• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ساؤتھ افریقہ کے دارالحکومت جوہانسبرگ کے نواح میں ایک گلی ایسی ہے جسے دو نوبل انعام یافتہ نیلسن منڈیلا اور ڈیسمن ٹو ٹو جیسے گوہر نایاب کا مسکن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ڈیسمن ٹو ٹو سے ملاقات میں ایک مسلمان نے تہذیبوں کے تصادم پر بحث کی تو ڈیسمن ٹوٹو کا کہنا تھا کہ نہ تو سارے مسلمان دہشت گرد ہیں اور نہ ہی سارے مسیحی۔آخر ہٹلر کی بھی تو کوئی سوچ اور مذہب ہوگا۔اللہ پاک نے انسانیت کی رہنمائی کے لئے جو انبیائےکرام بھیجے ان کا سلسلہ سیدنا آدم ؑسے شروع ہوکر جناب نبی آخر الزماں محمد ﷺتک ہے۔ اسی دین حنیف کی تکمیل سیدنا ابراہیم ؑ ،سیدنا موسی ؑ اور سیدنا عیسی ؑ سے ہوتی ہوئی اسلام تک دیکھی جاسکتی ہے۔ مسلمانوں کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی اولین ہجرتوں میں ہجرت حبشہ کا ذکر آئے گاتو حبشہ کے شاہ نجاشی کا تذکرہ ضرور ہوگا۔جس کے دربار میں سیدنا جعفر طیارؓ نے سورۂ مریم کاحوالہ دیا۔ کلام پاک کی سورۂ روم ایرانی اور رومن قوتوں کی معرکہ آرائی کے تناظر میں فتح کی بشارت دیتی ہے ۔اس لئے کہ کفار مکہ اپنے آپ کو اہل ایران سے قرابت کا حق دار سمجھتے تھے۔اسلام اور مسیحیت کو ایک ہی سلسلے کی کڑی سمجھتے تھے۔ محمدﷺ نے مسجد نبوی میں عیسائی وفد کو قیام پذیر ہونے کا شرف بخشا اور حضرت عمر ؓنے بیت المقدس میں کلیسا میں عیسائی اکابرین اور دیگر غیر مسلموں کو اطمینان دلایا تھاکہ آپ سب کے مذہبی مقامات کی حفاظت اہل اسلام کے ذمہ ہے۔اس دین کے ماننے والے کیسے انسان سے نفرت کرسکتے ہیں۔جو دین مظلوموں کی آہ و پکار پر لبیک کہنے کا درس دیتا ہے ،جو کسی بے گناہ کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔ وہ کیسے ابن آدم سے زیادتی کرسکتے ہیں؟ مسلمانوں کی ریاست میں تو غیر مسلموں کے حقوق اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔ پشاور کی خوبصورت وادی ان غیور و بہادر پاکستانیوں کا مسکن ہے جن کے دل محبت و اخوت پر دھڑکتے ہیں۔ ایک ایسی سرزمین جہاں آج بھی ایسے سر پھرے موجود ہیں جو وطن عزیز سے محبت کو جزو ایمان سمجھتے ہیں۔ قائداعظم نے غیر مسلموں کے حقوق واضح کردئیے تھے اور پاکستان کا آئین اس کی تصدیق کرتا ہے۔ پاکستان میں رہنے والا ہر شخص پاکستانی ہونے کی حیثیت سے معتبر ہے۔ وہ ایک آزاد شہری ہے اور اسے اپنی زندگی اپنے طریقے سے گزارنے کا پورا حق ہے۔ ایک مخصوص گروہ اس پر اپنی اجارہ داری قائم نہیں کرسکتا۔ اسلام نے کسی کو یہ حکم نہیں دیا کہ وہ مذہب کو بنیاد بنا کر کسی کا خون بہائے۔ پشاور کا ایڈورڈ کالج ،گارڈن کالج ،مرے کالج،ایف سی کالج ،ایمرسن کالج کہاں سے شروع کرؤں اور کہاں اختتام۔
ٹیکسلا کا بصارت لوٹانے والا مشن اسپتال یا دیگر مسیحی اسپتال، مسیحی برادری کی شبانہ روز کاوشوں کا مظہر ہیں۔ اسی پاکستانی فوج نے جنرل جولین پیٹرز ،سیسل چوہدری جیسے مایہ ناز سپوت پیدا کئے ہیں۔ جسٹس (ر) کارنیلیس جیسا عظیم فرزند کیسے بھول سکتا ہے۔ پشاور کا کلیسا جہاں دعائیہ عبادت رب ذوالجلال اور جناب مسیح کی تعریف و توصیف بیان کی جارہی تھی۔ جہاں انسانیت اور وطن عزیز کے لئے دعائیں مانگی جارہی تھیں۔ یہ غارت گری اور سفاکیت کا المناک باب ہے۔ میرا تو یہ کامل یقین ہے کہ محمد ﷺ کا کوئی بھی امتی ایسا گھنائؤنا کھیل نہیں کھیل سکتا۔ اسلام وہ واحد مذہب ہے جو کبھی کسی دوسرے مذہب کی جائے عبادت و مقدس مقامات کو نشانہ بنانے کا درس نہیں دیتا۔ سابقہ دورہ حکومت میں کبھی کبھار کوئی وزیر یہ کہنے کی جرأت گوارہ کرلیتا تھا کہ فلاں واقعے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے مگر حیرانی ہوتی ہے کہ موجودہ حکومت ان بیرونی مکاروں کا نام لیتے ہوئے کیوں کتراتی ہے۔ حالانکہ میاں نوازشریف سے لے کر چوہدری نثار کو معلوم ہے کہ طالبان اور حکومت پاکستان کے درمیان دو خطوط کے تبادلوں کے بعد معاملات سست روی سے ہی سہی مگر آگے بڑھ رہے ہیں لیکن اب وہی قوتیں ایسی کارروائیاں کر رہی ہیں جو نہیں چاہتیں کہ مذاکرات کے بعد وطن عزیز میں امن قائم ہو۔ حکومت کے لئے ضروری ہوگا کہ مذاکرات کے حوالے سے کوششوں کو مزید تیز کیا جائے۔ ہمارا دشمن بہت ہوشیار ہے وہ سامنے سے نہیں بلکہ پیٹھ سے وار کررہا ہے۔ملکی سلامتی اور بہتر مستقبل کے لئے نہایت ضروری ہے کہ قوم کو اس مسئلے سے نکال کر اپنا قبلہ درست کر لیا جائے۔ حکمرانوں اور عسکری قیادت کو اس امر کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ طالبان کے اہم گروہوں سے کامیاب مذاکرات کے بعد بھی حکومت کو آپریشن کی ضرورت پڑسکتی ہے کیونکہ ملک میں درجنوں ایسے گروپ بن چکے ہیں جو نام تو طالبان کا استعمال کررہے ہیں مگران کامشن کچھ اور ہے۔جنہیں غیر ملکی بھرپور حمایت حاصل ہے اور ان کا مقصد ملک میں انارکی اور عدم استحکام پیدا کرنا ہےاور ایسے معاملات میں فوج کو اعتماد میں لئے بغیر معاملات کا آگے بڑھنا ممکن بھی نہیں ہوتا۔اسی لئے ہمیں ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ افواج پاکستان اور حکومت ملک کے وسیع تر مفاد میں مشاورت سے فیصلے کررہے ہیں۔ فوجی قیادت نے اپنے سینئر افسران کی شہادت کے بعد بھی مذاکراتی عمل سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ نہیں کیا۔مگر یہ بات تو اب طے ہے کہ اگر اب مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو مجبوراً حکومت کے پاس آپریشن کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔
ہمیں غور کرنا ہوگا کہ وہ کونسی بیرونی قوتیں ہیں جو اس مذاکراتی عمل سے ناخوش ہیں اور اس سلسلے کوختم کرانے میں دن رات مگن ہیں۔ وزیر داخلہ کو چاہئےکہ اگر ایسے شواہدموجود ہیں تو ان کی فوری نشاندہی ہونی چاہئے۔ پشاور میں بے گناہ نہتے مسیحی بھائیوں پر حملہ کسی مذہبی اختلاف پر نہیں بلکہ وہ بیرونی قوتیں ملوث ہیں جن کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کو بتایا جائے کہ پاکستان اقلیتوں کے لئے غیر محفوظ ترین ملک ہے۔ مگر آفرین ہے پاکستانی قوم پر جس نے انسانیت کے اس اوچھے ہتھکنڈے کو ناکام بنادیا ۔دنیا دیکھ لے ہم ایک ہیں۔پاکستان میں رہنے والا ہر شخص پاکستانی ہے۔ایک قابل احترام جس کی جان مال عزت و آبرو ہر چیز پر مقدم ہے۔یاد رہے کہ یہ وطن عزیز کا ہی شرف ہے جس نے اس خطے سے گندھارا تہذیب کو جنم دیا ۔جہاں سے بدھ مت کی تعلیمات فار ایسٹ تک جاپہنچی،جو کٹاس راج اور اینگلاج ماتا اور کلات کے اس مندر کا بھی مسکن ہے۔بابا نانک بھی تو پاکستانی ہیں۔ گردوارا، جنم استھان، پنجاسر میرے وطن کی ہی زیب و زینت ہیں۔ اے دنیا دیکھ ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم اپنی سالمیت کے خلاف اٹھنے والی ہر کوشش کو ناکام بنادیں گے۔ میرے مسیحی بھائیو یہ صرف آپ کا نہیں بلکہ یہ ہمار ا مشترکہ دکھ ہے۔
نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
تازہ ترین