• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ شب ایک دوست کے ہاں بیٹھک تھی، جب میںوہاں پہنچا تو وہ فلم ناگ منی کا مشہور گیت سن رہے تھے...تن تو پہ واروں من تو پہ واروں، بگڑی بنادے توہے رو رو پکاروں ... اس گیت میں ساز و آواز کا جمال پورے جلال کے ساتھ نمایاں ہے، پھراگر وسعتِ نظر ہو اور خیال کی رعنائیاں جواں ہوں تو اداکارہ رانی کا رقص مسحور کئے بنا کیسے چھوڑ سکتا ہے ! پھر دوسرا گیت بھی کیا لاجواب تھا،وہی نورجہاں کی آوازنثاربزمی کی موسیقی، وہی فلم ناگ منی … من میں اُٹھی نئی ترنگ،ناچے مورا انگ انگ ۔ان گیتوں کے خالق حبیب جالب ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ماضی کے گیت آج بھی تازگی بخشتے ہیں،پھر جہاں حبیب جالب کی انقلابی شاعری ہمیں پڑھنے کو ملتی ہے وہاں ان کے کلام کا وہ حصہ جو فلمی گیتوں پر مشتمل ہے اگرچہ اُن میں رومانس کا احساسِ حسیں بھی ملتا ہے لیکن ان میں بھی زیادہ تر نغمے انقلابی و عوامی احساسات کی عکاسی کرتے نظرآتے ہیں ۔، یادوں کو تازہ کیجئے، جب فلم زرقا میں خوبرو نیلو زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہوتی ہے اور شہنشاہ غزل مہدی حسن کی آواز درو دیوار کو ٹٹولے جاتی ہے۔’’تُو کہ ناواقفِ آداب غلامی ہے ابھی،رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔‘‘اس نظم کا پس منظر بھی تاریخی ہے، سعید پرویز نے اسے اپنی کتاب ’’حبیب جالب فن و شخصیت‘‘میں جالب صاحب ہی کی زبانی بیان کیا ہے’’ریاض شاہد ہمارے بڑے عزیز دوست تھے،، اداکارہ نیلو اپنے دور کی ایک اچھی رقاصہ تھیں ، اس زمانے میں شہنشاہ ایران کے اعزاز میں جنرل ایوب خان نے تقریب رکھی تھی، اس کیلئے نیلو کو تیار رہنے کا کہا گیا ،لیکن نیلو بیگم نے حکومت کےاہلکاروں سے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اس انکار پرنواب آف کالا باغ کے حکومتی غنڈوں نے نیلو بیگم کو برا بھلا کہا، تشددکیاجس پر نیلو نے خواب آور گولیاں کھا لیں، میں( جالب ) اور ریاض شاہد اسے دیکھنےاسپتال گئے جب واپس آرہے تھے تو میں نے ریاض شاہد(جن کی ابھی نیلوسے شادی نہیں ہوئی تھی) سے کہا نیلو بیگم نے بڑا ہی ’’اینٹی امپریلسٹ‘‘ کردار ادا کیا ہے۔ اس پر ایک نظم ہو گئی ہے۔ آج قاتل کی یہ مرضی ہے کہ سرکش لڑکی،سرِ مقتل تجھے کوڑوں سے نچایا جائے،رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔ نسیم بیگم کی آواز میں زرقاہی کا ایک اور گیت اُس دور میں جتنا دلکش تھا آج بھی اُتنا ہی فرحت بخش ہے۔میں توڑ کے بلبل کا دل کلیاں بازاروں میں لائی۔میں پھول بیچنے آئی، میں پھول بیچنے آئی۔حقیقت یہ ہے کہ جالب جہاں گئےبھی داستاں چھوڑ آئے، فلم ’’سماج ‘‘کیلئے استاد مہدی حسن کا گایا ہوا یہ گیت اس سچ کا اعلان ہے۔’’یہ اعجاز ہے، حُسنِ آوارگی کا،جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے۔‘‘حبیب جالب نے فلمی میدان میں بھی انقلابی نظریات کی آبیاری کیلئے خونِ جگر ارزاں کئے رکھا، فلم ساز و آواز میں مادام نور جہاں کی آواز میں یہ گیت ملاحظہ فرمائیں۔’’کیوں کہیں یہ ستم، آسماں نے کئے،آسماں سے ہمیں کچھ شکایت نہیں،چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہے زندگی،چھین لیتے ہیں جب چاہتے ہیں خوشی‘‘۔فلم گھر پیاراگھر‘میں مجیب عالم نے جالب صاحب کا جو گیت گایا تھا،اُس کی موسیقی نثار بزمی نےترتیب دی تھی بول تھے۔’’بجھے نہ دل، رات کا سفر ہے،یہ نا سمجھ لوگ بے خطا ہیں‘‘ہمارے غم کی کسے خبر ہے۔

کہا جاتا ہے کہ حبیب جالب نےتین سو فلمی گیت لکھے، مذکورہ گیتوں کے علاوہ یہاں چند مزید وہ گیت پیش خدمت ہیں، جو بہت مقبول ہوئے۔مل گئی آسماں سے زمیں،آج اس شہر میں کل نئے شہر میں،داغ وہ ہم کو ملا جینے سے نفرت ہو گئی،اس درد کی دنیا سے گزر کیو ں نہیں جاتے،اب اور پریشاں دلِ ناشاد نہ کرنا،خدارا محبت محبت نہ کرنا۔

فلم یہ امن کا گیت جسے مہدی حسن و ساتھیوں نے گایا تھا،لازوال اور راہ رو ہے

’’جب تک چند لٹیرے اس دھرتی کو گھیرےہیں،اپنی جنگ رہے گی‘‘المیہ یہ ہے کہ حبیب جالب نے ماضی میں جن حالات سے متاثر ہوکر درد بھری شاعری کی تھی وہ حالات حکمران طبقات کی خودغرضی کے باوصف مزید ابتر ہوگئے ہیں اور جس سحرکاجالب کی زندگی میں پتہ نہیں تھا اب بھی اُس کا دوردورامکان نہیں ،فلم ’پرائی آگ‘میں مہدی حسن کا گایاہواحبیب جالب کا یہ گیت آج بھی مایوسی ہی کی کیفیت کا ترجمان ہے۔

اے شامِ غم بتا کہ سحر کتنی دورہے

آنسو نہیں جہاں، وہ نگرکتنی دور ہے

تازہ ترین