• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عائشہ طارق ،کراچی

اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ انعامات میں سے ایک انعام اُمید ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے، جو ناقابلِ حل اور مایوس کُن دکھائی دینے والے معاملات سے نمٹنے کا جذبہ پیدا کرکے حوصلہ، اُمنگ اور ہمّت عطا کرتی ہے۔ دینِ اسلام میں مایوسی کو کفر کہا گیاہے، کیوں کہ اس کے ذریعے شیطان ان تمام ممکنہ راستوں کو مسدود دکھاتا ہے، جو اللہ کشادہ کرنے پر قادر ہے۔ نااُمیدی اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور رحمت کا انکار ہے، جب کہ اُمید نُور کی وہ کرن ہے، جو ہاتھ تھام کر منزلِ مقصود تک پہنچا دیتی ہے۔ 

لیکن دیکھا گیا ہے کہ بعض اوقات حالات اتنے ناساز گار ہوجاتے ہیں کہ اُمید دَم توڑ دیتی ہے اور نااُمیدی اپنے حصار میں جکڑ لیتی ہے۔ یاد رکھیے، جب انسان ناموافق حالات میں کسی بھی صُورت اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا، تو یہ قدرت کا اصول ہے کہ تمام تر وسائل اس کی مدد میں لگ جاتے ہیں، لہٰذا آج سے یہ تہیّہ کرلیں کہ خود مایوس ہونا ہے، نہ دوسروں میں مایوسی پیدا کرنی ہے۔

اسی طرح یہ ہمارا اجتماعی مزاج بن چُکا ہے کہ جب بھی کسی سے ملاقات ہو، تو لامحالہ حالات کا شکوہ شروع کردیتے ہیں۔ کبھی منہگائی اور بےروزگاری کی شکایت کرتے ہیں، تو کبھی حکم رانوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں اور کچھ نہیں تو موسم کی شدّت کا رونا روتے ہیں۔ اس روش سے ہم اپنے دِل، دماغ اور معاشرے کو کس قدر زہر آلود کر رہے ہیں، اس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں۔ 

اس کے برعکس، اگر ہم مثبت طرزِفکر اپنائیں تو یہ مایوسی کے پھیلتے زہر کا تریاق بن سکتا ہے۔ جب کسی سے ملیں، تو چہرے پر مُسکراہٹ ہو ۔ اگر کوئی کسی پریشانی کا تذکرہ کرے، تو اُمید افزاء جملوں اور دُعاؤں سے اس کا حوصلہ بڑھائیں۔یقین جانیے، یہ چھوٹا سا عمل بھی کسی کی زندگی میں انقلاب برپا کر سکتا ہے، دِل میں اُمید کا دیا روشن کر سکتا ہے۔

مطالعہ، ورزش کو معمول کا حصّہ بنالیں۔ خود کو مثبت کاموں میں مصروف رکھیں، کیوں کہ خالی دماغ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔ وہی شیطان جو انسان کو مایوسیوں میں غرق کر دیتا ہے۔ اسی طرح بے کاری بھی انسان کو نا اُمیدی کی طرف لے جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دست یاب اسباب اور وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ممکنہ کوششیں کرتے رہیں، تاکہ مایوسی ہمارے قریب بھی نہ پھٹک سکے۔

قوّتِ ارادی مضبوط رکھیں کہ یہ ایک ایسی طاقت ہے، جو ناممکن کو بھی ممکن کردکھاتی ہے۔ پھر ہمیں زندگی میں مقصدیت کو بھی اہمیت دینی چاہیے، کیوں کہ بے مقصدیت، نااُمیدی کی جڑ بن سکتی ہے۔ بے مقصد انسان کی مثال اس جھاڑ جھنکار کی سی ہے، جو کسی کو پھل دیتا ہے، نہ سایا، بلکہ اپنے قریب آنے والوں کے لیے باعث اذیت ثابت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، با مقصد انسان اپنی ذات کو تو فائدہ پہنچاتا ہی ہے، ساتھ بے شمار افراد بھی اس سے فیض یاب ہوتے ہیں۔

مایوسی ایک نقشِ باطل ہے، جو دِل و دماغ میں پختہ ہوجائے، تو باصلاحیت و ہنر مند انسان کو بھی بے کار اور نکما بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار ذہنی و جسمانی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اب یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ان صلاحیتوں کو پہچان کر اپنی ذات، خاندان اور معاشرے کے لیے مفید بن جائیں۔

سنڈے میگزین سے مزید