• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روشنی کے مینار ’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ‘‘

ملکِ فارس (ایران) کے مشہور شہر اصفہان کے سرسبز وشاداب گاؤں میں ایک زرتشت مذہبی عالم کے گھر بڑی تمنّاؤں اور دُعاؤں کے بعد ایک بچّہ پیدا ہوا۔ لیکن وہ مجوسی بچّہ، نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی حق و سچ کی تلاش میں گھر سے نکل پڑا۔ 

مُلکوں مُلکوں صعوبتیں برداشت کیں، دس بار غلامی کا دَور دیکھا، یہاں تک کہ منزلِ مقصود پانے میں کام یاب ہوا اور بارگاہِ رسالتﷺ میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ صحابئ رسولﷺ کا بلند رتبہ پانے والے ان خوش بخت کا نام، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ہے۔ ذیل میں اُن کی ایمان افروز داستان پیشِ خدمت ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت سلمان فارسی ؓ نے اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے بتایا کہ ’’مَیں اصفہان کی ایک بستی ’’جئی‘‘ کا رہنے والا ایک فارسی نوجوان تھا۔ میرے والد علاقے کے زمین دار تھے، وہ مجھ سے بے پناہ محبّت کرتے تھے، مجھے سخت حفاظت کے تحت لڑکیوں کی طرح گھر میں رکھا جاتا، میں نے مجوسیت میں ایک بلند مقام حاصل کیا،جس کے بعد زرتشت عقیدے کے مطابق مجھے مقدّس آگ کا مستقل نگران بنادیاگیا۔والد کی بہت بڑی جاگیر تھی۔

ایک دن وہ گھرکے کام کاج میں مصروف تھے۔ مجھ سے کہنے لگے ’’بیٹے! آج میں کچھ مصروف ہوں،تم جاگیر کا چکّر لگا آؤ۔‘‘ انھوں نے چھوٹے چھوٹے کچھ دیگر کام بھی بتائے، مَیں اُن کے حکم کی تعمیل کی غرض سے باہر نکلا تو میرا گزر عیسائیوں کے ایک کلیسا کے پاس سے ہوا۔ وہاں مَیں نے پہلی بار ان کی عبادت کی آواز سنی، کیوں کہ میں تو گھر تک محدود تھا، دیکھنے کی خواہش ہوئی۔ چناں چہ میں اُن کے پاس چلا گیا۔ مجھے اُن کی عبادت بہت اچھی لگی اور بے اختیار میری زبان سے نکلا ’’واللہ! یہ اُس دین سے بہتر ہے، جس پر ہم ہیں۔‘‘ مَیں غروبِ آفتاب تک اُن کے پاس ہی بیٹھا رہا، جاگیر کی طرف گیا، نہ ہی کوئی اور کام کیا۔ 

مَیں نے کلیسا کے لوگوں سے دریافت کیا کہ اِس دین کا اصل کہاں ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ملک ِشام میں۔ پھر میں نےگھر کا رُخ کیا، جہاںوالد پریشان بیٹھے تھے، انہوں نے میری تلاش میں چند لوگ بھی بھیج دیے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی پوچھا۔ ’’بیٹےتم کہاں رہ گئے تھے؟ ‘‘مَیں نے کہا۔ ’’ابّاجان! مَیں کلیسا کے پاس سے گزرہا تھا، وہاں عبادت کی آواز سُنی، تو اندر چلاگیا، مجھے اُن کی عبادت اچھی لگی، وہاں کافی دیر تک بیٹھا رہا، اس لیے دیر ہوگئی۔‘‘والدنے کہا۔ ’’بیٹے اس دین میں کوئی خیر نہیں ہے، تمہارا اور تمہارے آباؤ اجداد کا دین اس سے بہتر ہے۔‘‘ 

مَیں نے کہا۔ ’’ہرگز نہیں، اللہ کی قسم، وہ ہمارے دین سے بہتر ہے۔‘‘ والد صاحب میرے خیالات سے خوف زدہ ہوگئے کہ کہیں مَیں اُن کا دین نہ قبول کرلوں۔ چناں چہ انہوں نے مجھے گھر میں قید کرکے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیں۔ عیسائیوں نے مجھے پیغام بھیجا، تو مَیں نے کہا کہ’’ جب تمہارے پاس شام کے عیسائی تاجروں کا قافلہ آئے، تو مجھے اطلاع دینا۔‘‘ جب اُن کے پاس شام کے عیسائی تاجروں کا قافلہ آیا، تو اُنہوں نے مجھے اطلاع دی۔ مَیں نے کہا کہ’’ جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوکرجانے لگیں، تب مجھے خبر دینا۔‘‘ پھر جب وہ واپس جانے لگے، تو مجھے اطلاع دی۔ 

