• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمّد احمد غزالی

کمال الدّین شاہ ابوبکر مکّہ معظمہ سے خوارزم منتقل ہوئے اور پھر تاتاریوں کی یلغار کے سبب وہاں سے اپنے خاندان کو کوٹ کروڑ( اب کروڑ لعل عیسن، ضلع لیّہ، پنجاب) لے آئے۔وہاں سے کچھ عرصے بعد ملتان جابسے، وہیں اُن کے ہاں وجیہہ الدّین محمّد کی ولادت ہوئی۔ وجیہہ الدّین نے والد کی نگرانی میں تعلیمی مراحل طے کیے۔ بعدازاں، اُن کی مولانا حسام الدّین ترمذی کی صاحب زادی،بی بی فاطمہ سے شادی ہوئی۔ مولانا ترمذی بھی، جو علمی، حکومتی اور عوامی حلقوں میں بلند مقام کے حامل تھے، منگولوں کے حملوں کے سبب ترکِ وطن پر مجبور ہوئے تھے اور اُن دنوں کوٹ کروڑ قلعے میں رہائش پذیر تھے،لہٰذا، وہ بھی سُسر کے پاس رہنے لگے، وہیں اُن کے ہاں اُس فرزند نے آنکھ کھولی،جن کے ذکر سے آج ہم اپنے قلب و نظرکو جِلا بخش رہے ہیں۔

خاندان،ابتدائی تعلیم

مخدوم جلال الدّین بخاریؒ نے اپنے مرشد کے خاندان سے متعلق فرمایا،’’ میرے مرشد کے آباء و اجداد عرب کے رؤسا اورشرفاء میں سے تھے اورحسب و نسب کے اعتبار سے لوگوں میں ممتاز اورمنفرد تھے کہ قریشی النسل تھے۔‘‘ حقیقت بھی یہی ہے۔ گو کہ مؤرخین نے حضرت بہاء الدّینؒ کے حسب و نسب پر بہت بحث کی ہے،تاہم بیش تر کا اِس پر اتفاق ہے کہ آپؒ قریشی اسدی ہاشمی تھے۔27رمضانُ المبارک 566 ہجری،3 جون 1171ء،بروز جمعہ پیدا ہوئے۔مؤرخین میں اِس امر پر اختلاف ہے کہ آپؒ کا اصل نام کیا تھا،بعض نے بہاءالدّین تو کئی ایک نے زکریا تحریر کیا ہے۔

کنیت ابو محمد تھی،جب کہ سرکاری طورپر شیخ الاسلام کے منصب پر فائز تھے۔بعض روایات کے مطابق، آپؒ کی والدہ حضرت شیخ عیسیٰ کی صاحب زادی تھیں،جو شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی اولاد میں سے تھے اورحضرت فرید الدین گنج شکرؒ آپؒ کے خالہ زاد تھے،تاہم یہ دونوں روایتیں درست نہیں۔بہت ذہین اورمضبوط حافظے کے مالک تھے،لہٰذا چھوٹی عُمر ہی میں قرأت سبعہ کے ساتھ قرآن پاک حفظ کرلیا اور پھر مقامی علماء کے پاس کتب پڑھنے لگے۔

ابھی تعلیم کا سلسلہ جاری تھا کہ والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا، مگر اِن حالات میں بھی حصولِ علم کا شوق برقرار رہا، جس کی تسکین کے لیے خراسان پہنچ گئے اور7 برس تک علماء سے استفادہ کرتے رہے، مگر طلب اب بھی باقی تھی، سو، بخارا جا پہنچے۔ وہاں کے علمی حلقوں سے 8 برس تک مستفید ہوتے رہے۔اِس دوران درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے۔ اُن دنوں آپؒ کے پاس دو ہزارسے زاید کتب تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا،جب قلمی نسخے ہی ہوا کرتے تھے اور اِس قدر کتابیں جمع کرنا آسان نہ تھا۔ وہاں نوجوان عالم کے ساتھ متّقی و پرہیزگار نوجوان کے طورپر بھی مشہورتھے اور لوگ آپؒ کو’’ بہاءالدّین فرشتہ‘‘ کہا کرتے تھے۔

