• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس روز ہم بچّوں کی طرح خوش تھے کہ تنگ شیاؤ کے گھر جو جا رہے تھے۔ اس کی بلڈنگ کے نیچے پہنچ کر ہم نے اپنی بیٹی سعدیہ سے کہا کہ ’’ مجھے یہیں اُتاردو، آگے مَیں خود چلی جاؤں گی۔‘‘ جب تنگ شیاؤ سعدیہ کے گھر آئی تھی، تو جاتے جاتے کہہ گئی تھی کہ ’’اب آپ میرے گھر ضرور آئیے گا۔‘‘ویسے تو اس نے ہمیں اپنے گھر کا پتا اچھی طرح سمجھا دیا تھا، لیکن یوں بھی ہمیں لوگوں کےگھر ڈھونڈنے اور خجّل خوار ہونے میں بہت مزہ آتا ہے۔

تنگ شیاؤکی بلڈنگ میں داخل ہو کر لفٹ سے بآسانی مطلوبہ فلور پر آرُکے اور اس کے گھر کے عین سامنے جا پہنچے، مگر گھنٹی بجانے سے قبل گردوپیش کا بغور جائزہ لیا۔اور پھر دروازہ کُھلتے ہی کچھ جھینپ سے گئے کہ تنگ شیاؤ نے تو ہمارا اس قدر پُرتپاک استقبال کیا، دروازہ کھولتے ہی ایسی زور دار جپّھی ڈالی کہ ہم خود تھوڑی دیر کے لیے حیران و پریشان سے ہوگئے۔ گھر میں داخل ہوئے، تو دو بڑے گُل دانوں میں، جو دروازے کے دائیں، بائیں پاسبانوں کی طرح رکھے تھے، ایسے نایاب پھول سجے تھے کہ دیکھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کیا شان دار نقّالی تھی، سچ بتائیں تو نقل پر اصل کا گمان گزررہا تھا۔آگے بڑھے، تو پورے گھر ہی کو پھولوں، بیلوں اور قیمتی سجاوٹی اشیا سے سجا، بےحد دل کش پایا۔

تنگ شیاؤ کے پُرتپاک استقبال نے دل کیا، روح بھی سرشارکردی تھی۔ایسا محسوس ہو رہا تھا، جیسے بہت محبّت کرنے والے کسی اپنے سے مل رہے ہوں۔ اسی اثنا ،تنگ نے چنیوٹ کا ڈرائی فروٹ سیٹ آہستگی سے میز پر رکھا۔ ہم تواپنے جوتے باہر ہی اُتار آئے تھے، تو اس نے نرم سے سلیپرز پہننے پر اصرار کیا، مگر ہمیں ننگے پاؤں چلنا زیادہ اچھا لگ رہا تھا۔ جس اوّلین احساس نے سرشاری سے نہال کیا، وہ ایک معصوم سی آواز کی چہکار تھی، جیسے کوئی لہک لہک کر گیت گارہا ہو۔ ابھی ہم اس چہکار کے سحر میں تھے کہ نظر تنگ شیاؤ کی قریباً ساڑھے چارسال کی مَن موہنی سی، تتلی جیسی نازک بیٹی پر پڑی، جو اپنی نانی کے گوڈے (گُھٹنے) سے لپٹی ہوئی تھی۔

’’اس کمرے میں داخل ہونے سے قبل مجھے بچّی کے مستی بَھرے اندازمیں کچھ پڑھنے کی آواز سُنائی دے رہی تھی، جو میرے اندر داخل ہونے پر بند ہوگئی، ’’کیا یہ کچھ گارہی تھی؟‘‘ہم نے تنگ سے پوچھا، تو و ہ ہنستے ہوئے بولی، ’’ہاں، یہ نظمیں پڑھنے کی بہت شیدائی ہے،سارادن چہکتی رہتی ہے۔ دراصل، ہماری چینی نظمیں ہمارا کلچر ،تہذیب و ثقافت اور ماضی کی حسین یادیں، باتیں جاننے کا ایک خُوب صُورت ذریعہ ہیں۔

اس کی وضاحت کچھ یوں کردیتی ہوں کہ جیسے برطانیہ میں ہر بچّہ شعور کی آنکھ کُھلتے ہی ’’ٹوئنکل، ٹوئنکل لِٹل اسٹارز اور میری ہیڈ اے لیمب‘‘ جیسی نظمیں پڑھنے لگتا ہے…‘‘اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتی، ہم نے لقمہ دیتے ہوئے کہا،’’برطانیہ چھوڑو، ہم جیسی غلام اور نقّال قوموں کے بچّے اُن سے بھی زیادہ اِن نظموں کو پڑھتے ہیں۔ہمارے بچّوں کے چاہے وہ سر سے گزر جائیں، ککھ اُن کے پلّے نہ پڑے، پر ایسے لہک لہک اور مٹک مٹک کر گاتے ہیں کہ کیا کہیں اور والدین سمیت تمام گھر والے سُن سُن کر نہال ہوتے ، واری صدقے جاتے ہیں۔‘‘

