• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روز بلال الرشید کے کالم ’’مذہب اور ارتقا ‘‘کی آخری دو لائنیں مجھےمیرے بیٹے صاحب منصور نے یو کے سے وٹس ایپ کیں ۔’’مذہب نے مگر کہیں یہ نہیں کہا کہ آدم علیہ السلام کے علاوہ اور کوئی دو ٹانگوں والا اس دنیا میں کبھی پیدا نہیں ہوا‘‘۔ اور لکھاکہ میں نے قرآن حکیم کی کئی تفاسیر کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کے مطابق دنیا میں دو ٹانگوں پر چلنے والے پہلے انسان آدم علیہ اسلام تھے۔ پلیز وضاحت کریں ‘‘ سوال ذرا خطرناک تھا سو جواب دینا ضروری سمجھا۔دراصل ڈارون کی پیدائش سے کوئی چھ سو سال پہلے ارتقا کی تھیوری مولانا رومی نے اپنی مثنوی میں تحریر کردی تھی۔

آمدہ اول بہ اقلیم جماد

و ازجمادی گر نباتی اوفتاد

یعنی ابتدا میں انسان مٹی تھا پھر نباتات میں ڈھل گیا پھر حیوان بنا اور پھر انسان۔ تیسری صدی ہجری کے علامہ احمد ابن مسکویہ نے اپنی کتاب ”الفوز الاصغر“ میں نظریہ ارتقاءپر بحث کرتے ہوئے وہی کچھ لکھا جسے ڈارون نے سائنسی طور پر ثابت کرنے کی کوشش کی۔اس پر مولانا شبلی نعمانی نے بھی اپنی کتاب’’ علم الکلام اور الکلام‘ ‘میں تفصیلی بحث کی ہے۔ مگر سوال اپنی جگہ پر رہا کہ قرآن میں بیان کردہ تخلیق ِآدم کے واقعہ کے ساتھ نظریہ ِارتقا کو کیسے جوڑا جائے۔ شاید سب سے پہلے تفسیر کشف الاسرار میں قصہ آدم و حوا کو اسی انداز میں دیکھا گیا۔ سرسید احمد خان نے اس سلسلے میں اس کے بہت حوالے درج کئے ہیں کہ تخلیق کی ابتدا مٹی سے ہوئی۔ اس مٹی کو پانی سے زندگی ملی۔اس نے تم کو کئی دوروں سے گزار کر پیدا کیا“۔”انسان پر ایک ایسا دور گزر چکا ہے جب وہ شے مذکورہ نہیں تھا پھر ہم نے انسان کو حیوانی حالت میں بدل دیا اور اس کی پیدائش نطفہ امشاج سے ہونی شروع ہوئی ۔اور وہ حوالے سامنے آئے جس میں قرآن حکیم یہ بتاتا ہے کہ ہر چیز میں جوڑے ہیں حتیٰ کہ نباتات میں بھی نراور مادہ کے جوڑے ہیں۔ اور یہ کہ زندگی کی ابتدامیں مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے جمادات و نباتات کا سفر طے کرتے ہوئے حیوانات وجود میں آئے پیٹ کے بل رینگ کر چلنے والے ، دوپائوں پر چلنے اور چارپائوں پر چلنے والے۔ اور یہ بھی کہ اللہ کا امر ہزاروں سال میں مکمل ہوتا ہے۔لیکن اِن سارے قرآنی حوالوں کے ارتقائی مفہوم اپنی جگہ مگر میں ذاتی طور پرقرآنی قصہ آدم و حوا کی سچائی سے بھی اِنکار نہیں کرسکتا ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بات سے ( انسان پر ایک ایسا دور گزرا ہے جب وہ مذکورہ شے نہیں تھا یعنی اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی )یہ بات کیسے نکالی جا سکتی ہے کہ وہ اُس وقت جسمانی و ذہنی اعتبار سے ایک مکمل انسان نہیں تھاجب کہ اللہ تعالیٰ اس سے آگے یہ بھی فرماتا ہے’ پھر ہم نے اس کو حیوانی حالت میں بدل دیااس کی پیدائش نطفہ سے شروع ہوئی‘ ۔اس کا صاف مطلب یہی نکل رہا ہے کہ ارتقائےآدم میں یہ اس دور کی باتیں ہیں جب وہ جماداتی اور نباتاتی حالت میں تھاکیونکہ نطفہ سے پیدائش کا سلسلہ حیوانی دور میں شروع ہوتا ہے۔ پھر جہاں تک آئس ایجز کی بات ہے تو وہ ایک ملین سال سے لے کر پچھلے دس ہزار سال تک پھیلی ہوئی ہیں۔اگر کوئی یہ کہے کہ قرآن حکیم میں جس آدم کا ذکر آیا ہے وہ یہی پچھلے تیس ہزار سال والا آدم ہے جو آئس ایج کے خاتمہ پر دنیا میں بچ گیا تھا اور اسے اللہ تعالیٰ نے شعور سے بہرہ ور فرما دیااوراس کے ثبوت میں یہ کہے کہ یہ سوچنے والا انسان اگر شروع سے ہوتا تو انسان بہت پہلے ہی ترقی کی یہ تمام منازل طے کر چکا ہوتا۔ ہم جن زمانوں کو فوسلز کی مدد سے کھوجتے ہیں وہ چیونٹی سے بھی کم رفتار میں چل رہے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ہم اس بات کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکتے کہ اس وقت آدم کے پاس شعور نہیں تھا ۔اگر شعور پچھلے تیس چالیس ہزار سال میں انسان کو ملا ہے تو پھر پچھلے تیس چالیس ہزار سال میں انسانی ترقی کی رفتاربھی اتنی کم کیوں ہے کہ پچھلی ایک صدی اس کے مقابلے میں کسی براق کی طرح محسوس ہوتی ہے۔تو کیا یہ سوچا جائے کہ پچھلے ایک ڈیڑھ سو سال میں خدا نے پھر زمین پر کوئی نیا شعور بھیجا ہے ۔ میرے نزدیک قرآنِ حکیم کی اس آیت کا کوئی تمثیلی مفہوم ممکن نہیں ”ہم نے انسان کو کھنکتی ہوئی مٹی سے پیدا کیاجو آب آمیز گارے سے بنی ہوئی تھی اور جنوں کو اس سے پہلے پیدا کیاآگ سے جو گرم ہوا کی صورت میں تھی اور اس وقت کو یاد کر جب ترے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی اور گارے سے بشر پیدا کرنے والا ہوں پھر جب میں اس کی قوتوں کو مکمل کرلوں اور اس میں اپنی روح ڈال دوں تو اس کے سامنے فرماں برداری اختیار کرتے ہوئے جھک جائو“کچھ لوگوں نے لکھا ہے کہ یہاں جس بشر کا ذکر آیا ہے وہ پہلا آدم نہیں ہے ایک بشر ہے۔مگرمیرا ایمان یہ سب باتیں ماننے کو تیار نہیں ۔ مجھے بار بار یہ خیال آتا ہے کہ تیس چالیس ہزارسال کی مدت ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی تشریف آوری کےلئے بہت کم ہے۔!ممکن ہے کوئی اس تعداد سے اتفاق نہ رکھے مگر یہ ابن حنبل مسند کی مستند حدیث ہے ۔ویسے ایک اور حدیث میں دولاکھ چوبیس ہزار تعداد بھی بتائی گئی ہے ۔قصہ آدم و حوا اور نظریہ ارتقامیں ابھی بہت فاصلہ ہے اور میرے خیال میں اس فاصلے کو صرف ”وقت“ کی حقیقت کوسمجھنے سے کم کیا جاسکتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین