میرے ساتھ پیش آنے والایہ واقعہ آپ کو اس بات کا احساس دلائے گا کہ غربت بذاتِ خود کوئی ٹھوس چیز نہیں بلکہ ایک احساس کا نام ہے۔ آپ اگر یہ سوچتے ہیں کہ آپ غریب ہیں تو پھر آپ واقعی غریب ہیں اور اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپ امیر ہیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت آپ کو غریبوں کی صف میں کھڑا نہیں کرسکتی۔
یہ تقریباً پانچ سال پرانی بات ہے۔ میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اپنی گاڑی پر ملتان سے لاہور آ رہا تھا۔ اچانک میرے فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف ایک نسوانی آواز تھی، ’’بھائی جان! مجھے فیس بک کے ذریعے پتا چل گیا ہے کہ آپ اس وقت ملتان سے لاہور کی طرف جا رہے ہیں۔ میں چیچہ وطنی میں رہتی ہوں۔ آپ کچھ وقت کے لئےہمارے گھر رک جایئے، میرے بچے آپ سے ملنے کے شائق ہیں۔ وہ آپ کے کالم پڑھتے ہیں۔ آپ کوٹی وی کے مشاعروں میں بھی دیکھتے ہیں‘‘۔ یہ رضیہ خانم تھی۔ رضیہ نے نوے کی دہائی کے شروع میں مجھے خط لکھنا شروع کئے تھے۔میں تب ایک اخبار کےسنڈے میگزین کا انچار ج تھا۔ رضیہ قارئین کی تحریروں والے صفحے کے لیے مختصر نثر پارے مجھے بھیجا کرتی تھی جو میں چھاپ دیا کرتا تھا۔ موبائل فون آنے کے بعد خط نگاری کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اب رضیہ کا مجھے کبھی کبھار فون آنے لگا۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ کبھی مجھے ملی نہ میں نے اسے دیکھا۔ اب اس کا فون آیا تو میں نے اس سے ملنے کا فیصلہ کرلیا۔ چیچہ وطنی پہنچ کر میں نےاس کو فون کیا تو وہ چند ہی لمحوں میں میری بتائی ہوئی جگہ پر اپنے شوہر کے ساتھ آگئی۔ چھوٹی سی آبادی میں اس کا چھوٹا سا مکان تھا لیکن مجھے اس گھر سے خلوص کی خوشبو آ رہی تھی۔ رضیہ نے اپنے کسی امیر پڑوسی کے گھر سے مہنگا ٹی سیٹ منگوا رکھا تھا۔ چار پارئیوں پر نئی چادریں بچھی ہوئی تھیں۔ صاف لگتا تھا کہ یہ بطورِ خاص آج ہی بچھائی گئی ہیں اور ہمارے جانے کے بعد اٹھا لی جائیں گی۔ گھر کے درو دیوار سےصاف پتا چلتا تھا کہ رضیہ کے شوہر کی آمدن بہت کم ہے اور ان کا گزارا مشکل سے ہو رہا ہوگا لیکن ان سب کی محبت اور خلوص نے میرا اور میرے بچوں کا دل جیت لیا۔ ہم سب نے رضیہ کے گھر پرپُرلطف چائے نوش کی،بچوں کو اس نے چاکلیٹ، چپس اور کولڈ ڈرنکس کے کین دیئے۔ گویااس نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر اپنے بھائی اور اس کے بچوں کی خاطر مدارات کی۔ رضیہ کے شوہر نے تو یہاں تک کہہ دیا: ’’مجھے یقین ہی نہیں آ رہا کہ آپ ہمارے گھر آئے ہیں‘‘۔اس کی بات سن کر مجھےلگا کہ میں شاید بہت بڑا آدمی ہوں۔ میرے پاس بہت پیسا ہے۔ وہ اپنی غربت چھپانے کی کوشش کر تے رہے لیکن سچ تو سچ ہے۔ سامنے آ کر رہتا ہے۔ اپنی ضرورت سے زیادہ آئو بھگت دیکھ کر میں دل ہی دل میں خود کو بہت امیر اور انہیں غریب سمجھتا رہا۔
اب پچھلے ہفتے کا تازہ ترین واقعہ سن لیجئے۔ مانچسٹر میں مقیم میرے دیرینہ دوست، انشائیہ نگار اور کان کے ڈاکٹر آفتاب محی الدین کا فون آیا، کہنے لگے:’’میں اپنے اہل خانہ سمیت لاہور آ رہا ہوں۔ تین دن ہم آپ کے گھر رہیں گے۔ پھر حج کے لئےروانہ ہو جائیں گے‘‘۔ ڈاکٹر آفتاب پچھلے کئی برسوں سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ صاحب ثروت ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے اور ہمارے رہن سہن میں بہت فرق ہے۔ ان کی بات سن کر میرے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ مجھے لگا کہ میں یک دم غریب ہوگیا ہوں۔ میں اور بیگم سوچنے لگے کہ غیر ملک سے آنے والے مہمانوں کو کھانا کن برتنوں میں کھلائیں گے، چائے کاسیٹ کہاں سے لائیں گے۔پلنگ کی چادریں بھی میلی ہو چکی تھیں۔ انہیں بدلنے کی فکر بھی لاحق ہوگئی۔ جیسے تیسے کرکے نئے برتن خریدے۔ نئی چادریں منگوائیں، گھر کے استعمال کی کچھ چیزیں ہمسائے سے لیں۔یہ سب کرتے ہوئے مجھے رضیہ اور اس کا شوہر یاد آگئے بلکہ یوں لگا کہ ہم بھی وہی ہیں۔ چند دن کے بعد ڈاکٹر آفتاب اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہمارے گھر پہنچ گئے۔ وہ میرے گھر کے درو دیوار کو اسی طرح حیرت سے دیکھ رہے تھے جس طرح میں نے رضیہ کے گھر کو دیکھا تھا ۔ اطمینان تب ہوا جب وہ ہمارے گھر کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کی تعریف کرنے لگے۔ ان کے بچے ہمارے گھر کی اونچی چھت دیکھ کر دیوانے ہوئے جا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں وہ کبھی کسی مکان کی چھت پر نہیں گئے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ میں غریب نہیں ہوں۔ مجھے یہ خیال بھی آیا کہ غربت بذات خود کوئی چیز نہیں۔ یہ تو ایک احساس ہے جو ہم اپنے دل میں خود پیدا کرتے ہیں۔ سو میں نے تو غربت کو خدا حافظ کہہ دیا ہے، اب آپ بھی غربت کو خدا حافظ کہہ دیجئے۔