گزشتہ 75برس میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کے تاریخی اعدادوشمار کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ نامساعد حالات کے باوجود قیامِ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں بھارت کے مقابلے میں ہماری معیشت اور کرنسی بہت بہتر تھی۔ آزادی کے قریباً 7 ماہ پندرہ دن کے بعد یکم اپریل 1948 ءکو پاکستان نے اپنی کرنسی کا اجرا کرکے مالی اور تجارتی طور پرمالی خود مختاری کا آغاز کیا، پھریکم جولائی 1948 ءکو اسٹیٹ بینک کا قیام عمل میں آیا، جس کے بعد پاکستان ایکسچینج کا کنٹرول مرکزی بینک نے سنبھال لیا۔
18ستمبر 1949 ءکوعالمی معیشت کا ایک بڑا ا ہم فیصلہ ہوا، جب برطانیہ نےڈالر کے مقابلے میں پاؤنڈ کی قیمت کم کرنے کااعلان کیا، جس کے بعدپائونڈ کم ہوکر آٹھ اعشاریہ 3ڈالر کے برابر ہوگیا۔ برصغیر پاک وہند کی معیشت کے لیے بڑا واقعہ تھا،جس کے نتیجے میں بھارت سمیت کئی ممالک اپنی کرنسی کی قدر کم کرنے پر مجبور ہوئے، تاہم نوزائیدہ مملکت کے وزیراعظم، لیاقت علی خان نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم کرنے سے انکار کردیا۔
حکومت کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جوٹ اور روئی کا سب سے بڑا خریدار امریکا ہے، لہٰذا فیصلہ ہوا اسٹرلنگ پاؤنڈ تقریباً پاکستانی کرنسی 9روپے کے برابر ہوگا اور پاکستان کے سو روپے بھارت کے144روپے کے برابر ہوں گے۔ یاد رہے، اس وقت پاکستان دولتِ مشترکہ کا واحد رکن ملک تھا، جس نے اپنی کرنسی کی قدر بحال رکھی۔
اس فیصلے کو عالمی طور پربڑی حیرت سے دیکھا گیا۔ اُس وقت بھارت نے، جس سے ہمارے بہت سے مالی معاملات چل رہےتھے، اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان سے ہرقسم کے کاروباری رابطے منقطع کردیئے، لیکن پھر تھک ہار کر پچیس فروری1951ء کو اس نے غیر مشروط پاکستانی کرنسی کی قدر تسلیم کرلی، جس کے بعد بھارتی کرنسی ایک سو روپے کے مقابل پاکستانی کرنسی 78روپے آٹھ آنے ایک پیسے ہوگئی۔
وزیراعظم لیاقت علی خان نےمنٹگمری (ساہیوال) جلسے میں خطاب کرتے ہوئے بڑے فخر سے کہا تھا ’’ہم پرکرنسی کی قیمت گھٹانے کےلیے کافی دبائو ڈالا گیا،مگر ہم کسی دباؤ میں نہیں آئے، آج ہماری شرائط پر بھارت تجارت پر مجبور ہے۔‘‘اس تناظر پر 1947ء سے اکتوبر1958ء تک جمہوری اورپھر 1971ء تک فوجی حکومت کا جائزہ لیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی و معاشی اتارچڑھاؤ کے باوجود ان ادوار میں روپے کی قدر بہت بہتر رہی تھی۔
دسمبر1971ء میں بھارتی جارجیت کے سبب سقوطِ ڈھاکا کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین، ذوالفقار علی بھٹو وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ پاکستانی تاریخ کا یہ نازک ترین دور تھا، بھارتی جارحیت کے سبب جغرافیائی اور معاشی طور پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ چکا تھا۔ حالات بدل چکے تھے، ملک کو عالمی مالیاتی اداروں سمیت کئی طرح کے دباؤ کا سامنا تھا۔
اس مشکل ترین دورمیں اس وقت کی حکومت نے اپنی کام یاب سفارت کاری سےکئی مشکل لیکن سود مند فیصلے کیے۔ 11مئی 1972ء کو بھٹو دورِ حکومت میں ڈالر کی قیمت چارروپے 70پیسے سے بڑھ کر گیارہ روپے مقرر کردی گئی، اس دوران معمولی ردوبدل جاری رہا اور جولائی1977ء کو پی پی پی کے پہلے دورِحکومت کے اختتام تک ڈالر9 روپے 90 پیسے رہا۔
