• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نجی شعبے اور پالیسی سازوں کو اگلے تین برسوں میں اشیا اور خدمات کی برآمدات کو 55بلین ڈالر تک پہنچانے کے لیے مل کر کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس سے برآمدی جی ڈی پی کا تناسب 15 فیصد تک بڑھ جائے۔اگر ایسا ہوجائے تو درآمدی بل کا ساٹھ فیصد برآمدات سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب عالمی مارکیٹ میں 0.2فیصد مارکیٹ شیئر حاصل کرناہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ برآمدات میں سالانہ اوسطاً 14فیصد کی شرح سے اضافہ ہونا چاہیے ۔ ماضی میں ہم ایسا کرنے کے قابل تھے ۔یہ ہدف انجینئرنگ کی مصنوعات، الیکٹرانکس، آئی ٹی اور آئی ٹی سے وابستہ خدمات، کیمیکل، ادویہ سازی کے شعبے کو مسابقت کے قابل بنا کر اور اس میں تنوع لا کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ 2000کی دہائی کے اوائل میں برآمدات درآمدات کے 80فیصد کیلئے سرمایہ فراہم کرتی تھیں لیکن یہ تناسب 40فیصد تک گر گیا۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے اسے بڑھانا ہوگا۔ اس وقت جس صورت حال سے نمٹنے اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے ، وہ ہماری پست صنعتی پیداوارہے جو خطے میں سب سے کم ہے ۔یہ چین کا صرف 30-40 فیصد ہے۔ ہم کم اجرت والے ملک ضرورہیں لیکن پیداوار، کارکردگی، معیار (مسترد ہونے کی شرح)، قابل اعتماد اور اختراع (ڈیزائن) کی تبدیلی کے لحاظ سے ہم مہنگے ملک ہیں۔ اوسطاً پانچ سال کی تعلیم رکھنے والی افرادی قوت اور 40فیصد ناخواندہ آبادی پاکستان کو اپنے حریفوں کے مقابلے میں پسماندہ ملک بناتی ہے۔ اسلئے برآمد کرنے والی فرموں اور حکومت کیلئے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ مل کر پیداواری عمل میں سرمایہ کاری کریں۔

نجی شعبے کو اپنے اندرونی تنظیمی ڈھانچے اور عمل کو مضبوط کرنے کے علاوہ مواصلات اور رسد کے طریقوں کو بہتر بنانا چاہیے۔براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کیلئے مشترکہ کاوش کے شعبہ جات ، اور آئی پی اوز کے ذریعے نوخیز صنعتوں میں توسیع اور سرمایہ کاری کیلئے وسائل کو متحرک کرنا ضروری ہے۔ برآمدات کو فروغ دینے کے علاوہ، اسٹرٹیجک صنعتوں ، جیسا کہ آئل ریفائنریز، پیٹرو کیمیکل کمپلیکس، اسٹیل، آٹوموبائل، موبائل فون وغیرہ میں درآمدی سامان کی جگہ ملکی مصنوعات کا استعمال درآمدی بل کو کم کردیگا۔

خدمات کے شعبے میں آئی ٹی کی وزارت نے نجی برآمدی فرموں ، یونیورسٹیوں اور دیگر ایجنسیوں کے ساتھ مل کر اگلے دو سے تین برسوں میں اس شعبے کی برآمدات کو تقریباً 5 بلین ڈالر تک بڑھانے کیلئے منصوبے اور حکمت عملی مرتب کی ہے۔یہ ایک قابل عمل تجویز ہے کیونکہ حالیہ حوصلہ افزا شواہد اس کی تائید کرتے ہیں۔ گزشتہ دو سال میں ٹیلی کام اور آئی ٹی خدمات کی برآمدات 2019 میں 1.2بلین ڈالر سے بڑھ کر تقریباً دگنا ہو گئی ہیں۔ پاکستان کے ٹیکنالوجی کے شعبے نے 2021میں گزشتہ چھ برسوں کے مقابلے میں کافی حد تک غیر ملکی سرمایہ حاصل کیا ہے۔

پاک چین اقتصادی راہ داری( سی پیک) کے دوسرے مرحلے کے تحت صنعتی یونٹوں کے قیام کیلئے گوادر، رشکئی، فیصل آباد، دھابیجی میں خصوصی اقتصادی زون تعمیر و ترقی کے مراحل میں ہیں۔ چینی کمپنیاں جنھیں مزدوری کے بڑھتے ہوئے اخراجات کا سامنا ہے وہ ویت نام، کمبوڈیا، لاؤس وغیرہ میں منتقل ہو رہی ہیں۔ چینی نئی بندرگاہ تک رسائی، دستیاب مراعات، قریبی سیاسی تعلقات کی وجہ سے پاکستان میں ان خصوصی اقتصادی زونز کا انتخاب کرنے کیلئے تیار ہیں بشرطیکہ ہم ان کی رفتار کے مطابق کام کرسکیں۔ چین کے ساتھ ایف ٹی اے II کے تحت پاکستان کی 83 فیصد عالمی برآمدات کو آزاد کر دیا گیا ہے ۔اس میں ٹیکسٹائل، گارمنٹس، چمڑے، کیمیکلز، سی فوڈ، گوشت وغیرہ شامل ہیں۔ ٹرانسپورٹ کی کم لاگت انھیں دوسرے ذرائع کے مقابلے میں چینی منڈیوں میں مسابقت کا موقع فراہم کرے گی ۔ چینی درآمدات کا ایک فیصد مارکیٹ شیئر ہماری کل برآمدات میں 20 بلین ڈالر کا اضافہ کرے گا۔ پاکستان میں تیار ہونے والی برآمدی اشیا جو چینی کمپنیاں ڈیزائن اور مارکیٹ کرتی ہیں ، چین کے وسیع عالمی نیٹ ورک کے ذریعے دونوں ممالک کیلئے اضافی فائدے لائیں گی۔

مقامی اور بیرون ملک دونوں بازاروں کیلئے تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت رکھنے والوں کی بہت مانگ ہے ۔ اس میں سرکاری اور نجی ، دونوں شعبے شریک ہوں تاکہ مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق پروڈکٹ تیارکی جاسکیں۔ بی آئی ایس پی کے تحت مشروط کیش ٹرانسفر کے دائرہ کار کو وسعت دی جانی چاہیے تاکہ غریب خاندانوں اور پسماندہ اضلاع کے بچوں کے لیے تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے کے لیے وظائف جاری کیے جاسکیں۔ پرائیویٹ فرموں کو چاہیے کہ وہ ان اداروں سے آنے والے نوجوانوں اور پیشہ ور افراد کی خدمات حاصل کریںاور اپنے ملازمین کی تربیت اور ہنر مندی کو بہتر بنانے والے اقداماتکریں۔ صحت کارڈ کے استعمال کو پورے ملک میں پھیلائیں اور انشورنس کمپنیوں کے درمیان بڈنگ کی اجازت دیں۔ اس سے نہ صرف صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں کے نیٹ ورک کو بڑھانے میں مدد ملے گی بلکہ انشورنس انڈسٹری کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔ موثر نگرانی اور شکایات کے ازالے کا طریقہ کار وضع کیا جانا چاہیے تاکہ اس اسکیم کا غیر اخلاقی افراد اور حصہ لینے والے ہسپتالوں کے ذریعے غلط استعمال نہ ہو۔ میڈیکل ٹریننگ کے خود مختار اداروں کو ختم کر کے انہیں محکمہ صحت کے کنٹرول میں لانے کی تجویز ناقابل قبول ہے۔

تازہ ترین