بخارا کا آٹھ سالہ علمی سفراختتام کو پہنچا، تو مکۃ المکرّمہ کے مبارک سفر پر روانہ ہوئے اور حج کی ادائی کے بعد مدینہ منوّرہ حاضرہوئے،جہاں پانچ برس تک شیخ کمال الدّین محمد یمنیؒ جیسے نام وَرعالم سے حدیث پڑھی۔ اِس دوران اُن کے ساتھ ہر سال حج پر بھی جاتے رہے۔ایک حج کے موقعے پر حضرت خضر علیہ السّلام کی زیارت اورصحبت بھی میّسر آئی۔ حصولِ علم کے ساتھ اپنا بیش تر وقت روضۂ رسول ﷺ پر گزارتے۔ بعدازاں، بیتُ المقدِس گئے اور انبیائے کرامؑ کے مزارات کی زیارت کے ساتھ علماء کے ساتھ بھی نشستیں رہیں، پھر پانچ برس دمشق میں مقیم رہے، جس کے بعد سمرقند کا سفر کیا۔بعض روایات میں یمن اور موصل کے سفرکا بھی ذکر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپؒ نے ساڑھے چارسو سے زاید اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمّذ طے کیا۔

بیعت و خلافت

مسلم دنیا کے علمی و روحانی مراکز سے اپنی پیاس بُجھاتے ہوئے بغداد پہنچے، توسلسلۂ سہروردیہ کے عظیم بزرگ، شیخ شہاب الدّین سہروردیؒ کے ہاں بھی حاضر ہوئے اور اُن سے کچھ ایسے متاثر ہوئے کہ اپنا ہاتھ اُن کے ہاتھ میں دے دیا۔حضرت شیخ نے بھی گرم جوشی سے استقبال کیا،گویا مدّتوں سے اُن کے منتظر ہوں۔خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے مطابق، مرشد کی نگرانی میں سلوک کی منازل محض 17 روز میں طے کرلیں اور خلافت سے سرفراز ہوئے۔اس پر پرانے مریدین کی جانب سے چہ میگوئیاں ہوئیں، تو شیخ شہاب الدین سہروردیؒ نے فرمایا،’’تم تر لکڑی کی مانند ہو،جسے بڑی مشکل اور دیر سے آگ پکڑتی ہے، جب کہ بہاء الدّین خشک لکڑی کی طرح ہیں، جو جلد آگ پکڑلیتی ہے۔‘‘ 

آپؒ طالبِ علمی کے زمانے ہی سے کثرت سے ذکر و اذکار کرتے آرہے تھے اور مجاہدات میں مصروف رہتے، معمولی سے سحر و افطارکے ساتھ مسلسل بیس برس تک روزے رکھے۔ یوں بیعت سے قبل ایک طرف حافظ، قاری، عالم، مفسّر، محدث، مدرّس کی صفات سے خود کو آراستہ کر چُکے تھے، تو دوسری طرف، عبادات و مجاہدات کے ذریعے باطن بھی اُجلا ہو چُکا تھا، یوں چراغ مکمل طور پر تیار تھا، جسے مرشد نے روشن کردیا۔شیخ شہاب الدّینؒ نے مریدین کو ایک ایک کبوتر دیتے ہوئے ہدایت کی کہ اسے ایسی جگہ ذبح کرکے لائیں،جہاں کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔کچھ دیر بعد سب ذبح کیے ہوئے کبوترلے آئے،جب کہ ایک طرف سے شیخ بہاء الدّینؒ زندہ کبوتر لیے واپس آ رہے تھے۔ مرشد نے وجہ پوچھی تو فرمایا،’’ کوئی ایسی جگہ ملی ہی نہیں،جہاں اللہ نہ دیکھ رہا ہو۔‘‘یہ سُن کر اعتراض کرنے والوں نے شرم سے گردن جُھکا لی۔

ملتان میں مدرسے کی بنیاد

مرشد نے خلافت سے نوازنے کے بعد آبائی علاقے،یعنی ملتان جانے کی ہدایت فرمائی ،جس پر آپؒ گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ابھی راستے ہی میں تھے کہ ملتان کے حکم ران، ناصر الدّین قباچہ اور خلجیوں کے درمیان لڑائی کے سبب راستوں کے غیر محفوظ ہونے کی اطلاع ملی،جس پر ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب ایک گاؤں میں ٹھہر گئے،جو اَب ’’شیخ بودین‘‘ کے نام سے معروف ہے۔کچھ دنوں بعد حالات بہتر ہوئے،تو ملتان تشریف لے گئے۔ یہ 615 ہجری کا واقعہ ہے۔ ابتدا میں کچھ دن گوشہ نشین رہ کر عبادت میں مصروف رہے، پھر مجلسِ وعظ کا آغاز کیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے عوام میں مقبول ہوگئی۔