مَیں نے اپنے پاؤں کی بیڑیاں نکالیں اور اُن کے ساتھ شام آگیا۔ شام پہنچ کر مَیں نے اُن سے پوچھا۔ ’’تمہارے دین کو ماننے والوں میں سب سے بہترین شخص کون ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا ’’کنیسہ کا پادری۔‘‘ مَیں پادری کے پاس پہنچا اور اُس سے کہا کہ ’’مَیں تمہارا دین سیکھنا چاہتا ہوں، تمہارے ساتھ رہ کر تمہاری خدمت بھی کروں گا اور دین بھی سیکھوں گا۔‘‘ اس نے مجھے اپنے ساتھ رکھ لیا، لیکن مَیں نے دیکھا کہ وہ ایک بُرا آدمی تھا، لوگوں کو صدقے کی ترغیب دیتا، جب لوگ صدقے کی چیزیں دیتے، تو مسکینوں میں بانٹنے کے بجائے اپنے پاس رکھ لیتا۔ 

حتیٰ کہ اُس نے سونے چاندی کے کئی مٹکے بھرلیے، لیکن پھر جلد ہی راہئ مُلکِ عدم ہوگیا۔ لوگ اسے دفنانے کے لیے جمع ہوئے، تو مَیں نے اُن سے کہا۔ ’’یہ ایک بُرا انسان تھا، تم لوگوں سے صدقے کی رقم اکٹھی کرکے مساکین کو بانٹنے کے بجائے اپنے پاس جمع کرلیتا تھا۔‘‘ لوگوں کو میری بات پر یقین نہیں آیا، لیکن جب مَیں اُن سب کو خزانے کی جگہ لے گیا اور اسے کھودا گیا، تو وہاں سے سونے، چاندی سے بھرے سات مٹکے برآمد ہوئے، جسے دیکھ کر لوگوں نے کہا ’’ہم اس کی تدفین نہیں کریں گے۔‘‘ پھر اُن لوگوں نے اسے سُولی پر چڑھا کر پتھروں سے رجم کردیا۔

کچھ دنوں بعد عیسائیوں نے دوسرا پادری مقرر کردیا۔ یہ انتہائی عبادت گزار، دنیا سے بے رغبت اور آخرت پر یقین رکھنے والا انسان تھا۔ مجھے اس سے بے انتہا عقیدت ہوگئی، ایک عرصے تک مَیں اُس کے ساتھ رہا۔ اُس کی وفات کا وقت آیا، تو مَیں نے اس سے دریافت کیا۔ ’’آپ کے بعد میں کس کی صحبت اختیار کروں؟‘‘ تو اُس نے جواب دیا۔ ’’بیٹا! لوگوں نے دین میں بہت تبدیلیاں کردی ہیں، سوائے ایک شخص کے، جو موصل میں ہے اور وہ اُسی اصل دین پر ہے، جس پر مَیں ہوں۔‘‘ 

جب وہ وفات پاگیا، تو اُسے دفناکر مَیں موصل کی جانب چل پڑا اور جلد ہی اُسے تلاش کرکے اُس کے پاس پہنچا اور بتایا کہ ’’فلاں شخص نے مرنے سے پہلے مجھے وصیّت کی تھی کہ مَیں تم سے ملوں۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ تم ابھی تک اپنے اصل دین پر قائم ہو۔‘‘ میری درخواست پر اس نے مجھے اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔ 

وہ اپنے دین پر عمل کرنے والا ایک بہترین شخص تھا۔ لیکن تھوڑا وقت ہی گزرا تھا کہ اس کی موت کا وقت آگیا، تو مَیں نے اُس سے پوچھا کہ ’’اب آپ میرے لیے کیا وصیّت کرتے ہیں؟‘‘ اس نے کہا۔ ’’بیٹے! واللہ، میرے علم میں کوئی ایسا شخص نہیں، جو اس دین پر ہو، جس پرہم تھے، سوائے ایک شخص کے، جو نصیبین میں ہے۔ 

اُس کا فلاں نام ہے، اُس سے مل لینا۔‘‘ خیر، جب وہ بھی وفات پاگیا اور اسے دفنا دیا گیا، تو مَیں نصیبین والے سے ملا اور اُسے اپنا قصّہ بتایا اور مرنے والے کی وصیّت کے متعلق آگاہ کیا، تو اُس نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے، تم میرے پاس ٹھہرو۔‘‘ مَیں نے اس کے پاس قیام کیا اور اُسے بھی سابقہ دو ساتھیوں کی طرح دین پر عمل کرنے والا ایک بہترین شخص پایا، لیکن اُس کی موت کا وقت بھی جلد ہی آگیا۔ مرض الموت کے وقت مَیں نے اُس سے پوچھا۔ ’’میرے لیے کیا حکم ہے، مَیں اب کس کے پاس جاؤں؟‘‘ اس نے کہا۔ 

عموریہ نامی مقام پر ایک شخص ہے، تم اُس سے مل لینا۔ جب وہ بھی وفات پاگیا، تو مَیں اُسے دفنا کر عموریہ والے کے پاس چلاگیا اور اُسےسارا واقعہ سنایا۔ اُس نے کہا۔ ’’تم میرے پاس قیام کرلو۔‘‘ مَیں نے اس شخص کے پاس قیام کیا۔ وہ نیک آدمی تھا، یہاں مَیں نے کمائی بھی کی، حتیٰ کہ میرے پاس کچھ گائیں اور مال جمع ہوگیا۔ لیکن پھر اسے بھی موت نے آگھیرا، تو مَیں نے کہا کہ اب آپ مجھے کس کے پاس بھیجنے کی وصیّت کرتے ہو؟ اس نے سرد آہ بھرکر کہا۔ ’’بیٹے! اب میرے علم میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں، جو ہمارے دین پر ہو اور جس کے پاس مَیں تمہیں بھیجوں۔

ہاں، اب ایک نبیﷺ کے مبعوث ہونے کا وقت قریب ہے۔ جو دینِ ابراہیم ؑ کے ساتھ مبعوث ہوں گے، اُن کا ظہور عرب کی سرزمین میں ہوگا، وہ دوپہاڑوں کے درمیان والی جگہ کی طرف ہجرت کریں گے، جس میں کھجوروں کے باغات ہیں۔ اُن کی کچھ ظاہری علامتیں ہوں گی۔ وہ تحفہ قبول کریں گے، صدقہ نہیں کھائیں گے۔ اُن کے کاندھوں کے درمیان مہرِنبوّت ہوگی، اگرتم میں اتنی طاقت ہے کہ اُن سے جاملو، تو ایسا کر گزرنا۔‘‘ جب وہ مرگیا، تو اس کی موت کے بعد بھی میں کچھ عرصے عموریہ میں ٹھہرارہا۔ 

پھر بنوکلب کے ایک عرب تجارتی قافلے سے میری ملاقات ہوئی۔ مَیں نے اُن سے کہا۔ ’’تم مجھے عرب کی سرزمین تک لے جاؤ، مَیںاپنی ساری گائیں اور بکریوں کا ریوڑ تمہیں دے دوں گا۔‘‘ انہوں نے مجھے ساتھ ملالیا، حتیٰ کہ قافلہ وادئ قریٰ پہنچا، توان عربوں نے مجھے ایک یہودی کے ہاتھوں غلام بناکر فروخت کردیا۔ 

مَیں یہودی کی خدمت کرتا رہا، ایک روز بنو قریضہ سے تعلق رکھنے والے اس کے چچا زاد بھائی نے مجھے خرید لیا اور اپنے ساتھ یثرب لے آیا۔ واللہ، جب مَیں نے وہ علاقہ دیکھا، تو اپنے ساتھی کے بتائے ہوئے وصف کی بِناپر وہ جگہ پہچان گیا۔ مَیں وہیں ٹھہرا رہا۔ یہاں تک کہ اللہ نے اپنے رسولﷺ کو مکّے میں مبعوث کردیا۔ جب تک اللہ نے چاہا، مَیں غلامی کی مصیبت میں ہونے کی وجہ سے اُن کا تذکرہ سُننے سے محروم رہا۔ 

پھر اُنہوں نے مدینے کی جانب ہجرت کی۔ واللہ! مَیں ایک کھجور کے درخت کی چوٹی پر چڑھا کوئی کام کررہا تھا، میرا مالک نیچے بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک اُس کے چچا کا بیٹا اُس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا ’’اللہ بنی قیلہ (اوس وخزرج) کو غارت کرے، وہ سب اس وقت (قباء) میں اس شخص کے پاس اکٹھے ہورہے ہیں، جو آج مکّے سے آیا ہے۔ 

ان کا خیال ہے کہ وہ نبی ہیں…‘‘ جب مَیں نے یہ بات سُنی، تو مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی۔ حتیٰ کہ ایسا محسوس ہونے لگا کہ مَیں اپنے مالک کے اوپر گرجاؤں گا۔ مَیں جلدی سے نیچے اُترا اور آنے والے شخص سے پوچھا۔ ’’تم کیا کہہ رہے تھے، ذرا پھر سے اپنی بات دُہراؤ؟‘‘ میری بات سُن کر میرے مالک کو شدید غصّہ آگیا۔ اس نے ایک زوردار طمانچا میرے منہ پر مارا اور بولا ’’تجھے اس سے کیا سروکار؟جا اپنے کام پرتوجّہ دے۔‘‘

جب شام ہوئی، تو مَیں اپنی جمع شدہ کھجوروں میں سے کچھ کھجوریں لے کر قباء میں حضوراکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔ ’’مجھے آپﷺ کے آنے کی خبرملی۔ آپﷺ نیک اور سچّے ہیں، آپﷺ کے ساتھ غریب، حاجت مند ساتھی بھی ہیں، میرے پاس کچھ صدقہ رکھا ہوا تھا، سوچا آپﷺ کی خدمت میں پیش کردوں۔‘‘ آنحضرتﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا۔ ’’لے لو اور کھاؤ۔‘‘ لیکن آپﷺ نے اس میں سے کچھ بھی نہیں کھایا۔ مَیں نے دل میں کہا، یہ پہلی نشانی ہے، جو پوری ہوئی۔ 

پھر مَیں واپس لوٹ آیا۔ کچھ چیزیں جمع کیں۔ رسول اللہ ﷺ مدینۂ منورہ تشریف لے آئے تھے۔ مَیں نے آپﷺ کی خدمت میں پیش ہوکر عرض کیا۔ ’’یارسول اللہ ﷺ! آپﷺ صدقہ نہیں کھاتے، میں آپﷺ کے لیے تحفہ (ہدیہ) لایا ہوں۔‘‘ رسول اللہﷺ نے اُس میں سے کچھ کھایا اور باقی صحابہؓ کو دے دیا۔ یہ دوسری نشانی تھی، جو پوری ہوئی۔ 

پھر ایک موقعے پر مَیں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپﷺ بقیع الغرقد میں کسی صحابیؓ کے جنازے میں شریک تھے۔ آپﷺ کے اوپر دو چادریں تھیں اور صحابہؓ کے ساتھ تشریف فرماتھے۔ مَیں نے آپﷺ کو سلام کیا۔ پھر گھوم کر آپﷺ کی پشت کی طرف آکر دیکھا تاکہ وہ مہر دیکھ سکوں، جو میرے ساتھی نے بتائی تھی۔ 

جب حضورﷺ نے مجھے اس طرح گھومتے دیکھا، تو جان گئے کہ مَیں مُہرِ نبوّت دیکھنا چاہتا ہوں۔ آپﷺ نے اپنی کمر سے چادر گرادی۔ مَیں نے اس مُہر کی طرف دیکھا، تو پہچان گیا۔ پھر اس سے چمٹ گیا، اُسے بوسے دینے لگا اور ساتھ ساتھ رونے لگا۔ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ پیچھے ہوجاؤ، مَیں ہٹ گیا اور آپﷺ کو اپنی داستان سنائی، جس طرح اے ابنِ عباس مَیں نے آپ کو سنائی۔ رسول اللہﷺ کو یہ بات پسند آئی کہ مَیں اپنی داستان آپﷺ کے صحابہؓ کو سناؤں ۔‘‘

اس کے بعد حضرت سلمان فارسی ؓ غلام ہی رہے، غلامی کی وجہ سے غزوئہ بدر اور اُحد میں شریک نہ ہوسکے۔ حضرت سلمان فارسی ؓکا بیان ہے، پھر رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے کہا۔ ’’سلمان! مکاتبت کرلو۔‘‘ مَیں نے اپنے مالک سے پانی کے راستے پرتین سوکھجور کے درخت لگانے اور چالیس اوقیہ چاندی پر مکاتبت کرلی۔ رسول اللہﷺ نے صحابہ ؓ سے فرمایا۔ ’’اپنے بھائی کی مدد کرو۔‘‘لوگوں نے کھجور کے درختوں کی پنیری کے ساتھ میری مدد کی۔ 

