• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں سرکاری یو نیورسٹیوں کی تعداد 141اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی تعداد 96ہے۔ حالیہ بجٹ میں ملک بھر کی جامعات کیلئے 104ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے جس میں 4ارب 41 کروڑروپے ترقیاتی اور60ارب روپے دوسری مد میں رکھے گئے ہیں۔ بہرحال پاکستان اس وقت اعلیٰ اور معیاری تعلیمی اداروں کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے اس فاصلے کو کم کرنے کیلئے سرکار ی تعلیمی اداروں کو مزید وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے، اگرچہ پرائیویٹ یونیورسٹیاں فروغِ تعلیم میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں لیکن پرائیویٹ یو نیورسٹیوں میں تعلیم اس حد تک مہنگی ہے کہ غریب آدمی کیلئے ان یو نیورسٹیوں میں اپنے بچوں کو پڑھانا ممکن نہیں لہٰذا سرکاری یونیورسٹیوں میں داخلے کے حصول کیلئے بڑا دبائو ہے ہر سال ہزاروں طلبہ و طالبات یونیورسٹیوں میں نشستیں کم ہونے کی وجہ سے داخلے سے محروم رہ جاتے ہیں ،وفاقی حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے فروغ کیلئے ہائر ایجوکمیشن کمیشن قائم کر رکھا ہے جس کے چیئرمین کی تقرری کیلئے وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین کی سربراہی میں کمیٹی انٹرویوز کر رہی ہے، اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئندہ چند روز میں ہائر ایجو کیشن کمیشن کے چیئرمین کی تقرری عمل میں آجائے گی۔ وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 23-2022 کےسالانہ بجٹ کے سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت ہائیرایجوکیشن کمیشن کے لیے مجموعی طور پر 44178.907 ملین روپے مختص کئے ہیں جس میں جاری منصوبوں کیلئے38728.907ملین روپے اور 13 نئےمنصوبوں کیلئے5450 ملین روپے شامل ہیں۔ افغان طلبا کیلئے 3ہزار علامہ اقبال اسکالر شپس(پی ایم ڈویڑن )کیلئے1000ملین روپے مختص کئے گئے ہیں ، بہائو الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں صوفی ازم انسٹیٹیوٹ کے قیام کیلئے 183.865ملین روپے مختص کئے گئے ہیں، ملک کی انجینئرنگ کے شعبہ میں 5نمایاں یونیورسٹیوں میں لیب کی سہولیات کی بہتری کے لئے 1500 ملین روپے اور یوتھ لیپ ٹاپ اسکیم کے لئے 1500ملین مختص کئے ہیں۔

پچھلے دنوں خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی دیکھنے کا موقع ملا، یہ وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کا لگایا ہوا وہ پودا ہے جو شجر سایہ دار کی صورت اختیار کر رہا ہے۔ گزشتہ دہائی میں صوبہ پنجاب میں 14 نئی یونیورسٹیز کا آغاز کیا گیا۔ ان میں سے چند ایک نئی تعمیر ہوئیں اور کچھ ایسی بھی تھیں جہاں کسی بڑے کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ ان یونیورسٹیز کے مسائل پرانی یونیورسٹیز سے بالکل مختلف تھے۔ ان میں سے کسی کا بھی سروس اسٹرکچر نہیں تھا۔ان نئی یونیورسٹیز میں بہت کم ایسی ہیں جنہوں نے مشکل حالات کے باوجود ترقی کی اور معاشی استحکام حاصل کیا اور اس وقت یہی یونیورسٹیز ایک بہترین ماڈل کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں قائم خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی بھی ان میں سے ایک ہے۔

حکومت پنجاب نے اپنے حالیہ بجٹ میں خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رحیم یار خان کیلئے 80کروڑ روپے مختص کئے ہیں جن سے یونیورسٹی میں کیمیکل اور ایگری کلچر انجینئرنگ بلاک کا قیام عمل میں لایا جائے گا،خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر نے یونیورسٹی کے ترقیاتی پروگرامز کو بجٹ میں شامل کرنے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ تقریبا اڑھائی سال قبل پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہرنے جامعہ کا بطور وائس چانسلر چارج سنبھالا تو یونیورسٹی کو بے پناہ مسائل درپیش تھے گزشتہ اڑھائی سال کے دوران یونیورسٹی نے نہ صرف تیز رفتار ترقی کی بلکہ یونیورسٹی کوجامع اور مربوط پالیسیز پرعملدرآمد کی بدولت معاشی استحکام بھی حاصل ہوا۔ خواجہ فرید یونیورسٹی میں طلبہ کی تعداد 8ہزار سے بڑھ کر 16ہزار ہو گئی ہے ترقیاتی کام رواں سال جون میں پایۂ تکمیل کو پہنچنے کے بعد یہ تعداد 25ہزار تک پہنچ جائے گی ۔ یونیورسٹی میں تیس سے زائد نئے بی ایس، ایم ایس اینڈ پی ایچ ڈی پروگرام شروع کئے گئے ہیں۔ یونیورسٹی میں پی سی ون فیز ٹو کے تحت آٹھ اور یونیورسٹی کے اپنے فنڈز سے بارہ ڈویلپمنٹ پروجیکٹس کا آغاز کیا گیا ہے۔ٹائمز ہائر ایجوکیشن امپیکٹ رینکنگ 2022 کے مطابق خواجہ فرید یونیورسٹی نے افورڈا یبل اینڈ کلین انرجی کی کیٹیگری میں ملک کی انجینئرنگ یونیورسٹیز میں پہلی، ملک بھر کی تمام جامعات میں تیسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی پر کام کے حوالے سے بھی ٹائمز ہائر ایجوکیشن امپیکٹ رینکنگ میں خواجہ فرید یونیورسٹی نے ملک بھر کی انجینئرنگ یونیورسٹیز میں پہلی، دیگر تمام یونیورسٹیز میں چوتھے نمبر پر جگہ بنائی ہے۔اسی طرح جامعات کے تعلیم و تحقیق سے متعلق اعداد و شمار جمع کرنے والے عالمی ادارے سی میگو کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی رینکنگ انوائرمنٹل سائنسز کی کیٹیگری میں ملک بھر میں پانچویں، ایشیا میں 208ویں جب کہ عالمی سطح پر 378ویں نمبر پر رہی۔ اسکالر شپ حاصل کرنے والے طلبا کی تعداد میں 107اورا سکالر شپ کیلئے رکھے فنڈز میںغیرمعمولی اضافہ ہوا۔ ریسرچ اور تدریس میں بہتری لانے کیلئے مختلف نیشنل اور انٹرنیشنل یونیورسٹیز اور اداروں کے ساتھ چالیس سے زائد ایم او یوزپر دستخط کئے گئے ہیں۔ جب پروفیسر ڈاکٹر سلیمان طاہر نے بطور وائس چانسلر چارج سنبھالا اس وقت یونیورسٹی 406 ملین کی مقروض تھی فنانشل ڈسپلن میں بہتری لائی گئی اور یونیورسٹی خسارے سے سر پلس بجٹ کی طرف چلی گئی۔رواں سال مارچ میں یونیورسٹی کے پہلے کانووکیشن کا انعقاد کیا گیا،جس میںتمام شعبہ جات کے اول، دوم اور سوم آنے والے طلبہ کو میڈلز دئیے گئے جب کہ مجموعی طورپر750 سے زائد طلبہ و طالبات کواسناد عطا کی گئیں۔

تازہ ترین