• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خاموشی پر بہت کچھ کہااور لکھا جاچکا ۔ خاموشی کو ایک خوبی اور طاقت کا چھپا ہوا اظہار کہا جاتا ہے ۔ لیکن اس دوران اسے کمزوری بھی خیال کیا جاتا ہے، خاص طور پر جب کوئی مقصد سامنے ہو اور اس کے لیے آواز بلند کرنا ضروری ہو۔ ظالم کے جبر کے سامنے خاموشی بزدلی اور حوصلے کی کمی دکھائی دے گی۔ جابرسلطان کے سامنے خاموش رہنے کا مطلب حقوق سے محرومی کو قبول کرنا ہوگا۔

ملک کی تاریخ انواع واقسام کی ریڈلائنوں سے سرخ ہو چکی ہے ۔ ان لکیروں کو تقدیس کی حد تک اہمیت دی جاتی ہے ۔ یقین کیا جاتا ہے کہ ان لکیروں کو عبور نہیں کرنا۔ چاہے یہ کسی ادارے کی بات ہویا کسی فرد کا اپنی اتھارٹی برقرار رکھنے کافطری شغف۔ یہ عوام ہیں جنھیں اپنے جذبات کو لگام دینا ہے۔ اپنے حقوق کو لہو لہان ہونے دینا ہے۔ قدیم دور کی یاد دلانے والے قوانین نہ صرف ہمارے ملک میں اہمیت حاصل کرتے جارہے ہیں بلکہ ان کے ذریعے عوام کی زبان بند کی جارہی ہے ۔ا ن کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ ان کے حقوق روندے جارہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ایسا وہ ادارے کررہے ہیں جوآئینی طور پر عوام کو آزادی کی یقین دہانی کراتے ہیں ۔ آزادی اظہار ان میں سے ایک ہے۔

جمہوری معاشروں میں تبدیلی ووٹ کے ذریعے آتی ہے ۔ اس عمل کو عوام کا خاموش انقلاب بھی کہا جاتا ہے ۔ وہ ایک آزاد ماحول میں شفاف اور منظم طریقے سے اپنے مستقبل کا راستہ طے کرتے ہیں ۔ جب اپنے رہنما ئوں کے انتخاب کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے ، یا اس عمل میں تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں تو نہ صرف تشدد کا خدشہ بڑھنے لگتا ہے بلکہ عوام کے پاس بھی اپنے حقوق حاصل کرنے کا واحد ذریعہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں رہتا ۔ اس طرح ایک پرامن انقلاب پرتشدد جدوجہد میں بدل جاتا ہے۔ تقسیم کے زخم اور کشمکش کی ضربیں اس معاشرے کو گھائل کردیتی ہیں۔

غیر ملکی اشیر باد، معاونت اور مقامی سہولت کاروں کی مدد سے پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کی کارروائی نے بہت سی فالٹ لائنز اجاگر کردی ہیں۔ملک کے لیے ان انتہائی تباہ کن فالٹ لائنز میں سے ایک جمہوری عمل کوہمیشہ اپنے کنٹرول میں رکھنا ہے۔

ریڈلائنز مزید نوک دارہوچکی ہیں اور کچھ اداروں کی تقدیس کا بھرم مزید گہرا ہوگیا ہے ، عوام نے یہ لبادے چاک کرنے اور سٹیٹس کو بدلنے کی ذمہ داری اٹھا لی ہے ۔ اور وہ ایسا پہاڑ سا حوصلے کے ساتھ کررہے ہیں، جس جوش و جذبے کے ساتھ وہ عمران خان کے جلسوں میں شریک ہورہے ہیں، اس سے کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ یہ لہر چڑھ رہی ہے ۔ اب اس کے اترنے کا کوئی امکان نہیں ۔ اس صورت حال نے سیاسی مخالفین کو ہلا کررکھ دیا ہے ۔ چنانچہ اُنھوں نے تحریک انصاف اور اس کے ایجنڈے پر جارحانہ حملے شروع کردیے ہیں۔ ان کی زد میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کا سیاست سے کوئی سروکار نہیں۔ اس سے چند سری حکمران اشرافیہ (Oligarchs) کی بیمارذہنیت کی غمازی ہوتی ہے۔ اب اس اشرافیہ میں خاندان کے مزید افراد بھی شامل ہوتے جارہے ہیں۔ یہ سیاسی کلچر کا لازمی جزو بنتا جارہا ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے اُنھیں ایسے لوگوں کی سرپرستی حاصل ہے جوہمیشہ بہت کچھ کرکے صاف بچ نکلتے ہیں۔

تبدیلی کا وعدہ خان صاحب نے عوام سے کیا تھا۔ اس کے لیے سنجیدہ کوشش بھی کی گئی۔لیکن اس عمل کو ان قوتوں نے سبوتاژ کر دیاجن کے اپنے عزائم اور اپنا ایجنڈا تھا جسے وہ نافذ کرنا چاہتی تھیں۔ سبوتاژ کرنے کے عمل میں اخلاقیات اور اقدار کی پاسداری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اس کے بجائے، پیسہ، طاقت اور اثر و رسوخ، جو افراد کے پاس عہدوں کے اختیارات کے ذریعے حاصل ہوتا ہے،اور وہ انہی کی پوجا کرتے ہیں۔ خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے کے بعدمعلوم تھا کہ آگے ایک مشکل کام ہے۔ لیکن کسی نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس کا نفاذ بدنام لفنگوں، ملزموں، مجرموں اور بھگوڑوں کوسونپ دیا جائے گا۔ وہ جنھوںنے اپنے ذاتی خزانے بھرنے کیلئے لوٹ مار مچائی تھی ۔گرچہ سمجھوتے پر آمادہ اداروں کی وجہ سے ان کی سزاؤں کو منظم طریقے سے ناکام بنایا گیا، لیکن وہ عوام کی عدالت میںبھرپور طریقے سے بے نقاب ہو گئے۔حکومت کی تبدیلی کے منصوبے کی طویل المدت کامیابی کا انحصار اس بات پر تھاکہ عمران خان کیا پوزیشن اختیار کریں گے۔اُنھوں نے توقعات کے بے حد برعکس بلیک میل ہونے سے انکار کر دیا اور اپنی جنگ کو لوگوں تک لے جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ایک طویل عرصے سے دبی ہوئی تبدیلی کی لہر ابھرنے لگی۔اس کا حقیقی اظہار ان لوگوں کی گونجتی ہوئی آواز میں ہوا جنھوں نے بغیر کس ابہام کے شب خون کومسترد کر دیا اور فوری طور پر آزاد آزاد اور شفاف انتخابات کا مطالبہ کرنے کے لیے عمران خان کے ساتھ صف آرا ہو گئے تاکہ وہ ایسی قیادت کا انتخاب کرسکیں جس پر اُنھیں اعتماد ہے۔یکے بعد دیگرے نکالی جانے والی ریلیوں میں پاکستان کو بدعنوانی، جرائم اور غیر ملکی آقاؤں کی غلامی سے نجات دلانے کے علاوہ ان کے وژن کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے انھوں نے عمران خان کی آواز پر لبیک کہاتاکہ ایک فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لایا جاسکے۔ وہ ریاست جو بنیادی طور پر غریب طبقے کی بہتری کے لیے وقف ہو۔ وہ افراد جو زندہ رہنے اور بہتر مستقبل کے خواب دیکھنے کے لیے ریاست کے تعاون کے مستحق ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین