ڈی آر سی کا خُوب صُورت علاقہ، طویل القامت عمارتوں کے مناسب جُھرمٹ اور ایک چھوٹے سے کمپائونڈ کے ساتھ بےحد حسین معلوم ہورہا تھا۔یہاں کہیں کہیں بچّوں کے چھوٹے پارکس بھی قائم تھے، جن میں لگے جھولےاور دیگر کھیل تماشوں والی چیزیں بہت دل کش تھیں، پھر یہاں سنگی بینچز پر چوبی شیڈز کے پگوڈا نما چھجّے بھی بزرگوں کے لیے کشش کا باعث تھے۔اکثر بڑے یہاں دھوپ سینکنے اور بچّے کھیلنے آتے تھے۔ ایک دن ہم بھی گھومتے پھرتے وہاں جاپہنچے۔
میٹھی دھوپ، خاموش فضا، درختوں کے جھنڈ اور کہیں کہیں ان پر کِھلے سفید،گلابی پھول اس جگہ کا حُسن دوبالا کر رہے تھے۔ ہم وہیں بینچ پر بیٹھ کر لُطف اندوز ہورہے تھے کہ تین پاکستانی خواتین دکھائی دے گئیں۔ ایک دوسرے کے پیچھے چلتی یہ سیدھی سادی، کُھلے دوپٹوں سے ناک، منہ ڈھانپے باتیں کرتی ،جب ہمارے قریب پہنچیں، تو ایک میٹھی سی اپنائیت کا احساس اُبھرا۔ مُسکرا کر ہم نے حال احوال دریافت کیا، تو پتا چلا یہ پاکستانی سفارت خانے کے درجہ چہارم کےملازمین کی بیویاں تھیں اور اُن کے بچّے ایمبیسی اسکول میں پڑھتے تھے۔ آج بچّوں کی جلدی چُھٹی ہوگئی تھی، ان کی اسکول بس بچّوں کو وہاں اتارتی تھی، تو مائیں اُنہیں لینے آئی تھیں۔
تھوڑی سی مزید جان کاری سے پتا چلا کہ ایک کا تعلق پشاور، دوسری کا بہاول پور اور تیسری کا راجن پور سے ہے۔ چِین کے حوالے سے اُن کے اپنے تجربات تھے، جنہیں سُننا دل چسپ تجربہ تھا۔ ایسی ہی باتوں میں دفعتاً سُکینہ باجی کا ذکر آگیا۔سعدیہ کے گھر میں بھی کوئی چار، پانچ بار اس نام کا تذکرہ ہو چُکا تھا، جس سے ہم یہ تو سمجھ ہی چُکے تھے کہ وہ ایئر اتاشی کی مسز ہیں۔ویسے تو سُکینہ بڑا منفرد سا نام ہے، مگر ہم اس نام سے پہلے ہی سے آشنا تھے کہ جب ہم کربلا میں حضرت عباسؓ عَلم دار کے روضۂ مبارک کی زیارت کے لیے جارہے تھے، تو دروازے پر رَش کا عالم دیکھ کر سوچا کہ ’’اگر اس وقت اندر گئے، تو اس ہجوم میں کہیں دم ہی نہ گُھٹ جائے۔
باہر کُھلے میدان میں قالین بھی بچھے ہیں اور پنکھے بھی ہیں، تو کیوں نہ یہیں بیٹھ جائیں اور آدھی رات کے بعد اندر جائیں ۔ ‘‘وہاں بیٹھے بیٹھے مشہد سے آنے والی فیملی سے بات چیت کا سلسلہ چل نکلا، ان کے ساتھ جو بچّی آئی تھی، اس کا نام سُکینہ تھا۔ یہ نام ہم نے پہلی بار سُنا، تو تعجب سے انہیں دیکھا اور اپنے بیگ سے کاغذ ،قلم نکال کر بچّی کو تھمایا کہ ذرا اس پہ اپنا نام تو لکھو۔’’اوہو، اسے تو ہمارے ہاں سَکینہ بولا جاتا ہے۔‘‘تصحیح ہوئی کہ سَکینہ عربی زبان کا لفظ ہے، جب کہ سُکینہ فارسی زبان کا اور فارسی میں اس کی ادَائی اسی طرح ہونی چاہیے، جیسے یہ لوگ کر رہے ہیں۔
خیر، بچّوں کی اسکول سےواپسی کی منتظر خواتین کی باتوں سے ایک اور بات کا انکشاف ہوا کہ سُکینہ باجی بہت حسین ہیں، سفارت خانے کی عورتوں میں کوئی ایک بھی اُن کی ہم پلّا نہیں۔یہ سُن کر ہمارے ہونٹوں پر صرف ایک مدھم سی ہنسی بکھری، لفظ ہم نے بکھرنے ہی نہ دئیے ،کیوں کہ مخاطب عورتوں کو اس کی گہرائی جذب کرنی مشکل ہوجاتی ۔البتہ، ہم خود ضرور محظوظ ہوئے۔’’بھئی ایئر فورس پائلٹ کی بیوی ہے، کوئی مذاق تھوڑی ہے،یہ جنگی ہوا بازوں کی بیویاں بلا کی حسین ہوتی ہیں۔ ساٹھ ،ستّر کی دہائیوں میں پاکستانی شاہینوں کا کتنا کریز تھا،کوئی ہم سے پوچھے۔
ہماری ایک سہیلی، تہمینہ کے بھانجے کا قصّہ بھی بڑے مزے کا ہے۔جب وہ فرانس سے میراج طیارے کی تربیت لے کر واپس آیا، تو خالہ کے ساتھ ہمارے ہاں بھی آیا، اس کی شادی کی بات نکلی تو کہنے لگا۔’’خالہ! لڑکی پھول جیسی ہونی چاہیے۔‘‘تو اس کے سراپے پر پیار بھری نظریں ڈالتے ہوئے ہم نے دل میں سوچا’’خود بھی شہزادوں جیسا ہی ہے، پھول مانگنے میں تو حق بجانب ہے۔‘‘ تاہم، مذاقاً کہا’’اب یہ بھی بتا دو کہ پھول گوبھی کا ہو یا گیندے کا۔‘‘ ’’اُف خالہ، مذاق چھوڑیں ۔ خاندان ماڈرن، تعلیم یافتہ ہو،لڑکی انگریزی میں رواں، سلیقہ مند ہو اور خود پسند تو ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ اس نے کہا، تو تہمینہ اور مَیں دونوں ہی ہنس پڑیں۔ تو اس حساب سے ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ سُکینہ کا بےمثل ہونا تو بنتا ہے۔
ایک تو بیچ میں کتنی ہی اِدھر اُدھر کی باتیں، یادیں چھلانگ مار کر کُود پڑتی ہیں کہ اصل کہانی بیچ میں رہ جاتی ہے۔خیر، سُکینہ کی گلیمرس شخصیت کی دل دادہ خواتین جب اسکول بس سے اُترنے والے بچّوں کے بستے تھامے ہمیں خدا حافظ کہہ کر چلی گئیں، تو یک دَم محسوس ہوا، جیسے پورے ماحول پر سنّاٹا سا چھا گیا ہے۔بس پھر کیا تھا، ہم بھی وہاں سے اُٹھے اور گھر آگئے، لیکن سعدیہ گھر نہیں تھی، تو ہم نے فاطمہ سے کہا’’مجھے اپنی ماں کے موبائل کی پکچر گیلری تو نکال کر دو۔‘‘اس میں تو ڈھیروں ڈھیر تصویریں تھیں۔
اُن تصاویر میں جو نمایاں خاتون نظر آئی، اُسے دیکھ کر دل نے کہا ’’یہی سُکینہ ہو سکتی ہے۔‘‘ پھر وہ تصویر فاطمہ کو دکھائی اور اس کی تصدیق پر ہم نے خود کو شاباشی دیتے ہوئے کہا’’واہ! کیا بات ہے تیری۔‘‘سعدیہ جب آئی تو تفصیلی رپوٹ اس کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وہاں صبح کا وقت گزارنا ہمارے لیے کتنا دل چسپ ثابت ہوا۔ پھر ڈھکے چُھپے الفاظ میں یہ بھی بتادیا کہ ’’بھئی ،ہمارے لیے تھوڑی بہت آزادی بہت ضروری ہے اور ہم اس طرح کی سرگرمیاں جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘ تو اس نے کسی سخت ماں کی طرح ’’ہمم… ‘‘کیا اور سُکینہ کے ذکر پر کِھلکِھلا کر ہنستے ہوئے بولی’’صُورت کے ساتھ دل کی بھی بے حدحسین ہے۔‘‘