کوئی تیس کوئی بیس کوئی دس کھجوریں لے آیا یعنی جتنی جس کی استطاعت تھی، اس نے میری مدد کی، جب تین سوپنیریاں جمع ہوگئیں، تو رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ ’’سلمان جاؤ، ان کے لیے گڑھے کھودو، جب فارغ ہوجاؤ تو میرے پاس آجانا۔ مَیں انہیں اپنے ہاتھ سے رکھوں گا۔‘‘مَیں نےاور میرے دیگر ساتھیوں نے مل کر گڑھے کھودے، جب فارغ ہوگیا، تو آپﷺ کے پاس آیا۔ 

رسول اللہﷺ میرے ساتھ تشریف لے گئے، ہم کھجورکے پودے آپﷺ کے قریب کرتے اور آپﷺ اپنے ہاتھ سے انہیں اُگاتے۔ اُس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے، ان میں سے ایک پودا بھی نہیں مُرجھایا۔‘‘رسول اللہ ﷺ کے پاس مرغی کے انڈے کے برابر سونے کی ڈلی کسی معرکے سے آئی تھی۔ آپﷺ نے مجھے بلایا اور وہ سونے کی ڈلی بھی میرے حوالے کردی۔ 

مَیں نے اس ڈلی میں سے چالیس اوقیے وزن کرکے اس یہودی کو دیئےاور باغ اور سونا دے کر اس کا حق ادا کردیا۔ اس نے مجھے آزاد کردیا پھر میں رسول اللہﷺ کے ساتھ خندق میں حاضر ہوا اس کے بعد کسی بھی معرکے میں کبھی پیچھے نہیں رہا ۔‘‘( بحوالہ کتاب ال سلسلہ حدیث نمبر263)۔

مختصر تعارف:حضرت سلمان فارسی کا مجوسی نام ’’مابہ‘‘ تھا۔ قبولِ اسلام کے بعد سلمان رکھا گیا۔ کنیت، ابو عبداللہ، جب کہ بارگاہِ نبوّت سے سلمان الخیر کا لقب ملا۔ والد کا نام بوزفشاں تھا، جو اصفہان کے بڑے زمین دار تھے۔یہ اپنے والدین کیے اکلوتے تھے۔ خاندان کے بارے میں زیادہ معلومات دست یاب نہیں۔ رسول اللہﷺ نے انہیں مہاجرین یا انصار کے بجائے اہلِ بیتؓ میں شمار فرمایا۔ مدینہ میں بالکل غریب الدیار تھے۔ کوئی شناسا نہ تھا۔ آنحضرتﷺ نے مکّی مہاجرین کی طرح ان کے اور ابو درداءؓ کے درمیان مواخاۃ فرمادی۔ (صحیح بخاری 898/2)۔

وفات، عمر:حضرت عثمان غنیؓ نے حضرت سلمان فارسیؓ کو بغداد کے قریب ’’المدین‘‘ شہر کا گورنر مقرر فرمایا تھا۔ اسی دوران 35ہجری میں آپؓ کا انتقال ہوا۔ بغداد کے جنوب مشرق میں تقریبا 20میل کے فاصلے پر سلمان پاک نامی گاؤں میں ایک مسجد کے احاطے میں تدفین ہوئی۔ حضرت سلمان فارسیؓ کی عُمر کے بارے میں بڑا اختلاف ہے، کسی نے 88سال لکھا، تو کسی نے 250سال، کسی نے 350سال۔ 

اُن کی عُمر کے بارے میں ایک سوال دارالعلوم دیوبند میں پوچھا گیا، جس کا جواب یہاں پیشِ خدمت ہے۔ ’’حضرت سلمان فارسیؓ نے کافی طویل عمر پائی۔ آپ کی وفات 35ہجری میں ہوئی۔ مدّتِ عُمر کے بارے میں دو قول ہیں۔ ایک یہ ہے کہ آپ 250سال حیات رہے، جب کہ دوسرا قول یہ ہے کہ آپ نے 350سال عُمر پائی۔ محدّثین کے نزدیک یہ قول ہی درست اور قابلِ اعتماد ہے۔‘‘ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند الہند، فتویٰ 1048، جواب نمبر 3633)۔