مسلمانوں کے ساتھ ہندو بھی آپؒ کی مجالس میں آتے اور دِلوں کو نورِ ایمان سے منوّر کرکے لَوٹتے۔ آپؒ نے ملتان میں ایک مدرسے کی بھی بنیاد ڈالی،جسے خطّے کا قدیم ترین مدرسہ کہا جاسکتا ہے۔ آپؒ اس مدرسے کے مہتمم اور استاد تھے۔ یہ ایک اقامتی ادارہ تھا،یعنی وہاں طلبہ کو باقاعدہ رہائش کی سہولت حاصل تھی اوراُن کے کھانے پینے وغیرہ کا انتظام آپؒ کی جانب سے ہوتا۔ اس مدرسے نے ایسی شہرت پائی کہ عراق، شام اورحجاز تک سے طلبہ وہاں آنے لگے، جن کے لیے ماہر اساتذہ کا انتخاب کیا گیا، جنھیں مناسب تن خواہ، خوراک اور رہائش کی سہولتیں دی گئیں۔

اِن اساتذہ میں حضرت عثمان مروندی ؒ(شہاز قلندر) بھی شامل تھے،جن کی عربی گرائمر پر لکھی گئی کتاب مدرسے کے نصاب کا حصّہ تھی۔ اِس مدرسے کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں طلبہ کو دینی علوم کے ساتھ دیگر علوم و فنون بھی سِکھائے جاتے تاکہ وہ ایک کارآمد شہری بن کر معاشرے میں کردارادا کرسکیں۔ علمی حلقوں میں اس کے کتب خانے کو بھی بہت شہرت حاصل ہوئی اور علماء دور دراز سے استفادے کے لیے وہاں آتے۔یہ مدرسہ اور کتب خانہ لنگاہ خاندان کے زمانے میں ارغوانی کے حملے میں تباہ ہوگیا اوراگر کچھ باقی رہ گیا تھا، تو اُسے سِکھوں نے مِٹا ڈالا۔

تبلیغی جماعتوں کی تشکیل

آپؒ کا ملتان آنے کا مقصد اسلامی تعلیمات کی اشاعت اور عوام کے باطن کی صفائی تھا،لہٰذا روزِ اوّل سے اِس مقصد کے حصول کے لیے سرگرم رہے۔ایک طرف وعظ کا سلسلہ شروع کیا،تو دوسری طرف معیاری مدرسے کی بنیاد ڈال کر اسلام کے مبلغین تیار کیے اور پھر مدرسے کے فاضلین کے ذریعے تبلیغِ دین کا ایک انقلابی اور منظّم نظام وضع کیا۔ یہ مبلغین دینی علوم کے ماہر ہوتے، اُنھیں جہاں بھیجنا ہوتا پہلے وہاں کی زبانیں سِکھائی جاتیں، وہاں کی تہذیب و ثقافت پر بریف کیا جاتا، ضروری فوجی تربیت دی جاتی تاکہ بوقتِ ضرورت اپنا دفاع کرسکیں، تجارت کے گُر سکھائے جاتے اور پھر مالِ تجارت دے کر روانہ کردیا جاتا۔اِس مال کا بندوبست حضرت بہاء الدین زکریاؒ خود کرتے۔

یہ مبلغین طے کردہ مقامات پر دُکانیں کھولتے اور اسلامی اصولوں کے مطابق منافع کم لیتے،کسی سے دھوکا نہ کرتے، ناقص اشیاء نہ بیچتے، دیانت داری اورخوش اخلاقی سے کام لیتے،یوں جب عوام کا اعتماد حاصل کرلیتے ،تو اُن کے سامنے اسلام کی دعوت رکھتے۔ چوں کہ لوگ اُن کا اعلیٰ اخلاق و کردار دیکھ چُکے ہوتے تھے، اِس لیے وہ اسلام قبول کرلیتے۔ یہ مبلغین سال میں ایک بارملتان میں جمع ہوکر آپؒ کو اپنی کار گزاری سے آگاہ کرتے۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب، کشمیر، افغانستان، بنگال سے لے کر چین، انڈونیشیا، ملائیشیا، جاوا، سماٹرا، فلپائن، برما تک ان مبلغین اور تبلیغی جماعتوں کے ذریعے اسلام کی روشنی پہنچی۔

