• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اپنے گزشتہ کالم میں پاکستان اور سری لنکا کی معاشی صورتحال کا موازنہ پیش کیا تھا۔ آج سری لنکا میں پیٹرول، کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات دستیاب نہیں، طویل لوڈشیڈنگ کی وجہ سے حکومت کے خلاف مظاہرے جاری ہیںاور ملک خانہ جنگی کا شکار ہے جب کہ عوام نے صدر راجہ پاکسے اور ان کے برسراقتدار اہل خانہ سے اقتدار چھین لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ چین جو ماضی کے قرضوں کی عدم ادائیگی کے باعث سری لنکا کی ایک اہم بندرگاہ 99سال کیلئے حاصل کرچکا ہے، 3ہفتوں کے مذاکرات کے بعد بھی سری لنکا کو ڈیفالٹ سے بچانے کیوں نہیں آیا؟

سری لنکا اور پاکستان کی معاشی اور سیاسی صورتحال میں مماثلت پائی جاتی ہے۔سری لنکا کے قرضے جی ڈی پی کے 111فیصد تک پہنچ گئے تھے جبکہ پاکستان کے قرضے جی ڈی پی کے 82 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔ سری لنکا بھی پاکستان کی طرح سیاسی عدم استحکام کا شکار تھا جہاں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ سری لنکا کی طرح پاکستان میں بھی کرنٹ اکائونٹ خسارے میں اضافہ، زرِمبادلہ کے ذخائر اور بیرونی سرمایہ کاری میں کمی، اسٹاک مارکیٹ میں مندی، بڑھتی ہوئی امپورٹس اور تجارتی خسارے میں ناقابل برداشت اضافے کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر بمشکل ایک سے ڈیڑھ مہینے کی امپورٹس کی ادائیگی کے رہ گئے ہیں جبکہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ سری لنکا کی طرح چین نے بھی پاکستان پر واجب الادا 3.4ارب ڈالر کے قرضے (سافٹ ڈپازٹ) رول اوور نہیں کئے ہیں۔ سی پیک کے 14ارب ڈالر کے قرضے اور سافٹ ڈپازٹ ملاکر چین کے پاکستان کو قرضے 18ارب ڈالر بنتے ہیں جو ہمارے مجموعی قرضوں کا تقریباً 20فیصد ہیں جبکہ چین نے مزید قرضہ دینے کے بجائے سری لنکا کی طرح پاکستان کی ایکسپورٹس میں اضافے کو ترجیح دی۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو سبق حاصل کرنا چاہئے۔ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر سخت معاشی فیصلے کرنا ہوں گے جن میں IMF قرضے کی بحالی کے لیے پیٹرول پر سبسڈی ختم کرنا بھی شامل ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ حکومت نے گاڑیوں، موبائل اور دیگر لگژری اشیاء کی امپورٹ پر پابندی عائد کردی ہے جس سے شارٹ ٹرم میں حکومت کو سالانہ 6ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔ ایکسپورٹ بڑھانے کے لیےآئی ٹی سیکٹر کو فروغ دینا ہوگا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر میںاضافےکے لیے اسٹیٹ بینک کو چاہئے کہ فی ڈالر ایک روپیہ اضافی ادا کیا جائے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو فوری طور پر اپنے اخراجات کم کرنا ہوں گے جبکہ لانگ ٹرم اقدامات میں زراعت کے شعبے کودوبارہ فعال کر کے ہمیں زرعی اجناس میں خود کفیل ہونا پڑے گا ، گیہوں، چینی، کھاد، دالیں اور دیگر زرعی اجناس کی مقامی سطح پر پیداوار کو یقینی بنانا ہوگا اور بجلی پیدا کرنے کے لیے مہنگا فرنس آئل امپورٹ کرنے کے بجائے توانائی کے سستے متبادل ذرائع اختیار کرنا ہوں گے۔ حکومت کو سری لنکا کی طرح عوام کو خوش کرنے کیلئے ٹیکسوں کی شرح میں کمی جیسے وقتی مقبول فیصلوں سے اجتناب کرنا پڑے گا۔ پی ٹی آئی حکومت نے پیٹرول اور ایل این جی کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں بڑھنے کے باوجود ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرکے قومی خزانے پر ہر ماہ 118 ارب روپے اور 4 ماہ میں 472ارب روپے کا اضافی ناقابلِ برداشت بوجھ ڈالا۔

وزیراعظم شہباز شریف گزشتہ دنوںکراچی تشریف لائے جہاں انہوں نے بزنس مینوں اور تاجروں سے ملاقات کی۔ شہباز شریف ایک محنتی اور قابل ایڈمنسٹریٹر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ پاکستان کی معیشت کو مشکل حالات سے نکالیں گے جس کیلئے انہیں پاکستان کے دوست ممالک چین، سعودی عرب اور یو اے ای کی مدد حاصل کرنا ہوگی۔ نئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے حال ہی میں یو اے ای، امریکہ اور چین کا نہایت کامیاب دورہ کیا جہاں انہوں نے ان ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کے دوران گزشتہ حکومت کی غلط فہمیوں کو مثبت انداز میں دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ قوم نے بلاول بھٹو کے سابق وزیراعظم عمران خان کے دورۂ روس کا دفاع کرنے اور خطے میں قیامِ امن کے لیے کی گئی کوششوں کو نمایاں کرنے کو سراہا جس سے مغرب میں کسی حد تک برف پگھلی ہے۔ بیرون ملک دوروں پر جانے سے پہلے میری وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے ملاقات ہوئی تھی جس میں، میں نے انہیں IMF، FATF، GSP اور CPEC پر متعلقہ ممالک کی سپورٹ کیلئے درخواست کی تھی۔

پاکستان کی آزادی کے پہلے 50برس میں ملکی جی ڈی پی گروتھ نے متاثر کن ترقی کی۔ 1970ء تک ہماری جی ڈی پی گروتھ 11 فیصد اور 1980ء میں 10فیصد رہی لیکن وقت کے ساتھ ہم کم گروتھ اور بلند افراطِ زر کے ساتھ ایک زرعی اور صنعتی پاکستان کے بجائے ٹریڈنگ اسٹیٹ بن گئے ہیں۔ اس وقت ہماری معیشت میں زراعت کا حصہ 20فیصد، صنعت کا 20فیصد اور سروس سیکٹر کا حصہ 60فیصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری امپورٹ بڑھ کر 75ارب ڈالر جبکہ ایکسپورٹ صرف 30ارب ڈالر رہ گئی ہیں جس کی وجہ سے ہمیں سالانہ45ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے جسے پورا کرنے کیلئے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حدتک کم اور روپے کی قدرڈالر کے مقابلے میں 202روپے کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ پاکستان کو مستقل بنیاد وںپر معاشی بحران سے نکالنے اور سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے سیاسی اختلافات بھلاکر میثاق معیشت کے تحت ایک نئی طویل المیعاد حکمتِ عملی بناناہوگی، پالیسیوں کے تسلسل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کا اس پر اتفاق ضروری ہے تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوسکے۔

تازہ ترین