سچ تو یہ ہے کہ چِین کا ٹینگ دَورِ حکم رانی شعروفن کا سنہری دَور سمجھا جاتا ہے۔اس عہد میں تخلیق کے سوتے اُبلے تھے۔ بڑے تو بڑے، اُس دَور کے بچّوں نے بھی وہ ادب تخلیق کیا، جو آج بھی چِین کا امتیاز ہے۔ خیر، تنگ شیاؤ نے بیٹی سے کچھ کہا، تو ماشاء اللہ! باؤزائی( Baozhai) نے بھی فوراً ہاتھوں، سر، آنکھوں اور منہ کے زاویے بنا بنا اور سنوار سنوارکر نظم سُنانا شروع کردی۔؎ بطخ، اوبطخ، اوبطخ…تم جب اپنی گردن… آسمان کی طرف موڑتی اور گاتی ہو…تمہارے سفیدپر…زمرّد جیسے پانیوں پر تیرتےہیں…تمہارے سُرخ پائوں…شفّاف لہروں کو پیچھے دھکیل دیتے ہیں… ’’جانتی ہیں یہ کلاسیکل ٹائپ کی نظم ٹینگ دَور کے ایک ہونہار بچّے نے، جو جوان ہوکر بہت عظیم شاعر بنا اور لو بِن وانگ( Luo bin Wang)کے نام سے مشہور ہوا، سات سال کی عُمر میں تخلیق کی تھی۔‘‘

یہ بتاتے ہوئے تنگ شیاؤ نے آٹھ ویں صدی کے ایک شاعر، وانگ وی (Wang Wei) کی ایک خُوب صُورت سی نظم سنائی، جو آج بھی اتنی ہی ہردل عزیز ہے، جتنی صدیوں پہلے تھی۔ کیسی دل میں اُتر جانے والی تھی، جس کا عنوان ’’محبّت کے بیج‘‘ تھا۔؎ جنوب کی سرزمین پر سُرخ بیریاں اُگتی ہیں… ہائے، بہار میں بے چارے درختوں کا بوجھ کتنا بڑھ جاتا ہے…اکٹھا کرو انہیں کہ تمہاری مُٹھی بھر جائے…یہ تمہاری محبّت بَھری میٹھی یادوں کوپھر سے زندہ کردیں گی…سچّی بات ہے، تنگ شیاؤکے چھوٹے سے گھر میں گھومنا پھرنا ہمیں بےحد اچھا لگا۔

رات کی تاریکی میں جگمگاتی قیانمین اسٹریٹ
رات کی تاریکی میں جگمگاتی قیانمین اسٹریٹ 

دو بیڈ رومز کا بہت خُوب صُورت فلیٹ تھا، جس کی آرایش، سلیقہ مندی اور شاہانہ انداز میں کی گئی تھی۔ اس کی والدہ قریباً پچاس سال کی بہت خُوب صُورت خاتون تھیں۔ نہ بیٹی کی طرح فربہ، نہ آنکھیں سلائی جیسی، بلکہ متواز ن سی، بےحد دل کش۔ تنگ کا بھائی امریکا میں مقیم اور ماں پروفیسر تھیں۔بیوگی کے بعد اب بقیہ زندگی بیٹی کے ساتھ گزار رہی ہیں۔تنگ نے ہمیں چائے(جسے ہم قہوہ کہتے ہیں)، پلانے کی کوشش کی۔’’تکلّف چھوڑو، ہم باہر گھومنے جارہے ہیں۔ 

وہیں کچھ کھائیں، پئیں گے۔‘‘ہم نے کہا، مگر وہ نہ مانی۔’’آپ کو مِکس فروٹ ٹی پینی ہے، سَن فلاور، اسٹرابیری یا ہربل ٹی…؟؟‘‘ اس نے پوچھا اور ہماری آنکھوں میں حیرت سی دوڑتی دیکھ کر زور سے ہنسی اور بولی،’’محاورے کی زبان میں اگر بات کروں، تو کہوں گی کہ ہمارے ہاں پینتیس سو قِسم کی چائے بنتی ہیں۔ ہم پانی کیا پئیں گے، یہی گرم قہوہ سارا دن پیتے رہتے ہیں۔‘‘پھر وہ ہمیں اپنے ساتھ کچن میں لے گئی اور چھوٹے سے کچن کی الماری سے اس نے ایک مُنّی سی چینک، دراز سے بڑا خوش نما ایک بند پیکٹ اور چھوٹی سی قینچی نکالی۔