اگلا دن بڑا خُوب صُورت تھا۔ ہم سرشاری کی سی کیفیت میں باہر نکلے۔مطلوبہ جگہ پہنچے تو وہاں بس سنّاٹا اور ویرانی تھی۔ آج دھوپ بڑی ماٹھی اور ہوائوں میں بھی بڑی کاٹ سی تھی۔ تھوڑی دیر بینچ پر بیٹھے، اوپر والے سے کچھ بات چیت کی،پھر ذرا گھومنے پِھرنے نکل کھڑے ہوئے۔اِن عمارتوں میں کئی چھوٹے چھوٹے ملکوں کے سفارت خانے بھی تھے اور یہیں گھومتے پھرتے ہم نے اُسے دیکھا۔ وہ مریم تھی،گیمبیا کے سفارت خانے کی ملازم، اس کے ساتھ خُوب گپ شپ کی۔دفعتاً اس نےپوچھا’’چِین کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ ’’ارے بھئی، ہماری کیا اوقات کچھ کہنے کی۔ چِین سے متعلق تو ایک دُنیا محوِ حیرت ہے۔‘‘ ہم نے لمبی سانس لیتے ہوئے کہا۔’’ٹھیک کہتی ہیں، ایسا ہی ہے۔‘‘اس نے سر ہلایا۔
فون نمبرز کا تبادلہ ہوا اور ہم واپس اُسی جگہ آبیٹھے کہ اب اُن میوہ جات سے کچھ انصاف کریں، جنہیں جیب میں بھر کر لائےتھے۔جب ہم باداموں کو ایک پھکّے کی صُورت منہ میں ڈال رہے تھے، تو نظر اُس پر پڑی، جو کسی ڈرامائی کردار کی طرح نمودار ہوئی تھی۔سچ تو یہ ہے کہ وہ ہمیں کسی غیر متوقع انعام ہی کی طرح ملی تھی۔ وہ چینی خاتون، تنگ شیائو تھی، جو بادِ بہاری کی مانند آئی تھی۔سنگی بینچ پر بیٹھنے اور صرف چند لمحے ہمیں گھورنے کے بعد اس نے خُوب صُورت لہجے والی انگریزی میں ہمارا نام اور’’آپ کہاں سے ہیں؟‘‘ پوچھا، تو ہمارے مَن اندر تو خوشی نے جیسے قِلقاری سی ماری۔
پاکستان کا نام سُنتے ہی اس نے بہت گرم جوشی سے ہمارا ہاتھ تھاما اور بتایا ’’مَیں تین مرتبہ پاکستان جاچُکی ہوں۔اجوکا اور پیرو تھیٹر سے واقف ہوں، بلکہ مدیحہ گوہر سے بھی مل چُکی ہوں۔‘‘ پھر ایک اور عجیب سی بات ہوئی۔اس نے ذرا راز داری سے پوچھا،’’ آپ کا خدا پر یقین ہے؟‘‘ اِس بار ہم نے گہری نظروں سے اُسے دیکھا۔ بیٹی اور داماد کی زبانی چینیوں کے عقائد سے متعلق جو کچھ سُنا تھا، اُس میں تو واقعی خدا کہیں نہیں تھا۔ اس لیے تنگ شیاؤ کا سوال کچھ زیادہ عجیب نہیں لگا۔
خیر، چند لمحے اُسے خاموشی سے، قدرے حیرت بَھری نظروں سے تکتے رہنے کے بعد کہا،’’یقین کی کیا بات ہے، ہمارا تو سب کچھ اللہ ہی ہے، رَگوں میں دوڑتے خون کی طرح۔‘‘ وہ عیسائی عقیدے سے تعلق رکھتی تھی اور انگلینڈ کی ’’دی چرچ آف گاڈ‘‘ سے رضاکارانہ طور پر منسلک تھی، بے شمار ایوارڈز اور انعامات جیت چُکی تھی۔اُسے ’’کوئنز ایوارڈ‘‘ بھی مل چُکا تھا۔ یہی نہیں، ’’لائو شی ٹی ہائوس‘‘ کے اوپرا تھیٹر سے بھی وابستہ رہی ۔بقول اس کے،’’ جب مجھے ہدایت ملی، تو زندگی کی پٹری بدل گئی اور مَیں خدا سے جُڑ کر اُس کے بندوں کی خدمت میں جُت گئی۔‘‘
سچّی بات ہے، لائوشی ٹی ہائوس کے اوپرا سے اُس کےتعلق کا سُن کر ہم نے اُسے بغور دیکھا۔ شاید اس لیے کہ ہمارے داماد، عمران کا ہمیں اسی میںاوپرا دکھانے کا پروگرام تھا۔ پوچھنے پر اس نے کہا ’’رقص و موسیقی اور آرٹ و ادب سے میری چار پیڑھیاں وابستہ ہیں۔ میری نانی نے اپنی آنکھیں، جان اسی آرٹ کی نذرکیں۔ مائو کی بیوی اور اس کے کارندوں نے اُن کے شوہر، اُن کی دوست سبھی کو سولی پر چڑھا دیا تھا۔‘‘ مائو سے چوں کہ ہمارا عقیدت کا ایک رشتہ جُڑا تھا، تو تنگ کے الفاظ نے آناً فاناً اس میں دراڑیں ڈال دیں اور ہمیں یہ جاننے کا تجسّس ہوا کہ اس کی نانی جیل کیوں گئیں اور اندھی کیسے ہوئیں۔‘‘ تو جب ہم نے یہ اُس سے پوچھا، تو وہ بولی’’میرے گھر آئو گی ،تب تفصیلاً بتاؤں گی۔‘‘اس کا گھر وہیں قریب ہی تھا۔
ہماری بے تابانہ خواہش کے اظہار پر اس نے کہاکہ وہ کسی دن ہمیں اپنے گھر لے کر جائے گی۔ اور یہ بھی بتایا کہ اس کی ایک ساڑھے چار سال کی بچّی بھی ہے، جسے اس کی والدہ(بچّی کی نانی) سنبھالتی ہیں۔ شوہر ایک ہفتے سے کام کے سلسلے میں جنان گیا ہوا ہے۔ ’’یہ یقیناً چِین کا کوئی شہر ہوگا۔‘‘ ہم نے اس کی بات سُن کر خود ہی قیاس کیا۔ خیر، ہم نے اُسے آئس کریم کی دعوت دی کہ سُپر مارکیٹ زیادہ دُور نہ تھی۔ سعدیہ اور ہم وہاںدو، تین بار جاچُکے تھے۔ وہ ایک رُوسی سُپر اسٹور تھا، جہاں روسی لڑکیاں انگریزی میں کچھ دال دلیہ کرہی لیتی تھیں۔
آئس کریم کھاتے ہوئے ہم نے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ہمیں پرانا بیجنگ اور اس کی تہذیبی و ثقافتی زندگی کی جھلکیاں دکھانے میں مدد کرے۔ اس اظہار میں میری ہچکچاہٹ کے ساتھ کچھ ڈھکے چُھپے اور کچھ کُھلے الفاظ میں یہ پیش کش بھی تھی کہ ہم اس کی خدمات کا ایک مناسب سا معاوضہ بھی دینے کو تیار ہیں۔اُس نے اِسے سمجھا اور اطمینان بَھرے لہجے میں بولی۔’’مَیں جس مذہب سے وابستہ ہوں، وہ صرف انسانوں کی خدمت کا پرچار کرتا ہے۔ آپ بوڑھی ہیں اور لکھاری بھی، پھر میرے مُلک پر لکھنے کی بھی خواہش مند ہیں۔مجھے یہ اندازہ ہے کہ اگر آپ نے پرانے بیجنگ میں لائو شی ٹی ہائوس نہ دیکھا، تو پھر کیا دیکھا۔
لائوشی جیسے عظیم لکھاری اور فن کار کے بارے میں ضرور لکھنا چاہیے۔ اور ہاں، آپ نے میری نانی وانگ ٹینگ اور چین کی سدا بہار مترنّم گلوکارہ، چھانگ چھوان کے بارے میں کچھ نہ پڑھا، تو پھر بھلا چِین آنے کا کیا فائدہ؟ اُن کی کہانیاں سُن یا پڑھ کر آپ کے دل میں درد بھی اُٹھے گا اور آنکھ سے آنسو بھی چھلکیں گے۔‘‘ اُس کی باتوں نے ہمیں دَم بخود کردیاتھا ۔ ہم ہڑبڑا کر اس کا چہرہ دیکھنے لگے۔اس نے ہمارے چہرے پر پھیلے ہونّق پَن اور حیرت کو دیکھا اور بولی۔’’چِین کی تاریخ اِن ناموں کے بغیر ادھوری ہے۔
ظلم، جبر، آمریت کی تندوتیز آندھی میں لپٹے یہی وہ لوگ تھے، جنہوں نے سچ کے لیے آواز اٹھائی۔ ان کے بارے میں پڑھنا، سُننا تو بہت ضروری ہے۔ اور مَیں اِس کام میں آپ کی جی جان سے مدد کروں گی کہ یہ تو میرا فرض ہے۔‘‘ اس کی باتوں سے ہماری تو روح تک سرشاری میں ڈُوب گئی۔ ’’اُف اللہ! احسانِ عظیم تیرا۔ تُو کیسا مسبّب الاسباب ہے۔‘‘چلتے چلتے ہم نے اس سے یہ بھی التجا کی کہ وہ ہمارے گھر آئے کہ سعدیہ اُس سے مل لے گی، تو وہ بھی مطمئن ہوجائے گی۔ اور وہ، ’’اوکے‘‘ کہتے ہوئے جس خوش دِلی سے مُسکرائی تھی، اُس پر جی قربان ہونے کو چاہ رہا تھا۔ (جاری ہے)