے ان ختم ہو جانے والے انسانوں پر مشتمل ہے ۔ انہی جینز کی مدد سے تبت کے باشندے انتہائی بلندی پر آسانی سے سانس لے سکتے ہیں۔اس جین کا نام ہےEPAS1 ۔دوسرے انسان وہاں زندہ نہیں رہ سکتے۔

ہم سے پہلے بھی ایسی اسپیشیز آئی ہیں ، جو دنیا بھر میں پھیل گئی تھیں ۔ لیکن سیپینز جیسا کوئی نہ تھا ۔بدقسمتی سے آج Genusہومو کی کوئی اور اسپیشیز دنیا میں موجود نہیں ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ انسانوں کی ایک عظیم اکثریت یہ نہیں مانتی کہ بلیوں کی طرح انسانوں کی بھی کئی دوسری اسپیشیز دنیا میں پائی جاتی تھیں ۔ لوگوں کی ایک عظیم اکثریت نے مگر کب حیاتیات، اناٹومی اور فاسلز کا علم پڑھنے کی زحمت کی ہے۔ مذہب نے مگر کہیں یہ نہیں کہا کہ آدم علیہ السلام کے علاوہ اور کوئی دو ٹانگوں والا اس دنیا میں کبھی پیدا نہیں ہوا۔

تازہ ترین