لاکھوں افراد آپؒ کی کوششوں سے اسلام کے حلقے میں داخل ہوئے،جب کہ جو ہندو مسلمان نہیں ہوئے، وہ بھی آپؒ سے نہایت عقیدت رکھتے تھے۔ آج بھی سندھ کے لاکھوں ہندو خود کو آپؒ کا مرید قرار دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔گو کہ محمود غزنوی اورپھر شہاب الدّین غوری نے سیاسی طور پر ملتان سے قرامطیوں کا تقریباً صفایا کردیا تھا، تاہم اُن کے پیروکار علاقے میں خفیہ سرگرمیاں کسی نہ کسی طور جاری رکھے ہوئے تھے،آپؒ نے اپنی حکمتِ عملی سے ان سرگرمیوں کا بھی قلع قمع کیا۔آپؒ کی ذات بابرکات سے اِس خطّے میں سہروردی سلسلے کو فروغ حاصل ہوا اور آپؒ کو بجا طور پر برّصغیر میں اِس سلسلے کا بانی کہا جاسکتا ہے۔

بطور سماجی رہنما

آپؒ محض صوفی یا دینی مبلغ ہی نہیں تھے،بلکہ عوام کی فلاح و بہبود پر بھی بہت توجّہ دیتے۔ عوام کی معاشی حالت میں بہتری کے لیے زراعت اور تجارت کو ترقّی دی۔ اِس مقصد کے لیے مختلف علاقوں میں نہریں کھدوائیں اور کنوئیں بنوائے۔بڑے پیمانے پر درخت لگوائے۔

نیز، عوام، خاص طور پر اپنے متعلقین کو کسی پر بوجھ بننے کی بجائے تجارت کی طرف مائل کیا اور صرف ترغیب ہی نہیں دی، اُنھیں اپنی طرف سے بنیادی سرمایہ اور مالِ تجارت فراہم کرکے شراکت داری کی بنیاد پر کاروبار کا آغاز بھی کروایا۔

سیاسی اثر و رسوخ

اُس دور کے صوفیا کے مزاج کے برعکس آپؒ سیاسی اور حکومتی معاملات میں بھی خاصی دل چسپی لیتے تھے۔سلطان التمش سے اچھے تعلقات تھے اوراُن کی درخواست پر شیخ الاسلام کا منصب قبول کیا، جو حکومتی سطح پر سب سے بڑا مذہبی عُہدہ تصوّر کیا جاتا تھا۔ جب حاکمِ ملتان،ناصرالدین قباچہ نے سلطان التمش کے خلاف بغاوت کا منصوبہ بنایا، تو ملتان کے قاضی مولانا اشرف الدین اصفہانی اور آپؒ نے الگ الگ خطوط کے ذریعے سلطان کو اس سے آگاہ کیا، مگر دونوں خطوط منزل پر پہنچنے سے قبل ہی پکڑے گئے، جس پر قاضی صاحب اور آپؒ کو قباچہ کے دربار میں طلب کیا گیا۔

قباچہ نے قاضی صاحب کے سامنے خط رکھا تو وہ خاموش رہے،جس پر اُن کی گردن اُتار دی گئی،تاہم آپؒ نے کسی خوف کے بغیر خط کو تسلیم کیا اور قباچہ خواہش کے باوجود آپؒ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکا۔آپؒ کی ایک بڑی سفارتی کام یابی یہ بھی ہے کہ جب منگول ملتان پر حملہ آور ہوئے تو آپؒ نے شہر سے باہر جاکر اُن سے ملاقات کی اور حملہ نہ کرنے پر ایک لاکھ درہم کی پیش کش کی، جو اُنھوں نے قبول کرلی، کہا جاتا ہے کہ یہ رقم آپؒ نے اپنی طرف سے ادا کرکے شہریوں کے قتلِ عام کوروکا۔

آپؒ نے حکم رانوں سے تعلقات کو ذاتی فوائد سمیٹنے کی بجائے خلقِ خدا کی خدمت کے لیے استعمال کیا۔ جب دہلی کے لیے روانہ ہوتے، تو راستے میں لوگ اپنے مسائل سے متعلق درخواستیں دیتے جاتے،جن سے تھیلے بَھر جاتے اور آپؒ بادشاہ کے پاس جاکر پہلے ان درخواستوں کے معاملات حل کرواتے۔