سب وے اسٹیشن کا ایک منظر
سب وے اسٹیشن کا ایک منظر 

پیکٹ کا کونا کاٹا، مُٹھی بھر خشک پھل اور دیگر دو ڈبوں سے کچھ پھول پتیاں چائے دانی میں ڈالیں اور اُبلتے ہوئے پانی سے اُسے بھر دیا۔ اور ہم نے کُرسی پر بیٹھے، بغیر ہینڈل کے چھوٹا سا کپ پکڑے، اس کی سنہری رنگت دیکھتے ہوئے چھوٹا سا گھونٹ لیا۔ ذائقے کے بارے میں کیا کہیں کہ بس خفیف سامیٹھا،خفیف سا کھٹّا مائع، جسے قہوہ کہہ لو،صحت بخش مشروب یا جو مرضی نام دے دو، یہ تو آپ کی مرضی ہے۔ پورا ایک گھنٹا تنگ شیاؤکے گھر گزارنے کے بعد ہم باہر نکلے۔ 

سڑک پر آکر اُس نے ہم سے پوچھا’’جانتی ہیں، آج مَیں آپ کو کہاں لے کر جانے والی ہوں؟‘‘ تو ہم ہنس پڑے اور دل میں کہا ’’ارے، جہاں مرضی لے جائو، مجھے تو بس لُطف اندوز ہونا ہے۔‘‘’’ہاں، آپ کی لائوشی ٹی ہائوس دیکھنے کی بہت خواہش ہےناں؟‘‘ہمارے ہنسنے اور کچھ سمجھ نہ آنے پر اُس نے پوچھا، تو ہم کِھلکھلا کر ہنسے اور پھر قدرے جوشیلے سے لہجے میں بولے’’پرانے بیجنگ کے چائے خانوں میں۔‘‘ ’’پہلے جگہ جگہ گھمائوں پھرائوں گی، ساتھ ساتھ کہانیاں بھی سنائوں گی، پھر شہرۂ آفاق’’لاؤ شی ٹی ہاؤس‘‘لے جاؤں گی۔‘‘ تنگ نے جواب دیا۔‘‘سچّی بات ہے، اب تو بھئی ،خوشی سے میری باچھیں کانوں کی طرف دوڑنے لگی تھیں۔’’اُف…!! دجلہ کنارے بغداد کا شہرۂ آفاق ’’ال شابندر کافی ہاؤس‘‘ یاد آگیا تھا، جسے دیکھنے کے لیے ہم مَرے جا رہے تھے۔

اب کیسے نہ شُکر گزاری کے کلمات اس اوپر والے کے حضور پیش کرتے کہ تنگ شیاؤجیسی لڑکی سے ملوادیا، جو بیجنگ کے چپّے چپّے سے آشنا، اس کی ہڈّی ہڈّی، جوڑ جوڑ سے واقف تھی۔اس پر طرّہ یہ کہ خلقِ خدا سے محبّت اور ان کی مدد کرنے والی تھی۔ اُس نے ٹیکسی کرنے کی بجائے ہمارا ہاتھ تھاما اور قریبی سب وے کے گڑھوں میں اُتار کر چُھک چُھک کرتی میٹرو میں بٹھا کر Qianmenسب وے اسٹیشن لے گئی، جس کی زیرِ زمین دنیا سے گزرنے کے بعد ہم نے ’’آرچری ٹاور‘‘دیکھا۔