5جولائی1977ءکو ملک میں آرمی چیف، جنرل محمد ضیاالحق نے عنانِ حکومت سنبھال لی۔ مئی 1978ء تک ڈالر 9روپے 90پیسے میں مارکیٹ میں دست یاب تھا۔ جنرل ضیاالحق کے دورِ حکومت میں افغانستان میں روسی مداخلت کے نتیجے میں پاکستان اس محاذ پرفرنٹ لائن اسٹیٹ بن گیا۔ اس دوران امریکا اور اس کے اتحادیوں سے بھرپور امداد، آسان اقساط پر قرضے اور گزشتہ قرضوں کی ادائیگیوں میں سہولت سمیت ہر طرح کی بھرپور امداد کی صُورت میں ڈالر کی ریل پیل ہونے کی وجہ سے اُس زمانے میں پاکستانی کرنسی خاصی مستحکم رہی۔
17اگست1988ء کو جب جنرل ضیاالحق طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوئے، تو اُس روزڈالر 18روپے 36 پیسے کا تھا۔ اُس دور میں ڈالرقریباً 10روپے منہگا ہوا۔ 1988ء کے آواخر میں طویل جدوجہد کے بعدپاکستان پیپلزپارٹی کو بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پھر اقتدار کا موقع ملا۔ عالمِ اسلام اور پاکستان کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم نے 2 دسمبر 1988ء کو وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا، تو ڈالر کی قیمت فروخت 18روپے 81 پیسے اور قیمتِ خرید 18 روپے 61 پیسے تھی۔ 6اگست 1990ء کو جب ان کی حکومت برطرف کی گئی، تو ڈالر 21روپے85 پیسے کا تھا۔
6 نومبر1990ء کو پاکستان مسلم لیگ کے میاں نواز شریف پہلی مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اُس وقت ڈالر کی قیمت فروخت 22 اور قیمت خرید21 روپے 78 پیسے تھی۔ اُن کے دورِ حکومت میں متعدد سرکاری اداروں کی نج کاری سمیت کئی بڑے منصوبے تشکیل دیئے گئے۔ 8جولائی 1993ء کو جب وہ حکومت سے مستعفی ہوئے تو ڈالر کی قیمتِ فروخت 28 روپے 31 پیسے اور قیمت خرید 28روپے تھی۔ 19اکتوبر 1993ء کو اقتدار پھر پیپلزپارٹی کے حصّے میں آیا۔
اس وقت ڈالر کی قیمتِ خرید 30 روپے 23 پیسے اور فروخت 29 روپے 92 پیسے تھی۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے زیر قیادت یہ حکومت بھی اپنی میعاد پوری نہ کرسکی۔ 5 نومبر1996ء میں جب اُن کی حکومت کا خاتمہ ہوا، تو ڈالر 43 روپے پر جاپہنچا۔ 17فروری1997ء نواز شریف حکومت دوسری بار اقتدار میں آئی، تو ڈالر کی قیمت خرید 41روپے اور فروخت 41روپے 5پیسے پر پہنچ گئی۔ میاں نواز شریف کے اُس دورِ حکومت میں سرکاری اداروں کی نج کاری سمیت کئی بڑے منصوبے شروع ہوئے۔
اُن کے اُس دَور میں بھارتی جارجیت عروج پر تھی۔ انتہا پسند جماعت بی جے پی برسرِ اقتدار تھی، اس نے پاکستان کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہوئے 28مئی1998ء کو ایٹمی دھماکا کردیا۔ جس کے بعد بھارتی انتہا پسند قیادت کی جانب سے سنگین نتائج کی دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، تو پاکستان کو بھی جواباً ایٹمی دھماکے کرنے پڑے۔ عالمی طور پر اس کا سخت ردّعمل آیا اور پاکستان کو ہرطرح کی معاشی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اُس وقت کی حکومت نے حالات سے نمٹنے کے لیے کئی کڑے فیصلے کیے، لیکن میاں محمد نواز شریف کی یہ حکومت بھی اپنی میعاد پوری نہ کرسکی۔
12 اکتوبر 1999ء کو حکومت کے خاتمے کے وقت ڈالر کی قیمتِ فروخت 54 روپے 34 پیسے اور خرید 54 روپے 39 پیسے تھی۔ 12 اکتوبر 1999کو جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمتِ فروخت 54 روپے 34 پیسے اور خرید 54 روپے 39 پیسے تھی۔ اُس وقت بھی پاکستان، افغانستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ اور امریکی اتحادی تھا۔