امیری میں فقیری

آپؒ کو وراثت میں بہت دولت حاصل ہوئی تھی اورپھر آپؒ نے اس مال کو تجارت میں لگایا،تو آمدنی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ آپؒ بادشاہوں جیسی زندگی گزارتے تھے،رہائش کے لیے محل نُما مکان تھا،جس کی قیمتی پردوں، قالینوں وغیرہ سے آرائش کی گئی تھی۔ بہترین لباس پہنتے۔ مالی کشادگی کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ایک بارقحط پڑا، تو آپؒ نے حکومت کو بڑے پیمانے پر گندم فراہم کی اور گندم کی بوریوں میں سونے کے سکّے بھی ڈال دیے۔

تاہم اس سب کچھ کے باوجود، مزاج میں بہت تواضع اورانکساری تھی۔مدرسے کے سیکڑوں طلبہ اور اساتذہ کے تمام اخراجات خود برداشت کرتے، خانقاہ میں مریدین اور عام افراد کا ہجوم رہتا، جن کے لیے آپؒ کی طرف سے دسترخوان بچھائے جاتے، جو بہترین کھانوں سے آراستہ ہوتے۔

شخصیت و تعلیمات

نوّے برس سے زاید عُمر ہونے کے باوجود مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرتے۔ رات کے آخری حصّے میں بیدارہوکر فجر تک عبادت میں مشغول رہتے۔نماز کے بعد کافی دیر تک تلاوت کرتے رہتے،بعدازاں، تجارت، زراعت اور لنگر وغیرہ کا حساب کتاب دیکھتے، ذمّے داران کو ضروری ہدایات دیتے اور پھر گھر تشریف لے جاتے۔ کھانا تناول کرکے کچھ دیر آرام کرتے اور اہلِ خانہ کے ساتھ وقت گزارتے۔ ظہر کی اذان پر مسجد آجاتے، نماز کے بعد حجرے میں کافی دیر وظائف میں مشغول رہتے، پھر مجلسِ عام منعقد ہوتی۔

مریدین کی روحانی رہنمائی کرتے، عام افراد کے مسائل سُنتے، تبلیغی وفود اپنی کارکردگی سے آگاہ کرتے۔ عصر کی اذان پر مجلس اختتام کو پہنچتی اور آپؒ حجرے سے مسجد تشریف لے آتے۔ نماز کے بعد منبر پر بیٹھ کر وعظ فرماتے، جس میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوتے۔ سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے چہل قدمی کے لیے قریبی جنگل کی طرف چلے جاتے۔ مغرب سے عشاء تک ذکر و اذکار میں مصروف رہتے۔ نمازِ عشاء کے بعد بھی کافی دیر تک عبادت میں مشغول رہتے، پھر گھر تشریف لے جاتے۔ بے حد نرم طبیعت پائی تھی، لوگوں سے خوش مزاجی اور تعظیم سے پیش آتے، پوری توجّہ سے اُن کی بات سُنتے، عام لوگوں میں بیٹھتے۔ 

شریعت پر سختی سے عمل کرتے اور متعلقین سے عمل کرواتے۔ سماع کی مجالس سے گریز کرتے، البتہ فنِ موسیقی پر کافی دسترس حاصل تھی۔ شعرو شاعری سے بھی رغبت تھی۔ کم لیکن اچھا کھانے کی ترغیب دیتے اور خود بھی ایسا ہی کرتے۔ فرماتے تھے،’’ بدن کی سلامتی کم کھانے میں،روح کی سلامتی ترکِ گناہ میں اور دین کی سلامتی درود شریف پڑھنے میں ہے۔‘‘اپنا مال دینی کاموں، ضرورت مندوں اور عوامی فلاح کے کاموں پر دل کھول کر خرچ کرتے۔

وفات، اولاد،تصانیف

7 صفر661 ہجری،21 دسمبر 1261ء کو ملتان میں96 برس کی عُمر میں وفات پائی۔ آپؒ کا مزار فنِ تعمیر کا شاہ کار ہے۔ دو شادیاں کیں، جن سے سات بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ بیٹوں میں مخدوم صدر الدّین عارفؒ اور اُن کے صاحب زادے، شاہ رکن عالمؒ نے بہت شہرت پائی۔ گو کہ آپؒ کی کئی کتب کا ذکر کیا جاتا ہے، مگر اب صرف ایک ہی کتاب’’الاوراد‘‘ دست یاب ہے، جو فقہہ سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ اعتکاف سے متعلق ایک رسالہ بھی ہے۔