بظاہر پی ٹی آئی نے 17 جولائی 2022ء کو پنجاب میں انتخابی معرکہ سر کر لیا ہے۔ پی ٹی آئی نے’’ ڈی سیٹ‘‘ ہونے والے ارکان کی 20نشستوں میں سے 15واپس لے لیں اور 5نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھی چونکہ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں 11زائد نشستیں حاصل کی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے کسی بحث میں پڑے بغیر اپنی شکست تسلیم کر کے اپنے گھر کو درست کرنے کے عزم کا اظہار کیا ، پنجاب اسمبلی کے 20 حلقوں میں ضمنی انتخابات کے نتائج سیاسی حلقوں کے لئے ایک بڑا سرپرائز تھے۔
پنجاب جسے مسلم لیگ کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا اب اس کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں کھمبے کو کھڑا کرتی تو اس کی جیت بھی یقینی ہوتی تھی لیکن ضمنی انتخابات کے نتائج سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا پلڑہ بھاری نہیں رہا ۔
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر ختم ہو گیا ہے مسلم لیگ (ن) کا جوبھرم قائم تھا، اس کے اپنے لیڈروں اور کارکنوں کی ’’غیر فعالیت اور عدم دلچسپی ‘‘ کے باعث ختم ہو گیا، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کاغذی سطح پر قائم تو ہے زمینی سطح پراب اس کا کوئی وجود نظر نہیں آتا ۔
اس کی تنظیم سازی کی ضرورت ہے ،مسلم لیگ (ن) کے مختلف عہدوں پر سالہا سال سے لوگ براجمان ہیں جب کہ پی ٹی آئی میں نیا خون ہے جو جوش مار رہا ہے یہی جوش وجذبہ 17جولائی 2022ء کو پی ٹی آئی کے ووٹر کو باہر نکالنے کا باعث بنا ۔
مسلم لیگ (ن) نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والوں کو ڈی سیٹ ہونے پر معاہدے کے مطابق مسلم لیگ (ن) کاٹکٹ دیا لیکن ووٹر نے ’’لوٹا ازم ‘‘ کی سیاست کو مسترد کر دیا پنجاب اسمبلی کے 20حلقوں میں ہونے والے انتخابی نتائج کا جائزہ لیا جائے تو تین چار نشستوں پر ہی مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان کانٹے کامقابلہ ہوا جب کہ دیگر حلقوں میں پی ٹی آئی کے امیدواروں نے واضح اکثریت سے سے کامیابی حاصل کی ۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کا گراف نیچے آیا ہے اور پی ٹی آئی کی مقبولیت میں قدرے اضافہ ہوا ہے20حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج نے جہاں پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی توازن تبدیل کر دیا ہے وہاں یہ نتائج ملک کے سیاسی منظر کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کر یں گے۔
چندسال قبل پنجاب میں مسلم لیگ (ن) مجموعی طور پرپی ٹی آئی سے10فیصد آگے رہی لیکن 11اپریل 2022ء کو عمران خان سے’’ تخت اسلام آباد‘‘ چھیننے کے بعد پی ٹی آئی کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہے اور تیسرا خود مسلم لیگیوں کا اپنی جماعت کے امیدواروں کو شکست دینے میں کردار ہے ۔ضمنی انتخابات میں ٹرن آئوٹ 69. 49فیصد رہا ۔پی ٹی آئی نے46.08فیصد اور مسلم لیگ (ن) نے 39.05 فیصد ووٹ حاصل کئے ۔
مسلم لیگ (ن) کیلئے سب سے خطرناک بات یہ ہےکہ مجموعی طور پرپنجاب میں پی ٹی آئی مسلم لیگ سے10فیصد آگے ہو گئی جب پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں پر مشتمل حکومت قائم ہوئی تووہ نہ صرف مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے میں ناکام رہی بلکہ مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ملک کی غیریقینی صورت حال سے دوچار ہونے کی وجہ سے ڈالر226روپے تک پہنچ گیاہے لیکن حکمرانوں کے کان پر جوں تک رینگی اور نہ ہی اپوزیشن نے تشویش کا اظہار کیا ہے، سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی ہے ڈالر کی قیمت بڑھنےسے ملک پر ہر روز اربوں روپے کا قرضہ بڑھ رہا ہے، مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے، عام آدمی کی مسکراہٹ چھین لی ہے ۔
مہنگائی میں مسلسل اضافہ کے بعد اب لوگ عمران خان کے دو ر حکومت کو موجودہ حکومت سے بہتر سمجھنے لگے ہیں دوسری طرف پنجاب میں کامیابی کے بعد عمران خان کے پائوں بھی زمین پر نہیں لگ رہے، حاشیہ بردار انہیں صبح شام ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ مقبول لیڈر بن جانے کی نوید سناتے رہتے ہیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسا بڑا لیڈر بننے کے لئے ’’تختہ دار ‘‘ کو چومنا پڑتا ہے۔
جلسوں میں حاضری مقبولیت کا گراف ماپنے کا پیمانہ نہیں ہوتی انتخابات میں ووٹ بینک سے کسی لیڈر کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے، عمران خان کے جلسوں میں نوجوانوں کی بھرپور شرکت پر ان کی مقبولیت کے گراف کے بلند ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کے مقابلے میں نو آموز مریم نواز نے بھی بڑے بڑے جلسے کئے ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینئن ریسرچ (آئی پی او آر) کے چیئر مین طارق جنید نے ضمنی انتخابات کے انعقاد سے قبل راقم الحروف کو بتا دیا تھا کہ پی ٹی آئی 10نشستوں پر جیت رہی ہے جب کہ مسلم لیگ ن 5نشستیں حاصل کر سکے گی 5نشستوں پر کانٹے دار مقابلہ ہو گا ،ان کا سروے ایک نشست کے سوا تمام نشستوں کے بارے میں صحیح ثابت ہوا، پی پی 217ملتان کا انتخابی نتیجہ سروے رپورٹ سے مختلف نکلا ۔
عام انتخابات میں 11آزاد ارکان نے منتخب ہو کر پی ٹی آئی جائن کی تھی جب کہ 5 ارکان پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ کسی حد تک عمران خان کے ’’بیانیہ‘‘ کو بھی پذیرائی حاصل ہوئی ہے شنید ہے کچھ حلقوں میں ووٹوں کی خریدو فروخت بھی ہوئی ہے۔(جاری ہے )