اسٹریٹ میں گھومتے پھرتے لوگ
 اسٹریٹ میں گھومتے پھرتے لوگ 

کیا خُوب صُورت، شان دار تھا کہ اُسے دیکھ کر دل نے ایک مسرّت بھری قلقاری بَھری تھی، اُسے دیکھتے دیکھتے ہمیں کچھ یاد آیا۔ ’’تم نے مجھ سے پیسے نہیں لیے…‘‘ہم نے تنگ سے کہا۔ ’’بہت معمولی کرایہ ہے۔ویسے بھی میرا تو پاس بنا ہوا ہے اور ہاں، اِن پیسوں ویسوں کے چکّروں میں مت پڑیں۔مَیں جب لاہور آئوں گی، تو آپ سے دُگنا وصول کروں گی۔‘‘ہماری پیاری سی میزبان نے کہا۔ شام کی میٹھی سی دھوپ میں پورا ماحول لوگوں کی چہل پہل سے جگمگا رہا تھا اور جب پانچ آہنی محرابوں والے خُوب صُورت دروازوں سے Qianmen اسٹریٹ میں داخلہ ہوئے، تو ہماری حیرت زدہ آنکھیں کبھی دائیں، کبھی بائیں گھوم رہی تھیں۔ واہ!کیا مناظر تھے۔ محرابوں کی نقّاشی، سڑک کے خانوں میں بٹی وسعتیں اور ان پر چلتے پھرتے لوگ…ایسا محسوس ہورہا تھا، جیسے ہم ایک طلسماتی دنیا میں داخل ہورہے ہیں۔جس کی شوخ رنگوں سے لتھڑی عمارتوں کے منہ متھے نئی نویلی دلہنوں کی طرح میک اَپ اور ہار سنگھار کی پٹیوں سے سجے ہیں۔

مرکزی شاہ راہ سے گلیاں مُڑتی اور نئے مناظر کے دروازے کھولتی تھیں، جو سیکڑوں سال قبل تاریخ کے کچھ رنگ و عکس اور اس وقت کی بھینی سی خوش بُو کا احساس بھی دلا رہی تھیں۔ تنگ نے بتایا،’’ Qianmen اسٹریٹ پیدل چلنے کے لیے ہے۔یہاں چھوٹی، بڑی کسی بھی قسم کی ٹرانس پورٹ کی اجازت نہیں۔ اسٹریٹ میں داخل کیا ہوئے کہ محسوس ہوا جیسے رنگ و نور سے بَھری پُری کوئی الف لیلوی دنیا سامنے آگئی ہو۔ شام تھی، تو برقی روشنیوں میں ماحول کی جگمگاہٹ آنکھیں خیرہ کررہی تھی۔عمارتوں کا حُسن، جدّت اور قدامت کے رنگوں میں ایسا گُندھا کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں پَھٹی کی پَھٹی رہ جائیں۔

تنگ شیاؤ جوان، زندگی کی حرارت سے لب ریز، مگر احساس کی دولت سے بھی مالا مال تھی کہ ہماری وجہ سے جوں کی سی چال چل رہی تھی۔ ’’آپ کو چلنا تو پڑے گا، مگر مَیں کوشش کروں گی کہ کم سے کم چلائوں۔Qianmen Streetمیں شمال اور جنوب سے دو داخلی راستے ہیں۔ یہ ہم پہلے راستے سے داخل ہورہے ہیں۔ذرا رونق میلہ تو دیکھیں، ہوٹانگز کی تاریخ کے بارے میں جانیں، پھر لائوشی ٹی ہاوس جائیں گے۔‘‘ تنگ نے کہا۔ مگر ساتھ ہی ایک سیاپا پڑ گیا کہ تنگ نے تو معلومات کے دریا بہانے شروع کردئیے ۔اُف !یہ تو بھئی، آنکھوں اور کانوں کا امتحان تھاکہ کان سُنتے، تو آنکھیں بھٹکنے لگتیں۔

اب تنگ کو نہیں کہہ سکتے تھے کہ ’’رُکو ،مَیں اسے ہضم نہیں کرپارہی‘‘، تو سوچا اُسے ٹوکیں گے نہیں۔’’اتنی پیاری، سچّی، کھری، محبّت کرنےوالی لڑکی ہے، چلو جو مل رہا ہے، چُپ چاپ اُسے لیتے جائو۔‘‘ ہم نے دل میں سوچا۔’’چائے وہ عنصر ہے، جو چِین کے ساتھ اسی طرح جُڑا ہے، جیسے گوشت کے ساتھ ناخن۔چینی کلچر، روایات سب کا وجود اس کے بغیر نامکمل ہے۔ دارالحکومت کے اِس شہرِ قدیم والے حصّے میں اتنے چائے خانے ہیں کہ شمار مشکل ہے۔یہ دَہائیوں میں نہیں، سیکڑوں میں ہیں۔

گزشتہ صدی میں تو یہ ہر شعبۂ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں، جیسے صحافیوں، لکھاریوں، اداکاروں، اساتذہ، طلبہ ،ڈاکٹرز، انجینئرز اور دست کاروں کی ایک طرح کی چوپال ہوا کرتی تھی اور لوگوں کے پاس وقت بھی بہت ہوتا تھا۔ اُن کی زندگیاں چھوٹے موٹے غموں، فکروں سے آزاد، بڑی ہم وار، متوازن اور اِس صدیوں پرانے دارالحکومت کے حُسن و دل کشی میں پور پور ڈوبی ہوئی تھیں۔ (جاری ہے)

سنڈے میگزین سے مزید