اس دوران پاکستان کو جانی و مالی ہر طرح کے نقصان کا سامنا تھا، لیکن اس کے ساتھ امداد، آسان شرائط پر قرض اور قرض کی ادائیگیوں کو موخر کرنے سمیت عالمی برادری کی جانب سے مالی طور خاطر خواہ سپورٹ رہی۔ تاہم، 18فروری 2008ء کے انتخابات میں جنرل پرویز مشرف کی مخالف جماعتوں کی کام یابی کے بعد ان کی اقتدار پر گرفت کم زور پڑگئی، جس کے بعد 19فروری 2008ء میں ڈالر کی قیمتِ فروخت قریباً 63روپے ریکارڈ کی گئی۔
مارچ 2008ء میں اقتدار چوتھی مرتبہ پاکستان پیپلزپارٹی کے حصّے میں آیا۔ 25مارچ 2008ء کو یوسف رضاگیلانی نے وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تو اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت خرید 62 روپے 80 پیسے اور فروخت 63 روپے تھی۔ نئی حکومت کے چار ماہ سیاسی کشیدگی پر مشتمل تھے۔ 18 اگست 2008ء کو صدر پرویز مشرف مستعفی ہوئے، تو ڈالر کی خرید و فروخت 74 روپے 50 پیسے سے 75روپے 50 پیسے ہورہی تھی۔ اس وقت ملک میں دہشت گردی، امداد میں تخفیف اور مشرف دور ِحکومت کے موخر قرضوں کی ادائیگی سمیت حکومت کو اندرونی و بیرونی کئی چیلنجزکا سامنا تھا۔
مارچ 2013ء میں جب پی پی حکومت نے اپنی میعاد مکمل کی، تو ڈالر 99 روپے کا ہوچکا تھا۔ روپے کی قدر میں سب سے زیادہ گراوٹ پیپلزپارٹی کے اسی دور حکومت میں ہوئی۔ جون 2013ء سے مئی 2018ء تک مسلم لیگ ن اقتدار میں تھی۔ میاں محمد نواز شریف تیسری مدت کے لیے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ اس دوران ڈالر کی قیمتِ خرید 99روپے 65 پیسے اورقیمت فروخت 99 روپے 85 پیسے تھی۔ پھر میاں محمد نواز شریف کی عدالتی نااہلی کے بعد 31مئی 2018ء کو شاہد خاقان عباسی کی قیادت میں ن لیگ حکومت نے اپنی مدت پوری کی تو ڈالر انٹربینک میں115روپے67 پیسے تک جا پہنچا۔
18اگست 2018ء کو جب تحریکِ انصاف کے چیئرمین، عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا، تو اس روز انٹر بینک میں ڈالر122 روپے پچاس پیسے میں فروخت ہورہا تھا۔ جب کہ تین سال نو ماہ بعد(10اپریل2022ء )کو ان کی وزارتِ عظمیٰ ختم ہونے کے بعد ڈالر186 روپے پچاس پیسے تک جاپہنچا۔ تحریکِ انصاف کی حکومت میں روپے کی قدر میں پہلی مرتبہ ایک ہی دن میں نمایاں کمی اور ڈالر میں 12روپے 75پیسے اضافہ ان کی حکومت کے قیام کے 51ویں روز 9اکتوبر2018ء کو پہلی مرتبہ سامنے آیا۔ اُس روز انٹربینک میں ڈالر کی قیمت 124روپے 25 پیسے سے بڑھ کر137روپے ہوگئی تھی۔ دوسرا نمایاں جھٹکا 16مئی 2019ء کو سامنے آیا، جب ڈالر 5روپے13پیسے اضافے کے ساتھ 146روپے 52 پیسے کا ہوگیا۔
بہرحال، ماضی میں کئی ادوارِ حکومت میں کبھی معاشی مجبوری اور کبھی معاشی حکمتِ عملی کے تحت روپے کی قدر میں بتدریج کمی دیکھی گئی۔ تاہم، تحریکِ انصاف کی حکومت میں روپے کی ریکارڈ توڑ گراوٹ ہوئی، ڈالر مضبوط ترہوتا چلا گیا اور روپیا تاریخی بے قدری کا شکار رہا اور اس دوران مجموعی طور پر ڈالر 64روپے سے زیادہ منہگا ہوا۔
ناقدین اسے پچھلی حکومت کی ناقص پالیسی قراردے رہے ہیں، جس کی قیمت موجودہ حکومت اورعوام کو چکانا پڑرہی ہے۔ ماہرینِ اقتصادیات کے مطابق روپے کی قدر میں بہتری کے لیے آئی ایم ایف سے معاہدے کے نتیجے میں زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھیں گے، جس سے عالمی سطح پر ہماری مالی ساکھ بہتر ہوگی، جو روپے کی قدر بحال کرنے میں مددگار بنے گا۔
دنیا کی 10 بڑی اور مضبوط کرنسی
پیٹرول کی دولت سے مالا مال مشرقِ وسطیٰ کے پانچ عرب مسلم ممالک، جو اگرچہ آبادی اور رقبے میں تو کم ہیں، لیکن ان کی کرنسی کا شمار دنیا کے ابتدائی پانچ مضبوط کرنسیز میں ہوتا ہے۔ جس کے بعد یورپ اور امریکا کا نمبر آتا ہے۔
