• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ مختصر سی حکایت اپنے اندر ایک بہت بڑا سبق لئے ہوئے ہے۔ ایک شخص ایک بھاری بھر کم ہتھوڑے سے پتھر توڑ رہا تھا، وہ پتھر پر چوٹ لگاتا جاتا اور ہر چوٹ گنتا جاتا ۔ایک باپ بیٹا وہاں سے گزر رہے تھے دونوں اس شخص کو دیکھنے کے لئے رک گئے۔ دونوں یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ وہ شخص یہ پتھر کتنی چوٹوں میں توڑتا ہے جب 75 چوٹیں لگ چکیں 76ویں چوٹ پر وہ بھاری بھر کم پتھر ریزہ ریزہ ہو گیا۔ چوٹ لگانے والے شخص کے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے ’’اس چوٹ نے پتھر توڑا ہے۔‘‘ دونوں باپ بیٹے اس کی بات سن کر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے، باپ نے بیٹے سے پوچھا ’’ تمہارا کیا خیال ہے ؟ کیا یہ شخص درست کہہ رہا ہے ؟‘‘ بیٹا بولا :’’جی ہاں۔‘‘ باپ نے کہا :’’نہیں ایسا نہیں ہے یہ پتھر دراصل 76چوٹوں نے مل کر توڑا ہے اگر پہلی 75چوٹیں اس پتھر پر نہ لگائی جاتیں تو 76ویں چوٹ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی اس میں سبق یہ ہے کہ ناکام ہو جانے والی ہر کوشش کامیابی میں اپنا حصہ ڈالتی ہے ‘‘۔

یہ حکایت مجھے پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کے ’’مژدہ‘‘ جاں فزا سے یاد آئی ۔ موجودہ حکومت کے کارپردازان کا کہنا ہے کہ یہ معرکہ انہوں نے سر کیا ہے اور اڑھائی ماہ پہلے ایوانِ حکومت سے باہر آنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنمائوں کا دعویٰ ہے کہ یہ کامیابی ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی تقریباً چار برس حکومت میں رہی گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکلوانے کیلئے اس نے بھی بہت سی کوششیں کی ہوں گی موجودہ حکومت بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی رہی ۔ بس ہوا یہ ہے کہ 75چوٹیں پچھلی حکومت نے لگائیں اور 76ویں چوٹ موجودہ حکمرانوں نے اگر دونوں کی مشترکہ کاوش سے پاکستان منجدھار سے باہر نکل آیا ہے تو دونوں کو مل کر اظہارِ مسرت کرنا چاہئے یہ خوشی کسی ایک سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ سارے پاکستان کی ہے ۔ دراصل ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سب مذہبی، سیاسی اور لسانی تعصبات کے اسیر ہو کر تفریق کا شکار ہوگئے ۔ ہم نے خوشیوں اور دکھوں کو بھی تقسیم کر لیا ہے ۔سبب اس کا یہ ہے کہ ہم قومی سوچ سے محروم ہو گئے ہیں ہم فرد اور جماعت کی محبت میں یوں مبتلا ہوئے ہیں کہ پاکستان کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا پاکستان کے بدن پر ہم نشتر چلاتے ہیں اور اسے بلبلاتے دیکھ کر ایک آنسو بھی بہانے کے روادار نہیں ۔

مرے بدن پہ لگائے ہیں زخم کس کس نے

بنا ہوا ہے سراپا سوال، پاکستان

ہمارے ذاتی اور سیاسی اختلافات ہماری ہر خوشی کو غارت کر ڈالتے ہیں خبر تو یہ گرم تھی کہ ہم گرے لسٹ سے نکلنے جا رہے ہیں لیکن فیٹف کی طرف سے یہ کہہ کر ہماری وقتی خوشی کو غارت کر دیا گیا کہ فی الحال پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نہیں نکالا جائے گا اکتوبر تک صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا پاکستان کے دورے کئے جائیں گے تب کوئی فیصلہ ہو گا۔ وقت سے پہلے ضرورت سے زیادہ خوشی منانے کا یہی انجام ہوا کرتا ہے آپ نے اپنی عام زندگی میں بھی کئی بار یہ بات محسوس کی ہو گی کہ جب آپ مستقبل قریب میں ملنے والی کسی خوشی کی خبر کسی کو فخریہ سنا دیتے ہیں تو کچھ عرصے بعد پتا چلتا ہے کہ تقدیر نے اپنا راستہ بدل لیا ہے تب ہم رنج کی آخری حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ دراصل ہم دوسروں سے بہت سی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں اور جب وہ پوری نہیں ہوتیں تو ہم شدید قسم کے ڈیپریشن میں چلے جاتے ہیں اس وقت پوری پاکستانی قوم بھی شدید قسم کے ڈیپریشن میں مبتلا ہے ایک اچھی خبر آنے کو تھی لیکن ہمارے حکمرانوں اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی آپس کی زبانی کلامی جنگ اور کریڈٹ لینے کی کوشش نے بہت عرصے کے بعد آنے والی خوشی کی خبر بھی رکوا دی ۔ دونوں طرف کے لوگ اپنا اپنا ڈھول پیٹ رہے ہیں وہ بھد اڑائی جا رہی ہے کہ الامان الحفیظ۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی وزیر مملکت برائے خارجہ امور محترمہ حنا ربانی کھر کی فراست اور متانت کی داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے یہ کہہ کربات ہی ختم کر دی کہ گرے لسٹ سے پاکستان کا نام کس نے نکلوایا ؟ موجودہ حکومت نے یا سابقہ حکومت نے ؟ ہمیں اس سے ہٹ کر یہ دیکھنا ہے کہ اب ہمیں آگے کیا کرنا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ بیش تر رہنمائوں میں رہنمائوں والی کوئی بات ہی نہیں یہ قوم کو راستہ دکھا نہیں رہے بلکہ اصل راستے سے ہٹا رہے ہیں جو شخصی ’’صفات‘‘ ان رہنمائوں میں نظر آتی ہیں وہی ان کے پیروکاروں میں پیدا ہو رہی ہیں ۔

بہت حسین ہے اسلوب طعنہ و دشنام

کہاں سے شہر میں یہ خوش کلام آئے ہیں

تازہ ترین