کویت: عراق اور سعودی عرب کی سرحدوں سے منسلک کویت کا دینار دنیا کی سب سے زیادہ قدر والی کرنسی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی بھاری برآمدات اس کی مالی مضبوطی کی بڑی وجہ قرار دی جاتی ہے۔ ایک کویتی دینار کی قیمت 3اعشاریہ دوسات ڈالر ہے۔ پاکستانی روپے میں اس کی قدر650 اعشاریہ چار صٖفر ہے۔
بحرینی دینار: بحرین خلیج فارس میں ایک جزیرے پر مشتمل چھوٹا سا ملک ہے، جس کا انحصار خام تیل اور قدرتی گیس کی برآمدات پر ہے اور یہی اس کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔ کویتی کرنسی کے بعد بحرینی دینار دنیا کی دوسری بڑی کرنسی ہے۔ ایک بحرینی دینار کی قیمت تقریباً دو اعشاریہ 65 ڈالر ہے۔ پاکستانی روپے میں اس کی قدر528 اعشاریہ صفر سات ہے۔
عمانی ریال: متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور یمن سے سرحدی طور پر جڑے سلطنت عمان کے ریال کا شمار دنیا کی تیسری بڑی کرنسی میں ہوتا ہے۔ اس کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تیل ہے۔
اردنی دینار: اردن کا زیادہ تر حصّہ صحرائے عرب پر مشتمل ہے۔ تاہم، اس کے شمال مغربی حصّے پر زرخیز علاقہ موجود ہے۔ اس کے مشرق میں سعودی عرب اور مغرب میں اسرائیل ہے۔ ریاست کی واحد بندرگاہ کو اسرائیل، مصر اور سعودی عرب بھی مشترکہ طور پر استعمال کرتے ہیں۔ دینار جی او ٹی سرکاری کرنسی ہے، جس کا شمار دنیا کی چوتھی بڑی کرنسی میں ہوتا ہے۔
پاؤنڈ: برطانیہ کی سرکاری کرنسی پائونڈ اسٹرلنگ کا شمار دنیا کی پانچویں اعلیٰ ترین کرنسی میں ہوتا ہے۔ اٹھارہویں صدی کی ابتدا سے انیسویں صدی کے دوسرے عشرے تک دنیا پر برطانوی پائونڈ کی حکمرانی رہی۔ پھر اس کی جگہ امریکی ڈالر نے لے لی۔ تاہم، پائونڈ کا شمار آج بھی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کرنسی میں ہوتا ہے۔ ایک پائونڈ کی قیمت ایک اعشاریہ دو چھے ہے اور پاکستانی روپے میں قیمت 249 روپے ہے۔
جبرالٹرپاؤنڈ: جبرالٹر، برطانیہ کا خودمختار چھوٹا علاقہ ہونے کے باوجود مضبوط معیشت کا حامل ہے۔ جبرالٹر پائونڈ اس کی سرکاری کرنسی ہے۔ یہ کرنسی برطانوی پائونڈ کے مساوی قیمت پربھی تبادلہ کرتی ہے۔
یورپی یورو: عالمی سطح پر ڈالر کے بعد یورپی یورو سب سے معروف مستحکم کرنسی ہے۔ رواں صدی کے آغاز سے اب تک اس کا استعمال یورپ سمیت پوری دنیا میں ہورہا ہے۔ پاکستانی روپے میں ایک یورو211 روپے کے قریب ہے۔
فرانک سوئس: یورپ میں واقع سوئٹزرلینڈ دنیا کا سب سے خوب صورت اور پرامن ملک سمجھا جاتا ہے۔ سالانہ لاکھوں سیّاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں کی کرنسی، فرانک سوئس کی قیمت ایک اعشاریہ صفر چار فی ڈالر ہے، جب کہ پاکستانی روپے میں اس کی قدر 207اعشاریہ22ہے۔
امریکی ڈالر: عالمی قوت، امریکا کی سرکاری کرنسی کی قدر ابتدائی دیگر ممالک کی کرنسی کے مقابلے میں اگرچہ کم ہے، لیکن عالمی طور پر اسے سب سے قابلِ اعتبار کرنسی تصور کیا جاتاہے۔
کینیڈین ڈالر: برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے والا کینیڈا، امریکا کا ہم سایہ، صنعتی اور ترقی یافتہ ملک ہے۔ اس کی معیشت کا انحصار قدرتی وسائل اور تجارت پر ہے۔ اس کی کرنسی کا نام کینیڈین ڈالر ہے۔ پاکستان میں فی کینیڈین ڈالر 158روپے کے قریب ہے۔
(واضح رہے، ان کرنسیز کی پاکستانی روپے سے تبادلے کی شرح 2جون 2022ء کی بنیاد پر تحریر کی گئی ہے۔)